پہلا جلسہ
اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ میں پہلا جلسہ کر کے اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ ان کا پہلا شو تھا جو خاصا کامیاب رہا۔ جلسہ میں حاضری اچھی تھی، مسلم لیگ ن کے جلسوں کے اعتبار سے تو یہ بھرپور جلسہ رہا۔ جلسے کے بعد حسب روایت تحریک انصاف کے وفاقی اور صوبائی وزرا نے جلے کٹے تبصرے کئے اور جلسے کو ناکام قرار دیا۔ کمزور تبصروں سے انہوں نے اپنا ہی مذاق بنوایا۔ جو جلسہ ٹی وی چینلز پر لائیو نشر ہو رہا ہے، اس کے بارے میں اندازہ لگا نے کے لئے کسی وزیر کے بیان کی ضرورت نہیں۔ دیکھنے والے خود رائے قائم کرسکتے ہیں اور انہوں نے قائم کی۔
گوجرانوالہ میں بڑے سیاسی شو کی توقع تھی کہ یہ مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے۔ گوجرانوالہ شہر میں مسلم لیگ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور یہاں پر پچھلے دونوں انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار یک طرفہ مقابلے سے ہارے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں تو مسلم لیگ ن نے پورے گوجرانوالہ ڈویژن کا تقریبا صفایا کر ڈالا تھا، گجرات سے ق لیگ کی ایک آدھ نشست کے سوا سب کچھ سمیٹ ڈالا۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کوپنجاب میں خاصی مزاحمت کا سامنا تھا، فیصل آباد میں انہیں بھاری نقصان ہوا، جنوبی پنجاب اور پنڈی ڈویژن میں صفایا کرا بیٹھے، مگر سنٹرل پنجاب خاص کرگوجرانوالہ ڈویژن نے تب بھی ان کے ساتھ وفا کی۔ سیالکوٹ اور ناروال سے تحریک انصاف تقریبا سب نشستیں ہار بیٹھی۔ گجرات کی کامیابی بھی چودھریوں کے کھاتے میں جاتی ہے۔ خرم دستگیر گوجرانوالہ سے ن لیگ کے اہم رہنما ہیں، ان کے والد غلام دستگیر خان شہر کے طاقتور ترین سیاستدان رہے ہیں۔ خرم دستگیر اچھے پڑھے لکھے، سنجیدہ سیاستدان ہیں، گلبرگ لاہور میں بک ریڈنگ کے حوالے سے مشہور دکان پر انہیں انگریزی کتابیں خریدتے اکثر دیکھا گیا ہے۔ خرم دستگیر اور ان کے گروپ نے جلسہ کو کامیاب بنانے کے لئے خاصی محنت کی۔ دیگر جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہوئے، مگر بنیادی طور پر مسلم لیگ ن اور گوجرانوالہ کے مسلم لیگیوں کا شو تھا۔ کریڈٹ بھی انہیں ہی جانا چاہیے۔
حکومت کا رویہ خاصا غیر دانشمندانہ رہا۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ گوجرانوالہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کا گڑھ ہے، یہاں شو اچھا رہے گا، ویسے بھی کسی سیاسی تحریک کو پکڑ دھکڑ کے ذریعے ناکام نہیں بنایا جاسکتا۔ گرفتاریاں، تشدد ہمیشہ سیاسی تحریک میں ایندھن کا کام دیتی ہیں۔ تحریک انصاف یہ سبق پچھلے سال سیکھ چکی تھی، جب مولانا فضل الرحمن نے اپنا آزادی مارچ کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ حکومت نے تب تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی ٹکرائو سے گریز کیا۔ حکومت اگر مداخلت نہ کرے تو جلسے جلوسوں سے کیا ہوسکتا ہے؟ کچھ نہیں، چند گھنٹے کے جلسے کے بعد لیڈروں اور کارکنوں کو منتشر ہونا پڑتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی اپنے چند دنوں کے دھرنے کے بعد ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لئے پلان بی، سی، ڈی کے نام لئے اور واپس لوٹ گئے۔ دو چار دن مختلف شہروں میں چھوٹے موٹے احتجاجی مظاہرے کئے اور پھرٹھس۔
محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی، کہا جاتا ہے کہ لاہور کی تاریخ کے چند بڑے جلوسوں میں سے ایک جلوس ان کے لئے نکالا گیا۔ تب جونیجوحکومت میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں تھی، جو پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے مشورے دے رہے تھے۔ جونیجو صاحب سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھرپور عوام رابطہ مہم چلائی، چاروں صوبوں میں بڑے جلسے اور ریلیاں نکالیں۔ آخر کار ان کے پاس بھی خاموش ہو کر بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ جو نیجو حکومت کو معمولی سا خطرہ بھی لاحق نہ ہوا۔
عمران خان اور ان کی پارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ اپوزیشن کے جلسوں اور تحریک کا خیر مقدم کرتے۔ اچھا ہوتا کہ عمران خان ٹی وی پر آ کر دو تین منٹ کی تقریر فرماتے۔ وہ بے شک اپوزیشن کے احتجاج کو غیر ضروری یا بے وقت قرار دیتے، مگر ساتھ یہ کہتے، " اپوزیشن کا یہ سیاسی حق ہے، ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی، ہم کنٹینر کھڑے کریں گے نہ ہی اپوزیشن کے کارکنوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ یہ لوگ سکون سے گوجرانوالہ جائیں، جلسہ کریں اور ہاں کورونا کے ایس اوپیز کا بھی خیال کر لیں کہیں گوجرانوالہ کے مقامی لوگ کورونا سے متاثر نہ ہوجائیں۔" زیادہ اچھا بننے کا شوق تھا تو کہہ ڈالتے، " انتظامیہ کی جانب سے جلسے کے شرکا کے لئے مفت ماسک کا انتظام کیا جائے گا، جلسے میں جانے والے باہر گیٹ سے ماسک پکڑتے جائیں، پانی کی ایک عدد بوتل بھی ملے گی۔ مزے سے جلسہ سنیں اور سابق حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے فرق کو بھی ملاحظہ کریں۔"
یہ ایک میچور سیاسی رویہ ہوتا۔ ایسی تقریر عمران خان اگر کرتے تو آج مثبت ثمرات بھی سمیٹ رہے ہوتے۔ عملاً اس کے برعکس ہوا۔ انتظامیہ نے کنٹینر کھڑے کر کے، کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کر کے گناہ بے لذت کشید کیا۔ اڈہ پلاٹ، لاہور پر کنٹینر کھڑے کرنے سے راہ گیروں کو پریشان کرنے کے سوا کیا حاصل ہوا؟ کیا مریم نواز شریف کو جاتی عمرہ سے گوجرانوالہ جانے سے روکا جا سکا؟ کیا مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری یا دیگر اپوزیشن رہنمائوں کو جلسہ گاہ پہنچنے سے روکا جا سکا؟ کیا گوجرانوالہ میں سیاسی جلسہ ناکام ہوا؟ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ الٹا عمران خان کی حکومت نے اپنی مس ہینڈ لنگ میں ایک اور کا اضافہ کر لیا۔ وقت پڑنے پر عمران خان بھی روایتی سیاستدان ہی ثابت ہوئے۔
اپوزیشن نے پہلا شو اچھا کر لیا، مگریہ ان کاسیاسی گڑھ تھا۔ اگلا جلسہ ان کا کراچی میں ہے، جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، اس نے اپنے کارساز دھماکہ کی برسی کو جلسے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر ہونے والے اس حملہ میں ڈیڑھ سو سے زیادہ پارٹی کارکن شہید ہوگئے تھے۔ یہ سندھ پیپلزپارٹی کے لئے جذباتی موقعہ رہا ہے، ہر سال وہ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ توقع ہے کہ کراچی میں بھی وہ مناسب شو کر لیں گے۔ اگلے مراحل اہم ہوں گے۔ اپوزیشن ممکن ہے کوئٹہ میں اچھا جلسہ کر لے کہ وہاں کی دونوں بڑی جماعتیں جے یوآئی اور اچکزئی صاحب کی میپ اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں۔ لاہور میں بڑا جلسہ کرنا چیلنج ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر جلسے کے ساتھ اپوزیشن کے لئے مشکلات بھی بڑھیں گی۔ جس قدر سخت لب ولہجہ اپوزیشن رہنما اپنا چکے ہیں، اس کے بعد اگلے جلسوں میں وہ مزید کیا کر سکتے ہیں؟ وہ اپنی باتیں دہرائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تازگی ختم ہوجائے گی۔
پی ڈی ایم نے بظاہر یہی تاثر دیا ہے کہ مختلف شہروں میں جلسوں جلوسوں کے بعد وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے اور وہاں تب تک دھرنا دیں گے جب تک حکومت ختم نہ ہوجائے۔ یہ بات کہنے میں جتنی آسان ہے، اس پر عمل ویسے نہیں ہوسکتا۔ پارلیمان کے جانے کی حمایت پیپلزپارٹی قطعاً نہیں کرے گی، اسے اپنی صوبائی حکومت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کا اچھاخاصا بڑا گروپ اتنا جلدنئے الیکشن کے لئے تیار نہیں۔ سوائے مولانا فضل الرحمن کے کوئی بھی فوری انتخابات نہیں چاہتا۔ پھر دسمبر، جنوری کی سرد شامیں اسلام آباد میں دھرنے کے لئے نہایت غیر موزوں ہیں۔ دیکھیں پی ڈی ایم اپنے ٹیمپو کو کس طرح برقرار رکھتا ہے؟
گوجرنوالہ جلسہ میں مختلف لیڈروں نے مختلف موڈ میں تقریر کی۔ میاں نواز شریف کی تقریر نہایت جارحانہ اور خود کش حملے کی طرح تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں آل آئوٹ وار کا اعلان کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس جارحیت کا انہیں کس حد تک نقصان پہنچتا ہے؟ بظاہر انہوں نے مسلم لیگ ن کے لئے سیاست کا سکوپ خاصا کم کر دیا۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر ایسا کیا ہوگا، وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، مگر اس تقریر سے شدیدفرسٹریشن اور غصہ جھلک رہا تھا۔ دیوار سے لگائے جانے کا بے بس تاثر۔ میاں صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ لیڈر دلبرداشتہ ہو کر بھی اپنے ہاتھ میں کچھ کارڈز رکھتے ہیں، سب آگ میں نہیں جھونک دیتے۔ بلاول بھٹو نے بہت طویل تقریر کی۔ انہیں اپنی تقریر کو کچھ مختصر کرنا چاہیے تھا، نصف شب ہوجانے کے بعد اتنی لمبی تقریر کی کیا تک تھی؟ بلاول کی تقریر وں میں نوٹ کیا ہے کہ وہ غیر ضروری اور بے محل مسکراتے ہیں۔ غمزدہ یا غصیلے جملوں کے ساتھ بھی چمکدارمسکراہٹ پیش کرتے ہیں۔ شائد اردو میں تقریر انہیں پوری طرح سمجھ نہیں آتی۔ بلاول نے البتہ سرخ لکیر کا خیال رکھا اور پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں گئے۔ مولانا فضل الرحمن کی بدقسمتی کہ وہ اس وقت تقریر کے لئے آئے جب ٹی وی آڈینس کم ہوگئی تھی، جلسہ کے کچھ شرکا بھی واپس چلے گئے۔ تقریر ان کی مناسب تھی، انہوں نے جارحیت کا اشارہ دیا، مگر زیادہ کھلے نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں پیپلزپارٹی میاں نواز شریف کو ایک اور خود کش حملے کا موقعہ دیتی ہے یا انہیں ہولا ہاتھ رکھنے کا مشورہ دے گی؟