Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Panch Din Ki Takheer

Panch Din Ki Takheer

پانچ دن کی تاخیر

چند برسوں سے نیو ائیر کے حوالے سے کالم لکھتا رہاہوں۔ گزرے سال کے تجربات، مشاہدات پر الگ سے لکھنا اور پھر اگلے سال کے متعلق کئے گئے عہد، کمٹمنٹ وغیرہ۔ اس بار ایسا نہیں کیا۔ پچھلے سال (2021)میں پڑھی کتابوں کے بارے میں تو لکھا مگر نیو ائیر ریزولیوشن پر لکھنے کو دل ہی نہیں چاہا۔ یہی خیال آیا کہ ہر بار ہم نئے سال کے لئے خود سے وعدے کرتے ہیں، ان میں سے بمشکل ہی کوئی پورا ہوپاتا ہے۔ اس قسم کی تحریروں میں یکسانیت کا عنصر بھی آجاتا ہے، خود کو دہرانا ویسے بھی ناپسندیدہ امر ہے۔

یکم جنوری کو نیو ائیر ریزولیوشن پر کالم نہیں لکھا۔ پھر دو ایسی تحریریں پڑھیں جنہوں نے رائے تبدیل کر دی۔ پہلی معروف لبنانی نژاد مغربی دانشور، رسک اینالسٹ نسیم طالب کی مشہور اینٹی لائبریری والی تحریر ہے۔ عام تصور ہے کہ لوگ اپنی ذاتی لائبریری کے لئے کتابیں خریدتے ہیں، جب انہیں پڑھ نہ سکیں تو نئی کتابیں نہیں لیتے کہ پہلے پچھلی تو پڑھ لیں۔ نسیم طالب اس کے برعکس مشورہ دیتا ہے جسے وہ اینٹی لائبریری کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی لائبریری میں ایسی کتابیں زیادہ ہیں جو نہیں پڑھیں، تب بھی آپ نئی کتابیں خریدنا بند نہ کریں۔ کتابیں لیتے رہیں، انہیں اپنی لائبریری میں رکھیں اور یہ سمجھ لیں کہ نہ پڑھی جانے والی کتابیں آپ کو لاشعوری طور پر مطالعہ کرنے پر اکسائیں گی۔ مجبور کریں گی کہ ایک ایک کر کے ان کتابوں کو پڑھ ڈالو۔

دوسری تحریر فیس بک پر دیکھی، کسی نامعلوم نوجوان نے لکھا کہ ہاتھ میں تسبیح رکھنی چاہیے، اگرچہ بہت بار ہم تسبیح صرف ہاتھ میں پکڑے رہتے ہیں اور اللہ کانام نہیں لے پاتے، لیکن تسبیح کا ہاتھ میں ہونا ہی بذات خود مفید چیز ہے۔ آپ پانی کا گلاس پکڑنے کے لئے ہی تسبیح دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرتے ہیں اور ایسے میں صرف سبحان اللہ یا الحمد اللہ ہی کہہ دینے سے چند نیکیاں کھاتے میں لکھی جائیں گی۔ اس تحریر کے مطابق تسبیح ہاتھ میں رکھنا بذات خود اس عزم کی تجدید ہے کہ اللہ کا ذکر کرنا ہے اور اپنے کام کاج کے دوران بھی خالق حقیقی کو نہیں بھولنا۔ اس سے دوسروں کو جو ترغیب ملے گی، وہ اپنی جگہ بونس ہے۔

یوں ہم نے فیصلہ کیا کہ پانچ دن تاخیر سے سہی، مگر بیتے سال کے جائزے کے ساتھ نئے سال سے دوہاتھ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر ڈالی جائے۔ اس میں قارئین کو بھی شیئر کیا جائے تاکہ وہ بھی اپنے اپنے انداز اور حالات کے مطابق فہرست بنا سکیں۔ پچھلا سال 2021تلخ وشیریں سے معمور رہا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کورونا کے حوالے سے یہ سال سخت گزرا۔ بہت سی ممتاز علمی، ادبی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں، بے شمار لوگ چلے گئے۔ کورونا ویکسین کا بننا ایک اچھی خبر تھی، اس سے بہت بچت ہوئی، اب تو تیسرے بوسٹر ڈوز کی بات ہو رہی ہے، اللہ خیر کرے اور اس نئے والے منحوس اومیکرون سے بھی جان چھڑائے، آمین۔ پچھلے سال اپریل میں اہلیہ کورونا کا شکار ہوئیں، مجھے اس سے چند ماہ پہلے ہوا تھا، کم وبیش تمام گھر والے اس کو بھگت چکے ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں ڈینگی کی لہر آئی تو میرے علاوہ منجھلے بیٹے معز کو بھی ڈینگی کا مسئلہ لاحق ہوا۔ کئی دن مشکل میں رہے۔ الحمدللہ کہ بیماریوں سے ہمارا خاندان گزر کر نکل گیا۔ خیر رہی۔ میری والدہ نسبتی کو سال کے اواخر میں شدید ہارٹ اٹیک ہوا، اللہ کا کرم ہوا اور بروقت علاج ہوگیا۔

پچھلا سال کتابوں کے حوالے سے البتہ اچھا رہا۔ سال کی ابتدا میں میری کتاب" زنگار" معروف اشاعتی ادارے بک کارنر جہلم نے شائع کی۔ اسے اچھی پزیرائی ملی اور ایڈیشن ختم ہونے کے قریب ہے۔ چند دن پہلے کراچی میں پانچ روزہ کتاب میلہ تھا، اس میں بک کارنر نے بھی سٹال لگایا، اطلاع ملی کہ وہاں زنگار کی جتنی کاپیاں لے گئے تھے، سب فروخت ہوگئیں بلکہ کئی گاہکوں کو واپس لوٹنا پڑا۔ الحمد اللہ۔ کتابیں پڑھنے کے بہت سے مواقع ملے۔ یوں لگتا ہے جیسے چاروں طرف سے کتابوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ کتابیں چلی آ رہی ہیں۔ انہیں پڑھنے کے لئے ان شااللہ نئے سال میں زیادہ منظم انداز سے پلاننگ کروں گا۔ ویسے یہ عادت ڈال لی ہے کہ کتاب جس طرح ممکن ہو، پڑھ ڈالنی ہے۔ پی ڈی ایف ملے تو اسے بھی فوری نمٹا دینا ہے۔ بے شمار پی ڈی ایف کتابیں اکٹھی کر رکھی ہیں، اللہ کرے نئے سال میں انہیں پڑھا جاسکے۔

پچھلے سال ایک بڑی منفرد اور نہایت عمدہ تفسیر پڑھنے کو ملی، آسان بیان القرآن مع حاشیہ عثمانی(تین جلدیں)۔ اس سال ان شااللہ اسے تواتر سے پڑھنے کی کوئی ترتیب بناتے ہیں۔ سال کے آخری دن بلکہ کہہ لیں نیو ائیر نائیٹ کو محترم میاں مشتاق صاحب نے کھانے پر بلایا۔ مشتاق صاحب امریکہ میں مقیم ہیں، وہ سابق سینیٹر طارق چودھری کے بھائی اور جناب ہارون الرشید صاحب کے کزن ہیں۔ اسی محفل میں برادرم رئوف کلاسرہ بھی شریک ہوئے، انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں بہت سی دلچسپ باتیں سنائیں۔ واپسی پر مشتاق صاحب نے کتابوں کا ایک ڈبہ ساتھ کر دیا۔ گھر آ کر دیکھا تو وہ صییح بخاری کی شرح تھی، نو دس جلدوں میں بڑا عمدہ کام کیا گیا۔ مجھے خیال آیا کہ پہلے تفسیر اور پھر بخاری کی یہ شرح ملنے کا مقصد ہے کہ قدرت مطالعے کی ایک خاص سمت متعین کرانا چاہتی ہے۔ اللہ ہمت دے تو اس سال اپنے مطالعہ میں دینی کتب کو ترجیح میں رکھتے ہیں۔

پچھلے سال سے کئی باتیں سیکھنے کو ملیں۔ صحت کے حوالے سے اچھی بات یہ پتہ چلی کہ کسی سخت ڈائٹنگ شیڈول کے بغیر بھی وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنی خوراک میں کمی کی، دن بھر میں کھائی جانے والی روٹی کی تعداد نصف کر دی اور میٹھے، بیکری آئٹمز وغیرہ سے پرہیز کیا تو آٹھ نو کلو وزن کم ہوگیا۔ ڈینگی اور کورونا کے سٹریس کے دنوں میں پھر سے وزن بڑھ گیا۔ اب وزن لازمی کم کرنا پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نیو ائیر ریزولیوشن وزن کم کرنے کے ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ ناکامی بھی اسی حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ میرے لئے مگر وزن کم کرنا اب بہت ہی ضروری اور اہم ہوگیا ہے کہ بڑھتے وزن سے شوگر، بلڈ پریشر جیسے مسائل تو لاحق ہوچکے تھے، اب سانس کا پرابلم بھی شروع ہوا ہے اور خاص طور سے یہ اندیشہ ہے کہ رات کو سوتے ہوئے Sleep Apnea جیسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ طبی مسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے سال میں پندرہ بیس کلو وزن لازمی کم کرنا پڑے گا۔ اللہ نے ہمت اور مہلت دی تو ان شااللہ یہ کر دکھائیں گے۔

اس سال لکھنے لکھانے کے کام میں فوکس کرنے کا ارادہ ہے۔ میری دو کتابیں تقریباً تیار ہیں، کوشش ہے کہ فروری میں لاہور کے کتاب میلے سے پہلے کم از کم ایک کتاب تو شائع ہوجائے۔ اللہ نے چاہا تو اس سال کم از کم تین کتابیں شائع ہوجائیں گی۔ کورونا نے پچھلے دو برسوں میں یہ سبق دیا ہے کہ زندگی پر بھروسہ نہ کیا جائے اور جس قدر وقت میسر ہو، اسے غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ خیر کا کام کر لینا چاہیے۔ ہم لکھاری ہیں، مالی وسائل زیادہ نہیں البتہ اپنے قلم کے ذریعے کچھ نہ کچھ کارخیر ہوسکتا ہے۔ اسی لئے سوچا ہے کہ اب تک جو زندگی گزری ہے، اس میں اخذ کردہ تجربات، مشاہدات پر لکھنے کا ارادہ ہے، ایک طرح سے یہ داستان حیات ہوجائے گی۔ اگر مہلت ملے تو اس کا دوسرا حصہ بعد میں لکھ دیں گے۔ اپنی پسندیدہ کتابوں پر بھی لکھنے کا ارادہ ہے، کالم کے انداز میں اپنی پسندیدہ سو کتابوں پر لکھ دیا جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو یہ ایک الگ سے کتاب بن جائے گی۔

مختلف زبانیں سیکھنے میں ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے، مگر اپنے ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ پشتو سیکھنے سے دلچسپی ہے۔ عربی زیادہ نہیں تو قرآن فہمی کی حد تک تو ہر مسلمان کو سیکھنا چاہیے۔ اب لگتا ہے کہ یاداشت پہلے جیسی تیز نہیں رہی اور نئی زبان سیکھنا شائد مشکل ہوجائے۔ یہ البتہ سوچا ہے کہ مختلف مسنون دعائیں یاد کی جائیں۔ صبح شام کے اذکار جن کا پڑھا جانا یقینی طور پر نفع بخش ثابت ہوگا۔ اس سال اپنے قارئین کے لئے کچھ واٹس ایپ گروپ بنائے ہیں۔ فیس بک پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے، کسی بھی وقت ہزاروں فالورز والی آئی ڈی ختم ہوسکتی ہے۔ واٹس ایپ گروپس اور ٹیلی گرام پر چینل البتہ دلچسپی رکھنے والے قارئین سے براہ راست رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ دیکھیں یہ تجربہ کیسا رہتا ہے۔ سال کے اختتام پر ان شااللہ آپ سے نتائج شیئر کروں گا۔

پچھلے دو تین برسوں سے یہ خیال دامن گیر ہے کہ اب تک جو کام کیا ہے، اسے سمیٹ لیا جائے تاکہ زندگی میں نئے پراجیکٹ شروع کئے جائیں۔ نئے اہداف اور نئے عزائم کے ساتھ ان پر کام۔ میرا پانچ روز تاخیر سے لکھے نیو ائیر ریزولیوشن کالم کا مرکزی خیال یہی ہے کہ کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر خواب دیکھنا، زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کا خیال تو نہ ترک کیا جائے۔ یہ تو ناکامی اور شکست خوردگی کی انتہا ہوگی کہ آدمی خواب دیکھنا، نئی کمٹمنٹ اور نئے عزم کرنا ہی ختم کر دے۔ تب تو انسان اور جوہڑ میں رینگتے کسی کیڑے میں کیا فرق رہ جائے گا؟

Check Also

Modi Hai To Mumkin Hai

By Wusat Ullah Khan