پاکستانی سیاست کے اوراق
عدم اعتماد کی تحریک پر پچھلے دو ہفتوں میں اتنا کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید کچھ لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔ واقعات اتنی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ عام آدمی تو کیا، صحافی تک شدید بیزار ہوچکے۔ اگلے روز ایک صحافی دوست کہنے لگے، "اسٹیبلشمنٹ کو کبھی غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے، اس سے عجیب وغریب سیاسی ماحول بن جاتا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اس بار اپوزیشن کی طرف ہوتی تو کب کے اتحادی حکومت سے ٹوٹ چکے ہوتے اور شائد عمران خان کو اکثریت ختم ہوجانے پرشرما شرمی استعفاد ینا پڑ جاتا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ حکومت کی طرف ہوتی تو پھر اب تک اپوزیشن والے منہ کی کھا چکے ہوتے۔ "
بات سچ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار ہونے یا اس کے تاثر کی وجہ سے سیاست میں پنجابی سلینگ کے مطابق" گھڑمس "مچا ہوا ہے۔ سیاستدانوں کو خود کر کے کھانا پڑا ہے تو سب بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ اپوزیشن میں ایک سے ایک بڑھ کر کاری گر استاد موجود ہے، ہارس ٹریڈنگ کا تین عشروں پر محیط تجربہ رکھنے والے بھی، مگر پھر بھی پریشانی ہے کہ کہیں آخر میں ہاتھ نہ ہوجائے۔ رہی حکومت تو جو وزیراعظم اور وزرا دو سال پہلے سینٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مز ے سے ریلیکس پھررہے تھے، اب ان کے ہوش اڑے ہوئے ہیں۔ یہ بلند وبانگ نعرے، بڑھکیں، اونچی آواز میں جملہ بازی، یہ سب نروس ہونے کی علامت ہے۔ یاد رکھیں جو شخص ایسا کرتا ہے وہ اندر سے ہل چکا ہوتا۔
ادھر وہ جماعتیں یا سو کالڈ اتحادی جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کی طرف دیکھا کرتے تھے، ان کی حالت زیادہ بری ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ بار بار فون کی طرف دیکھتے اور پھر مایوس ہوجاتے ہیں۔ صحافیوں کو ہر روز مشاورت کرنے کی کہانی سنا دیتے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر بے شمار لطیفے اور میمز وغیرہ بن چکے ہیں۔ ایک تازہ لطیفہ پڑھا کہ آسٹریلیا پاکستان کی ٹیسٹ سیریز ختم ہوگئی، مگر اتحادیوں کی مشاورت ختم نہیں ہوسکی۔ دیکھیں کیا بنتا ہے ان سب کا۔ جہانگیر ترین گروپ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں؟ انہیں تو سب سے زیادہ واضح اور یکسو ہونا چاہیے تھا کہ وہ تو انتقام انتقام کھیل رہے ہیں۔ جو شخص یا گروپ انتقامی کارروائی میں بھی دوعملی اور مصلحت کا شکار ہے، پرانے عرب عرب شاعروں نے ایسے لوگوں کے لئے بڑے خوفناک قسم کے ہجویہ (طنزیہ)اشعار لکھ رکھے ہیں۔
ایسے میں ہم تو کتابیں پڑھ کر منہ کا ذائقہ بدل رہے ہیں، خاص کر پرانی سیاسی کتابیں۔ شیخ رشید آج کل وزیر داخلہ ہیں، نوے کے عشرے میں بھی وفاقی وزیر تھے، جیل بھی انہیں جانا پڑا۔ ایام اسیری کی ایک یادگار ان کی کتاب فرزند پاکستان ہے۔ چند ماہ قبل اس کتاب کا نیا ایڈیشن چھپا جس میں بہت سے اضافے کئے گئے اور کچھ حذف بھی ہوا۔ میرے پاس فرزند پاکستان کا پرانا اوراصلی نسلی ایڈیشن ہے، یہ کتاب اگست پچانوے میں شائع ہوئی تھی۔ محترمہ کے پہلے دور میں اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی، جو ناکام ہوگئی۔ تب شیخ رشید احمد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے، انہوں نے کتاب کے صفحہ 137پر اس کی دلچسپ تفصیل بیان کی۔
شیخ رشیداحمد لکھتے ہیں:"ایم کیو ایم سرکاری بنچوں پر بیٹھی تھی، میں ان کے چہرے پڑھ چکا تھا۔ ایم کیو ایم بیٹھی تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ سیٹی بجنے پر وہ پیپلز پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کر دیں گے۔ میں نے ایک بیان دیا کہ ایم کیو ایم کا ممبر جدھر مرضی بیٹھے وہ ہمارا ووٹ ہے۔ میری چھٹی حس نے یہ محسوس کر لیا کہ بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ رہی ہے اور میں نے دبئی میں بیان بھی دے دیا کہ اگلا اجلاس عدمِ اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہو گا۔ حالات نے یہ سچ ثابت کر دکھایا۔ ووٹوں کی جوڑ توڑ جاری تھی اور ممبروں کو مری میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن میرے ضمیر نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ پولیس کی نگرانی میں رہوں۔ جو کچھ میں نے ووٹوں کے جوڑ توڑ میں دیکھا، اس سے میرا دل چُور چُور ہو گیا۔
" غلام احمد مانیکا ایم این اے میری نگرانی میں تھا اور رئیس شبیر شاہ ایم این اے کو اسلام آباد سے لانے کے لئے مری سے میرے ساتھ آیا۔ ایک کوٹھی میں شبیر احمد نے اس سے ملاقات کی۔ وہ دوسرے دروازے سے نکل کر بھاگنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے دبوچ لیا اور کہا کہ تمہیں زندہ یا مردہ نواز شریف تک پہنچاؤں گا جس سے وہ گھبرا گیا۔ میں نے اسے گاڑی میں ڈالا اور مری کی پہاڑیوں میں اسے نواز شریف کے حوالے کیا اور بتایا کہ یہ بھاگ رہا تھا۔ پھر وہ نہ جانے کیسے نواز شریف کے ہاتھ سے نکل گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی منصوبہ بندی صحیح طریقے پر نہیں کی گئی۔ اگلے دن وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، لیکن پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کو بہت سارا نقصان پہنچا گئی۔ یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب تو نہ ہو ئی لیکن حکومت کے خاتمے کی اکثریتی منظوری بھی ہو چکی تھی۔
" نواز شریف بطور وزیراعظم "نواز شریف جتنا اچھے دل کا انسان ہے اور ملک کی خدمت کے جو جذبات رکھتا ہے وہ عوام تک صحیح نہیں پہنچ سکے۔ وہ ایک خداترس، پیرپرست اور پُر خلوص انسان ہے۔ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کچھ کر گزرنا چاہتا تھا۔ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں اتنے مضبوط اعصاب کا آدمی نہیں دیکھا، لیکن دو تہائی اکثریت بھی اس کو اقتدار سے ہٹانے کا سبب بنی۔ اس ملک کے بڑے سیاست دان اسے سیاست دان کم اور بزنس مین زیادہ سمجھتے تھے لیکن اس نے اپنے کارخانوں کے چھٹے بحری بیڑے کو ڈبو دیا۔ اپنے باپ، بھائی اور اپنے بھتیجے کو زندان کی نذر کر دیا حتیٰ کہ اس کا اکلوتا داماد بھی مقدمات کی زد سے نہ بچ سکا لیکن اس نے دنیا کے تمام تبصر ہ نگاروں سے یہ بات منوالی کہ وہ "آئرن مین" ہے۔
جس دن نوازشریف نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی، اسی دن غلام اسحاق خاں کے کان کھڑے ہو گئے تھے اور وہ نواز شریف کے دوستوں کے ذریعے معلومات جاننا چاہتا تھا کہ آٹھویں ترمیم کے بارے میں نوازشریف کا کیا ارادہ ہے۔ میری رائے میں نواز شریف کے وزیراعظم بنائے جانے پر غلام اسحاق خاں نے جو نخرے دکھائے، وہ نواز شریف کے دل میں بیٹھ چکے تھے۔ اگر نوازشریف کے پاس اتنی بڑی اکثریت نہ ہوتی تو غلام اسحاق خاں کسی پنجابی وزیراعظم کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ مختلف تعیناتیوں پر نسلی تعصب سے بالاتر نہیں تھا۔ شروع دن ہی سے اسحاق خا ن نے نوازشریف کو اپنی جیب کی گھڑی سمجھنا چاہا لیکن اب اس کے سامنے ایک مختلف نوازشریف تھا۔ "(صفحہ 151)
"صدر کے انتخابات میں ہماری منصوبہ بندی درست نہ تھی۔ پے در پے شکستوں سے ہمارے اندر کنفیوژن پھیل چکا تھا۔ کئی امیدوار میدان میں کُودے جن میں بگتی، اسحاق خان اور نصر اللہ بھی شامل تھے۔ مارشل لاء کی سب سے زیادہ مخالفت کا دعویٰ کرنے والا نوابزادہ نصر اللہ صاحب حقیقت میں عوامی تحریکوں کو مارشل لاء کی گود میں پھینکنے کا حقیقی مجرم ہے۔ اس نے جمہوریت کا لبادہ صر ف اپنی اندر کی خواہشوں کو ڈھانپنے کے لئے پہن رکھا ہے اور میرے خیال میں اچھا ہی ہو گیا کہ انہوں نے آخری عمر میں ایک ایک کر کے اپنے جمہوری کپڑے اتارنے شروع کر دئیے۔ (صفحہ191)
" نواز شریف نے شجاعت کے گھر مخصوص میٹنگ میں نوابزادہ کا نام تجویز کیا۔ جب میں چودھری شجاعت کے ہمراہ ایم این اے ہوسٹل اسلام آباد نوابزادہ نصر اللہ کے پاس گیا تو نوبزادہ پس وپیش سے کام لے رہے تھے۔ اسی ہوسٹل میں موجود مولانا فضل الرحمن سے رابطہ قائم کیا جا رہا تھا، لیکن مولانا اس سے پہلے باخبر تھے۔ مجھے یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہ دیتی تھی۔ ابھی چودھری شجاعت نصر اللہ خاں کے کمرے میں ہی تھے کہ میں کچھ فاصلے پر موجود مولانا فضل الرحمن کے کمرے میں چلا گیا۔
وہ اس صورتحال سے آصف زرداری کو بھی مطلع کر چکے تھے اور شدت سے ان کے ٹیلی فون کال کے منتظر تھے۔ اسی دوران لندن سے الطاف حسین بھی منٹ منٹ کی صورتحال سے باخبر تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ کو ایم کیو ایم یہ یقین دہانی کرا رہی تھی کہ اگر وہ امیدوار ہوں تو ایم کیو ایم ان کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہے۔ اسی لمحے ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے امیدوار فاروق لغاری سے بھی مذاکرات پر تھی، نوابزادہ نصر اللہ سے بھی مذاکرات جاری تھے۔ میں مولانا فضل الرحمن کے کے ساتھ والے کمرے میں گیا تو فون پر ان کی ملاقات کا بھی وقت طے ہو گیا تھا اور معاملات بھی طے پا چکے تھے۔
جب نوابزادہ نصر اللہ اور جتوئی پہنچے تو مولانا فضل الرحمن نے صاف کہہ دیا کہ بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم دوسری طرف وعدہ کر چکے ہیں۔ نوبزادہ نصر اللہ صاحب کے دل میں خواہش تھی کہ اگر بات بن جائے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن فضل الرحمن کے نوابزادہ نصر اللہ کو صاف انکار کرنے پر اب وسیم سجاد کو برائے نام امیدوار بنناتھا۔ البتہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ہم وسیم سجاد کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس میں بعض دینی سینئر اکابرین کے لین دین کو اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ "(فرزند پاکستان)