Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Omar Saeed Sheikh, Pearl Project Report

Omar Saeed Sheikh, Pearl Project Report

عمر سعید شیخ: پرل پراجیکٹ رپورٹ

ڈینیل پرل کے قتل کے کئی برسوں بعد اس کی قریبی دوست اسرا نعمانی نے پرل پراجیکٹ نامی ایک تحقیقی صحافتی پروگرام کی داغ بیل ڈالی، اس کے لئے ابتدا میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی، امریکہ نے فنڈز فراہم کئے۔ اسی یونیورسٹی کے مختلف گریجوایٹس اور انڈر گریجوائٹس پروگرام کے طلبہ نے تحقیق میں حصہ لیا۔ 2007ء سے 2010تک یہ تحقیق اور تفتیش جاری رہی۔ تین سالہ تحقیق کے بعد پرل پراجیکٹ نے سو ا سو صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق ڈینیل پرل کے قتل میں ستائیس ملزم ملوث ہیں، ان سب کے نام اور کرداروں کی نشاندہی کی گئی۔ اس مقصد کے لئے پرل پراجیکٹ سے وابستہ طلبہ پاکستان بھی آئے، پولیس ریکارڈ سے بھی استفادہ کیا گیا۔ اسرانعمانی کے مطابق ایک اہم پولیس افسر نے دوبئی میں ملاقات کے دوران تفصیلی آفیشل رپورٹ اس سے شیئر کی، جس کی نقل لے کر بعد میں اس پر کام ہوتا رہا۔ کراچی پولیس کے محرروں نے گرفتار ہونے والے بعض ملزموں کے بیانات اردو میں قلمبند کئے تھے، ان میں پرل کے ایک گارڈ کا اعتراف بھی شامل ہے، جو قتل کے وقت موقعہ واردات پر موجود تھا۔ اردو نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے اسرا نعمانی نے وہ صفحات اپنے والدین کو بھیج کر ترجمہ کرائے۔

ڈینیل پرل کے قتل کی ٹائم لائن اور مختلف واقعات کی تفصیل کے لئے پرل پراجیکٹ رپورٹ سے اس لئے مدد لی جا سکتی ہے کیونکہ یہ مقتول کے ورثا کا باقاعدہ موقف ہے اور دوسرا یہ کراچی پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے اخذ کردہ نتائج سے مطابقت بھی رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ اسرا نعمانی یا ڈینیل پرل کی بیوہ میریان پرل کو کراچی پولیس اور تفتیشی اداروں سے کوئی شکوہ نہیں بلکہ وہ ان کی ممنون اور شکرگزار رہی۔ میریان پرل نے اپنے متعدد ٹی وی، ریڈیو، اخباری انٹرویوز میں یہ بات کھل کر تسلیم کی اور کراچی پولیس کے ایک اہم افسر کو خاص طور پر سراہا۔ اس کے خیال میں کراچی پولیس افسران کا رویہ بہت ہمدردانہ اور مشفقانہ رہا۔ میریان پرل کی کتاب اے مائٹی ہارٹ پر اسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ اس فلم میں عرفان خان نے اینٹی ٹیررازم اسکواڈکے سربراہ ایس ایس پی ساجد حبیب(فرضی نام) کا کردار ادا کیا۔ یہ بہت مثبت کردار ہے۔ میریان پرل نے اپنی کتاب میں بھی دانستہ اصل نام نہیں لیا بلکہ کیپٹن کے نام سے اسے یاد کیا۔ فلم میں پاکستانی اداکار عدنان صدیقی نے ایک اور پولیس افسر دوست کا کردار ادا کیا، بی بی سی اردوکے مطابق یہ ایس ایس پی" دوست علی بلوچ" تھے، تاہم میریان پرل کی کتاب اور فلم کے مطابق افسردوست کا تعلق ایم آئی سے بتایا گیا۔ بہرحال فلم میں یہ کردار بھی مثبت انداز میں فلمایا گیا، جس نے ڈینیل پرل کو بازیاب کرانے کے لئے سرتوڑ کوشش کی۔

ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل کی تفصیل کی طرف بڑھنے سے پہلے دو تین اہم پہلوئوں کی وضاحت کرتا چلوں۔ ڈینیل پرل پیر مبارک شاہ جیلانی کا انٹرویو کرنا چاہتا تھا۔ پرل کو امریکی اخبار بوسٹن گلوب کی رپورٹر فرح سٹاک مین کی رپورٹ سے یہ اشارہ ملا کہ برطانوی شدت پسند نومسلم رچرڈ ریڈ جس نے پیرس سے فلوریڈا جانے والے امریکی ائرلائن کے جہاز کو تباہ کرنے کی کوشش کی، اس کامبارک شاہ جیلانی سے قریبی تعلق ہے۔ یہ شبہ اس لئے پیدا ہوا کہ رچرڈ ریڈ سیاہ فام باپ کا بیٹا تھا جبکہ مبارک شاہ جیلانی نے امریکہ میں جماعت الفقرا نامی تنظیم قائم کی تھی، جس کا سیاہ فام نومسلم امریکیوں میں گہرا اثر رسوخ تھا۔ ڈینیل پرل مبارک شاہ سے ایکسکلیوسو انٹرویو کرنا چاہتا تھا، جو کسی بھی رپورٹر کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے پرل نے پنڈی، اسلام آباد میں اپنے فکسر (پیسے لے کر معاونت کرنے والے مقامی صحافی)پر دبائو ڈالا، اس نے اپنے ایک دو رپورٹروں کے جہادی تنظیموں میں تعلقات استعمال کرنے کی کوشش کی۔ یوں یہ خبر جہادی حلقوں میں سرائیت کر تی ہوئی عمر سعید شیخ تک پہنچی۔ پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کے مطابق عمر سعید شیخ نے مبینہ طور پر ڈینیل پرل کے اسی اشتیاق کو استعمال کیا۔ اس نے ڈینیل پرل کو مبارک شاہ جیلانی سے خصوصی انٹرویو کرانے کا لالچ دیا اور یوں اسے اسلام آباد سے کراچی لے گیا، جہاں اس کے لئے پورا جال بچھا یا جا چکا تھا۔

ڈینیل پرل کے اغوا ہوجانے کے بعد مبارک شاہ جیلانی پر بھی شک گیا اور تفتیشی اداروں نے اسے گرفتار کر کے اچھی طرح کھنگالا، مگر پیرمبارک شاہ کا اس پورے معاملے سے دور دور تک تعلق ثابت نہ ہوا۔ ممکن ہے یہ شبہ برقرار رہتا، مگر خود پرل پراجیکٹ رپورٹ نے اس کی وضاحت کر دی۔ پرل پراجیکٹ پر کام کرنے والی تفتیشی صحافیوں نے ایف بی آئی کے ان اہلکاروں سے گفتگو کی، جنہوں نے ڈینیل پرل کے اصل قاتل خالد شیخ محمد سے تفتیش کی تھی۔ خالد شیخ محمد کے اعتراف کے مطابق شو بمبار رچرڈ ریڈ کا اسامہ بن لادن کے سمدھی اور قریبی ساتھی محمد عاطف سے رابطہ تھا۔ عاطف کا اصل نام ابو حفص المصری تھا، اس کی ایک بیٹی کی شادی اسامہ بن لادن کے بیٹے سے ہوئی تھی۔ محمد عاطف نائن الیون کے بعد تورا بورا سے فرار کی کوشش میں امریکی طیاروں کی بمباری کا نشانہ بن گئے۔ خالدشیخ محمد کے مطابق محمد عاطف کی موت کے بعد ایمن الزوایری (اس وقت القاعدہ کے نائب امیر)نے رچرڈ ریڈ کواس کے پاس بھیجا۔ خالد شیخ محمد رچر ڈ سے ملاقات کے بعدخاصا مایوس ہوا۔ اس نے رچرڈ کو مشورہ دیا کہ وہ کم از کم شیو کر ا کر اپنا حلیہ تو ٹھیک کرا لے۔ خالد شیخ محمد کے مشورے کو درست طور پر سمجھنے کے لئے آپ کو گوگل پر رچرڈ ریڈ کی تصویر سرچ کر کے دیکھنی ہوگی، تب آپ قائل ہوں گے کہ خالد شیخ نے مناسب مشورہ دیا۔

خالد شیخ محمد کے مطابق رچرڈ ریڈ نری مصیبت تھا۔ اس نے جان چھڑانے کے لئے رچرڈ کو اپنے نوجوان بھانجے عبدالعزیزعلی کے سپرد کیا، جوپہلے بھی کئی اہم معاملات نمٹا چکا تھا۔ یاد رہے کہ اسی عبدالعزیز علی نے بعد میں ڈینیل پرل کے قتل کی ویڈیو فلم بند کی تھی۔ اسے عمار البلوچی کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ موصوف آج کل امریکیوں کی حراست میں ہیں اور نائن الیون کے ملزموں اور سہولت کاروں میں اس کا نام بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 93ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر بم حملہ کرنے والا رمزی یوسف بھی اس کا کزن ہے۔

پرل پراجیکٹ رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد نے ایف بی آئی کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے عبدالعزیز علی کو ہدایت کی کہ رچرڈ گئیر کو کچھ رقم اور بارود چھپانے والا مخصوص جوتا فراہم کرے، کچھ بنیادی باتیں بھی سکھا دے۔ خالد شیخ محمد کے اس باضابطہ اعتراف سے پیر مبارک شاہ جیلانی کی پوزیشن بالکل صاف ہوجاتی ہے۔ مجھے حیرت اور کسی حد تک افسوس ہوا جب خالد احمد جیسے سینئر صحافی نے نیوز ویک کے لئے اپنے حالیہ تجزیہ میں پرل پراجیکٹ رپورٹ کی اہم گواہی نظرانداز کرتے ہوئے مبارک شاہ کے خلاف یک رخی تصویر پیش کی۔

خالد شیخ محمد عسکریت پسندی کی جدید تاریخ کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے ایک طرح سے پوری دنیا کا رخ بدل دیا۔ نائن الیون حملوں کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد ہی کو کہا جاتا ہے۔ خالد شیخ محمد کو بلوچی النسل پاکستانی بتایا جاتا ہے، مگر اس کی پرورش کویت میں ہوئی، اسی وجہ سے وہ روانی سے عربی بولتا۔ امریکیوں کے مطابق خالد شیخ محمد القاعدہ کے فارن آپریشن کا سپریم کمانڈر تھا اور القاعدہ میں اس کی پوزیشن نمبرتین بنتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خالد شیخ محمد ہی نے وہ عرب ہائی جیکر تیار کئے، انہیں خاصا عرصہ ٹرینڈ کیا اور پھر نائن الیون کے تباہ کن مشن کے انتظامات پورے کئے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نائن الیون حملوں سے صرف چار دن پہلے افغانستان میں اس وقت کے سب سے بڑے طالبان مخالف اور اساطیری شہرت رکھنے والے تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود پر حملہ کی منصوبہ بندی بھی خالد شیخ محمد نے کی۔ اسے غالباً اندازہ تھا کہ نائن الیون پر امریکی ردعمل شدید ہوگا اور اگر وہ افغانستان پر چڑھ دوڑے تو ان کا سب سے بڑا معاون احمد شاہ مسعود ہی ثابت ہوگا، اس لئے اس کا پتہ پہلے صاف کر دیا جائے۔ الجزائری صحافیوں کے بہروپ میں القاعدہ کے دو خود کش بمباروں نے کیمرے میں چھپائے بم کو مسعود کے سامنے اڑا دیا، یوں پنج شیر کی تاریخ کا سب سے بڑا گوریلا لیڈرموقع پر ہلاک ہوگیا۔ ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ خالد شیخ محمد کے نائن الیون آپریشن کے مضمرات اور اس کی سنگینی سے اسامہ بن لادن بھی مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے۔ بعد میں وہ اس پر ناخوش ہوئے کہ اس الٹرا ہائی پروفائل حملے سے طالبان اور القاعدہ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈینیل پرل کے سر قلم کرنے اور اس کی ویڈیو بنانے کا خالد شیخ محمد کا اقدام بھی اسامہ بن لادن کو برہم کرنے کا باعث بنا۔ القاعدہ کے سربراہ کی رائے میں اس سے پاکستان میں القاعدہ کے اراکین کے لئے خطرہ بڑھ گیا۔ خالد شیخ محمد کے حوالے سے ایک اور بہت دلچسپ انکشاف ان پر لکھی گئی کتاب" ماسٹر مائنڈ" میں کیا گیا، جس کا تعلق الجزیرہ چینل، قطری حکومت اور سی آئی اے سے ہے۔ اس پر پھر کبھی سہی۔ (جاری ہے)

Check Also

Pakistani Ghante Ki Qeemat

By Maaz Bin Mahmood