مُٹھی میں بچی ریت
پی ٹی آئی کے حامیوں اور کارکنوں کی سوچ کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ شدید وابستگی سامنے موجود حقائق نہیں دیکھنے دیتی، عمومی طو رپر بہرحال یہ اتفاق رائے ہے کہ تحریک انصاف پچھلے دس برسوں کی سب سے کمزور پوزیشن پر جا چکی ہے۔ جو جماعت چند سال پہلے ملک کی دو بڑی مقبول ترین جماعت بن کر ابھری، اب اس کی مقبولیت نچلی سطح کو چھو رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں حکمران جماعتوں کے حوالے سے عوامی سروے آتے رہتے ہیں، جن سے لیڈروں اور پارٹیوں کی مقبولیت کے گرتے گراف کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے قابل اعتماد سروے کرنے والے ادارے موجود نہیں۔ ایک آدھ تھا توفیصلہ کن مراحل پر ان کی رپورٹیں عوامی ذہن اور جذبات کی عکاسی نہ کرنے کے باعث ناقابل اعتماد پائی گئیں۔
ہمارے ہاں البتہ فیک یا مشکوک سروے رپورٹوں کا ٹرینڈ عام ہے۔ ن لیگ اپنے دور اقتدار میں ایسے کئی نام نہاد سروے کراتی رہی، جن کے نتائج پڑھ کر آدمی مسکرائے بغیر نہ رہ پاتا۔ البتہ یہ کریڈٹ تحریک انصاف حکومت کو ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک ایسے سروے کی خبریں لگوائیں جس کی تفصیل معلوم ہونے پر لوگ ہنس ہنس کر دہرے ہوگئے۔ ویسے یہ عوامی خدمت ہی ہے کہ ایسے پریشانیوں اور ٹینشن والے دور میں ہنسانے کی کوئی تدبیر حکومتی سطح پر کی جائے۔ اس سروے میں وزیراعلیٰ پنجاب کی" بہترین" کارکردگی کو ملک بھر میں سراہنے کی نوید سنائی گئی۔ پنجاب کے عوام یہ سن کر اِدھراُدھر دیکھتے رہے کہ نجانے کس ملک کی خبر بتائی جا رہی ہے۔
دو سال قبل تحریک انصاف کے حوالے سے کالم لکھا تو سرخی جمائی تھی، " مٹھی سے پھسلتی ریت"، اب لکھنے لگا ہوں تو بے اختیار ذہن میں خیال آیا کہ دیکھا جائے مٹھی میں ریت کے کتنے ذرے موجود ہیں؟ سوال یہی ہے کہ آپ کے پلے کتنا مال رہ گیا؟ بڑا حصہ تو مفت میں لٹا بیٹھے ہو، اب تو باقی ماندہ بچانے کا سوچو۔
عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں۔ میرے جیسے بے شمار لوگوں کا خیال تھا کہ خان صاحب کو موقعہ ملا تو وہ سسٹم میں اصلاحات لائیں گے، بہترین لوگوں کا میرٹ پر تقرر ہوگا اور صرف سیاسی مقاصد کے لئے پالیسیاں بنانے کے بجائے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ افسوس کہ ہم سب بری طرح مایوس ہوئے۔
عمران خان کے اقتدار کی دو تہائی مدت ختم ہوگئی، پانچ سال انہیں ملے تھے، اس میں سے ساڑھے تین گزر گئے۔ ان کی مدت کابمشکل ڈیڑھ سال بچا ہے۔ آخری چند ماہ تو اچھی بھلی طاقتور حکومتیں بھی مفلوج اور کمزور ہوجاتی ہیں، گوروں نے ایسی حکومت کے لئے لنگڑی بطخ (Lame Duck)کی ترکیب وضع کی ہے۔ اس حساب سے عمران خان کے پاس لے دے کر ایک سال رہ گیا ہے۔ اتنی قلیل مدت میں کیا کرشمہ دکھایا جا سکتا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں؟
ویسے تو یہ نارمل حالات کی بات ہو رہی ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کے لانگ مارچ کے نتیجے میں کوئی بحران پیدا ہوا یا پھر کسی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور قبل از وقت الیکشن کرانے پڑے تب صورتحال مختلف ہوگی۔ پھر تو یوں سمجھئے کہ جو اب تک کمایا/لٹایا ہے، اسی پر الیکشن لڑنا پڑے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لانگ مارچ یا کسی ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے بچنا بھی حکومت کے بس میں نہیں۔ تب یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایک پیج والے کیا سوچ رہے ہیں؟
خان صاحب نے ساڑھے تین سال نکال لئے، اس میں اپوزیشن کی نالائقی اور کمزوری کا بہت بڑا حصہ ہے، مگر اس سے بھی زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی غیر مشروط سپورٹ کارفرما رہی۔ پچھلے تیس برسوں میں کسی سویلین حکومت کو اتنی بھرپور اور دل جمعی سے اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ نہیں ملی۔ میں نے میاں نواز شریف کی پہلی حکومت (1990-91تک)کا ایک سال نکال دیا ہے، ابتدا میں انہیں بھی کم وبیش یہی سہولت میسر رہی تھی۔
عمران خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عوامی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے جلسوں کا سلسلہ شروع کریں گے۔ بتایا گیا کہ اپنے جلسوں میں وہ عوام کو بتائیں گے کہ وہی بہتر بلکہ واحد آپشن ہیں۔ سیاسی جلسے کرنا ان کا جمہوری حق ہے، بلکہ انہیں بہت پہلے عوامی رابطہ مہم چلانا چاہیے تھی۔ عمران خان کی بہت بری حکومتی کارکردگی اپنی جگہ، مگر ان کی جماعت کی خستہ حالی میں سب سے بڑا حصہ پارٹی کو نظرانداز کرنا بنا۔
خان صاحب نے اقتدار میں اپنی پارٹی کی تنظیم نو اور نوجوان کارکنوں سے رابطہ کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ خان صاحب بے شک جلسوں کا پروگرام بنائیں مگر جب تک وہ تحصیل، ڈسٹرکٹ اور پھر صوبائی سطح پر جینوئن لوگوں کو ذمہ داری نہیں دیں گے، تب تک پارٹی متحرک نہیں ہوگی۔ ملک بھر میں یہی حال ہے، سردست دو اہم علاقوں کی طرف اشارہ ہے جہاں سے پی ٹی آئی کو غیر معمولی سپورٹ نہ ملتی تو وہ کسی بھی صورت میں اقتدار نہ لے پاتی۔
کراچی، جہاں کے عوام نے دیوانہ وار پی ٹی آئی کے امیدواروں پر ٹھپے لگائے۔ ان میں سے اکثر کے چہروں سے بھی وہ ناواقف تھے، انہوں نے مگر عمران خان کو ووٹ دیا۔ کراچی نے طویل عرصہ بعد کراچی سے باہر کے کسی لیڈر کو ایسی پزیرائی دی۔ خان صاحب نے اس کا کیا جواب دیا؟ وہ مہینوں کراچی کا رخ ہی نہیں کرتے، شہر کو انہوں نے نہایت غیر سنجیدہ وفاقی وزرا کے حوالے کئے رکھا۔ فیصل واڈا جیسے شخص کی آئوٹ آف دا وے جا کر عمران خان نے حمایت کیوں کی؟
جو شخص اپنے جھوٹ کی بنا پر قومی اسمبلی سے نااہل ہو رہا تھا، اسے فٹ سے سینیٹر بنوا دیا۔ کیا یہی اخلاقی اصول تھا جس کے پرچارک عمران خان عمر بھر رہے؟ فیصل واڈا کی خاطر خان صاحب نے اپنی ساکھ کیوں دائو پر لگائی، نجانے اس کا جواب کون دے گا؟ کراچی میں پارٹی تنظیم کا کوئی حال نہیں۔ کسی کو علم نہیں کہ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کیسے لڑنا ہے؟ اگلے عام انتخابات میں اپنی نشستیں برقرار رکھنے کا پلان کیا ہے؟ تحریک انصاف کراچی گھٹنوں میں سر دئیے خالی ہاتھ بیٹھی ہے۔
کے پی کی حالت زیادہ خراب ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں بہت بری شکست ہوئی۔ دوسرے مرحلے کا الیکشن چند ہفتوں بعد ہونا ہے۔ عمران خان نے واحد اچھا فیصلہ یہ کیا کہ پرویز خٹک کو صوبائی صدر بنایا اور الیکشن کمپین کے لئے انہیں پورے اختیارات دئیے۔ پرویز خٹک میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ نتائج دے سکیں، مگر انہیں بھی فل سپورٹ چاہیے۔ سپورٹ دینے کے بجائے پارٹی ہائی کمان نے تازہ ترین بلنڈر یہ کیا کہ صوبے کے غیر مقبول ترین لیڈر علی امین گنڈا پور کو صوبائی جنرل سیکرٹری نامزد کر دیا۔
یہ عظیم فیصلہ کرنے کی سعادت اسد عمر کو نصیب ہوئی۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ خیبر پختون خوا کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور علی امین گنڈا پور کو آخر یہ اعزاز کس پرفارمنس پر دیا گیا؟ علی امین گنڈا پور کی وجہ سے تحریک انصاف کو ڈی آئی خان، ٹانک اور کرک میں بہت بری شکست ہوئی۔ علی امین گنڈاپور ہی نے کرک میں تحریک انصاف کے ایم پی اے ہشام انعام اللہ کے امیدواروں کو ٹکٹیں نہ دلوائیں او اس کا شدید نقصان ہوا۔ ہشام انعام اللہ کے تین تحصیل ناظم آزاد کامیاب ہوئے اور پھر وہ سب تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ ٹانک میں بھی گنڈا پور نے غلطیاں کیں۔ ڈیرہ کی صرف ایک تحصیل پی ٹی آئی کو ملی، اس لئے کہ وہاں علی امین گنڈا پور کا شدید مخالف شخص امیدوار تھا۔
میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے اپنے اخبار کے پشاور کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور باخبر صحافی ممتاز بنگش سے تفصیلی گفتگو کی۔ بنگش صاحب نے عمدہ نکات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا، " پارٹی کے صوبائی صدر پرویز خٹک وفاقی وزیر ہیں، اب صوبائی سیکرٹری جنرل بھی وزیر ہیں، الیکشن کمیشن ان دونوں پر الیکشن والے اضلاع میں جانے کی پابندی عائد کر دے گا۔ اگر صوبائی سیکرٹری جنرل رکن اسمبلی نہ ہوتا تو اس پر پابندی لاگو نہیں ہوتی تھی، وہ جلسوں میں شریک ہوسکتا تھا۔
دوسرے مرحلے میں اصل معرکہ ہزارہ کے اضلاع میں لڑا جائے گا، جہاں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ اور کسی بھی وزیر نے پچھلے تین برسوں میں توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔ اگر صوبائی سیکرٹری جنرل کوئی ہزارہ کا لیڈربنایا جاتا تو ممکن ہے وہ مقامی سطح پر ماحول بنا سکتا۔ تیسرا علی امین گنڈا پور نے بطور وفاقی وزیر نہ صرف ہزارہ بلکہ اگلے مرحلے میں ہونے والے اٹھارہ اضلاع میں کہیں پر تین برسوں میں چکر نہیں لگایا۔ وہ ان علاقوں میں سخت غیر مقبول ہیں۔"
علی امین گنڈا پور عمران خان کے قریب اور چہیتے سمجھے جاتے ہیں، شائد اسی وجہ سے اسد عمر نے یہ ذمہ داری انہیں دی۔ اس کا مگر پی ٹی آئی کو سخت نقصان ہوگا۔ کے پی تحریک انصاف کا مضبوط سیاسی گڑھ رہا ہے، اسے اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے دانشمندانہ فیصلوں کی شدید ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان کا مشاورتی نظام بہت کمزور ہے یا انہیں غلط اطلاعات دی جاتی ہیں۔ جو لیڈر درست اطلاعات حاصل نہ کر سکے، اچھے اور مخلص مشیر اسے دستیاب نہ ہوں، اس کی سیاسی تباہی میں کیا کسر رہ جائے گی؟ عمران خان کو ایک بات سمجھنا ہوگی کہ ان کی مٹھی میں بہت کم ریت بچی ہے۔ جو ہے اسے گرنے سے بچائیں۔