متنازع فلموں پر پابندی کیوں لگنی چاہیے؟
گزشتہ روز ٹرانس جینڈر /کوئیر/ایل جی بی ٹی موضوع پر فلم "جوائے لینڈ "پر پابندی کے حوالے سے کالم لکھا۔ اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا توجہاں بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی، وہاں بعض نے سوالات بھی اٹھائے۔ ان سوالات پر بات کرنا اس لئے ضروری ہے کہ بات میں اگر ابہام رہے تو غلط فہمی اور مغالطہ جنم لیتا ہے۔
سوال یہی ہے کہ کسی متنازع فلم پر پابندی کیوں لگائی جائے؟ اس کا آسان اور مختصر ترین جواب یہی ہے کہ چونکہ یہ فلم متنازع ہے، اس لئے پابندی لگے۔ یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ لفظ متنازع بھی ایک سے زیادہ مطلب اور معنی رکھتا ہے، مختلف قوموں، معاشروں اور کلچر کے لئے متنازع الگ الگ وجود رکھتے ہیں۔ حجاب کسی بھی مسلم معاشرے میں بہت مثبت علامت ہے۔ لوگ حجاب لینے والی خاتون کو تکریم کی نظر سے دیکھتے ہیں، اسے باکردار، اچھا اور دینی تعلیمات کے مطابق چلنے والا سمجھا جاتا ہے۔
بعض مغربی معاشرے اس کے برعکس حجاب کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے نزدیک یہ مذہبی بنیاد پرستی ہے، ان کے سیکولر سماج میں اپنی مذہبی شناخت کو نمایاں کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ فرانس، بلجئم اور بعض دیگر یورپی ممالک نے اسی وجہ سے حجاب پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ہم اس پابندی پر اس لئے نہیں تنقید کرتے کہ انہوں نے پابندی کیوں لگائی۔ ہر ملک، قوم، سماج کو اپنی مخصوص روایات اور کلچر کے مطابق کسی بھی چیز پر پابندی لگانے کا حق حاصل ہے۔ ہماری تنقید اس بنیاد پر ہے کہ خود کو سیکولر کہلانے والے اور پرسنل چوائس پر غیر معمولی اصرار کرنے والے یہ یورپی معاشرے کسی فرد کی چوائس پر پابندی کیسے لگا سکتے ہیں؟ کہاں کا انصاف ہے کہ عورت کو کپڑے اتارنے کی اجازت ہو، مگر جسم ڈھانپنے کی نہیں؟ بکنی جائز ہے اور برقینی ناجائز، کیوں؟ یہ تضاد ہے، اسی لئے اس پر تنقید ہوتی ہے۔
پہلے سوال کومختلف الفاظ سے پھر سے دہراتے ہیں کہ کسی فلم پر پابندی کیوں اورکب لگ سکتی ہے؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی فلم، ڈرامہ، ناول، کتاب اگر اس معاشرے کے بنیادی فیبرک، معروف روایات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہو تو اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ ہر سماج کا ایک بنیادی فیبرک ہوتا ہے۔ دھاگوں سے بنے کپڑے کی مانند۔ چھوٹی بڑی مختلف چیزوں سے جڑا ہوا سماج کا فیبرک مضبوط ہونے کے ساتھ نازک بھی ہوتا ہے۔ جس طرح بعض کپڑوں کے دھاگے اگر پکڑ کر کھینچے جائیں تو کپڑا ادھڑ جاتا ہے۔ یہی معاملہ سماج کا ہے۔ اسے ادھیڑنے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے۔ ہر وہ نوکدار چیز جو سماج میں چبھے اور اس کے ادھیڑے جانے کا خدشہ ہو، ایسی نوکدار چیز کو ممنوع قرار دینا چاہیے۔
جوائے لینڈ یا اسی طرح کی فلموں پر اس کا اطلاق کیوں؟ اس لئے کہ ان کا موضوع ہمارے سماج کے لئے ناپسندیدہ ہے، ہماری مشرقی اسلامی اقدار سے ٹکراتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس لئے کہ ہمارے ملک کا آئین، قانون اور تمام تر روایات اسلامی ہیں، الہامی قوانین سے یہ پھوٹتے ہیں۔ ہمارے آئین کا حصہ ہے کہ کوئی بھی قانون شریعت کے منافی نہیں ہوسکتا۔ ہر ملک میں کچھ ڈوزاور کچھ ڈونٹس(Do & Don'ts)ہوتے ہیں۔ کچھ چیزوں کی اجازت، کچھ پر پابندی۔ امریکہ، یورپ، بھارت اور بہت سے دیگر ممالک میں یہ ڈو اینڈ ڈونٹ ریاست اور اس کے ادارے خود طے کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے مسلم ملک میں یہ حق ریاست کا نہیں بلکہ جو باتیں شریعت میں طے ہوچکیں، جو نص صریح ہے، اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔
امریکہ، یورپ اور بعض سیکولر مسلم ممالک میں بھی شراب پینے پر پابندی نہیں، اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کے نوجوان کو نہیں روکا جا سکتا، البتہ وہ زیادہ پی کر گاڑی نہیں چلا سکتا، ٹن ہو کر دنگا فساد وغیرہ نہیں کر سکتا۔ یہی معاملہ جوا، قمار بازی کے حوالے سے ہے۔ پاکستان جیسے مسلم ملک میں یہ ممکن نہیں۔ ہماری پارلیمنٹ بھی چاہے تو شراب کو جائز قرار دینے کا قانون نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح دیگر ممنوعہ چیزیں ہیں۔
امریکہ، یورپ اور کچھ دیگر ممالک بشمول بھارت میں ہم جنس پرستی پر پابندی نہیں۔ یہ آپس میں شادی کر سکتے ہیں، ٹرانس جینڈر بھی کسی بھی جنس کے بندے کے ساتھ شادی کر کے یا ویسے ہی اکھٹے رہ سکتے ہیں۔ ایک عام مرد اور ایک خواجہ سرا یا ایک ٹرانس جینڈر کے درمیان امریکہ، یورپ، بھارت وغیرہ میں محبت، جسمانی تعلق، شادی وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہاں کے قانون میں پابندی نہیں۔
پاکستان میں یہ ممکن نہیں۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی شرعاًاورقانوناً بھی جرم ہے۔ پاکستان میں کوئی مرد کسی خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ جسمانی تعلق بھی نہیں بنا سکتا۔ یہ قابل سزا جرم ہے۔ پاکستانی سماج میں والدین بہت سی پابندیاں شرعی احکامات کے مطابق لگاتے ہیں۔ لڑکیوں کو پردہ کرنے، حجاب یا چادر وغیرہ لینے کی ہدایت کسی خاص رسم یا تنگ نظری کی وجہ سے نہیں کی جاتی بلکہ اس لئے کہ پردے کے بارے میں اسلامی احکامات موجود ہے۔ ہمارے لئے ہمارے آقا اور اللہ کے آخری رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہدایت حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ جو ٹھیٹھ مذہبی گھرانے ہیں، وہ احکامات کی لفظاً پیروی پر بھی اصرار کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اس کی حکمت کودیکھ کر اس کی تعبیر وتشریح کرتے ہیں۔ ایسے گھرانوں میں خواتین ممکن ہے برقعہ نہ پہنیں، حجاب نہ لیں، مگر چادر یا بڑا دوپٹہ ضرور لے لیتی ہیں۔ یہ ہماری ثقافت، اقداراور معروف روایات ہیں۔ اسی وجہ سے آج کل بننے والے بیشتر ڈراموں میں اور خاص کر ایک معروف انٹرٹینمنٹ چینل کے ہر ڈرامے میں ہیروئن اور دیگر خواتین دوپٹے کی زحمت نہیں کرتیں۔ مقصد بیرئر کو توڑنا اور دوپٹہ نہ پہننے کو فیشن بنانا ہے۔
جوائے لینڈ یا اسی طرز کی فلمیں ہوں یا بہت سے ملتے جلتے مباحث، ان کا مقصد دراصل سماج میں موجود بیرئرز کو توڑنا ہے۔ اس فلم میں پہلی بار ایک مرد کی ایک ٹرانس جینڈر سے محبت کی داستان بیان کی گئی۔ کیوں؟ خواجہ سرا تو اس دھرتی اور تہذیب میں صدیوں سے ہیں۔ سو سال ہوگئے ہیں اس خطے میں فلمیں، تھیٹر وغیرہ کو، پچاس سال ٹی وی کو بھی ہوگئے۔ اب تک کسی نے محبت کی ایسی داستان کیوں نہیں بیان کی تھی؟
اس لئے کہ یہ معیوب، ممنوعہ اور عجیب تھا۔ فلم بنانے والے ایسا کرنے پر عوامی ردعمل سے ڈرتے تھے۔ اگر جوائے لینڈ جیسی فلموں کو عام نمائش کی اجازت مل جائے، تو یہ بات اتنی معیوب، ممنوعہ اور عجیب نہیں لگے گی۔ آج کل بیشتر سینما دراصل سنی پلیکس ہیں، وہاں بیک وقت کئی فلمیں لگی ہوتی ہیں، انگریزی، کارٹون فلمیں، پنجابی، اردو فلمیں وغیرہ۔ فیملیز جب سنی پلیکس کوئی اور فلم دیکھنے جائیں اور وہاں پر جوائے لینڈ جیسی کسی فلم کے پوسٹر دیکھیں گی تو اس سے پہلے تو انہیں شاک لگے گا، پھر رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی ہوجائیں گی۔ اگلے سال دوسال میں جب اس موضوع کے مختلف پہلوئوں پر دو چار اور فلمیں بن گئیں تو لوگ اسے بالکل ہی نارمل لینے لگیں گے۔ اسی لئے یہ فلمیں بنانے کا رسک لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے غیر ملکی پروڈیوسروں کی پوری فوج اس فلم کی فنانسر بنی ہے۔
اس فلم پر پابندی کی بات ہوئی توفلم میں کام کرنے والے فنکاروں نے احتجاجی بیان جاری کیا۔ ثانیہ سعید ٹی وی ڈراموں کی معروف اداکارہ ہیں، لبرل فیمنسٹ سوچ رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا، " یہ بڑوں کے لئے فلم ہے، ان پر اعتماد کریں، انہیں خود فیصلہ کرنے دیں۔ " یہ دراصل لبرل اقدار ہیں کہ کسی کے معاملے میں دخل نہ دو، اس کی زندگی ہے وہ خود جانے(بھلے سے بھاڑ میں کود جائے)۔
اسلامی اقدار اس کے برعکس ہے۔ اسلام مومن کودوسرے سے خیر خواہی کا سبق دیتا ہے۔ مومن دوسرے مومن کو گڑھے میں گرتا نہیں دے سکتا۔ وہ اس کے لئے متفکر ہوتا، پریشان ہوتا اور اسے بچانے کی سعی کرتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو تجربات کی لیبارٹری نہیں بنا سکتے کہ وہ خود تجربات کریں، ممنوعہ چیزوں کی طرف جائیں۔ ٹرانس جینڈراز م میں کشش ہو تو ادھر چلے جائیں اور پھر گھوم پھر کر، تجربات کر کے خود فیصلہ کریں۔ نہیں، ہم ایسا کرنے کے بجائے اپنی اگلی نسل کو ان ممنوعہ ترغیبات سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے نزدیک ریاست کا کردار بھی ماں جیسا ہے، اپنے شہریوں کو وہ ویسے بچانے کی کوشش کرے، جیسے ماں اپنے بچوں کو برائی سے بچائے گی۔
رہی بات فلم پر پابندی کی تو دنیا کے بہت سے ممالک میں کئی فلموں پر پابندی لگی ہے۔ بھارت میں بینڈٹ کوئن سمیت کئی فلموں پر پابندی لگی، بعض فلموں پر یورپی ممالک اور کچھ پر چین، امریکہ وغیرہ میں پابندی لگی۔ طویل فہرست بن سکتی ہے، گوگل کر کے دیکھ لیں۔ ویسے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے سربراہ پر کوئی ستائشی فلم امریکہ اور یورپ میں ریلیز ہوجائے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہولو کاسٹ کی نفی کرتی فلم کو یورپی سینمائوں اور امریکہ میں لگنے دیا جائے؟ نہیں، یہ ہرگز ممکن نہیں۔ بلکہ اور بھی کئی موضوع ایسے ہیں، جن پر کوئی فلم مغربی، یورپی سماج میں نہیں لگ سکتی۔ اس لئے کسی فلم پر بین لگنا کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔ اپنے سماج کی حساسیت، نزاکت اور عوامی جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا جائز اورنہایت مناسب ہے۔