مولانا کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے حوالے سے اگر ان کے حامیوں سے بات کی جائے تو وہ دو باتیں کہتے ہیں۔ پہلی یہ کہ عمران خان یا تحریک انصاف کو اس مارچ، دھرنا یا لاک ڈائون پر احتجاج کا کوئی حق نہیں کیونکہ انہوں نے خود یہ سب کیا تھا اور اس پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوئے بلکہ طنزاً یہ بھی کئی بار کہا کہ اپوزیشن احتجاج کرنے آئے تو ہم انہیں کنٹینر دینے کو تیار ہیں۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ احتجاج ان کا جمہوری حق ہے اور کوئی سیاسی حکومت ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔
مولانا فضل الرحمن اور ان کے کارکنوں کی پہلی دلیل ایک لحاظ سے تو بالکل درست ہے۔ عمران خان نے واقعی یہ سب کیا اور نہایت بھونڈے انداز میں کیا۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ کیا، اسلام آباد میں دھرنا دیا اور اسے کئی ہفتوں بلکہ کئی ماہ تک جاری رکھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی تمام تر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا، پولیس افسران کو دھمکیاں دیں، وزیراعظم کے استعفے اور حکومت ختم کرنے کا مسلسل مطالبہ کیا اور مطالبات نہ مانے جانے تک اسلام آبادمیں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا وہ احتجاجی مارچ، دھرنا نامناسب، غیر ضروری اور غلط تھا۔ عوامی قوت کے زور پر حکومت گرانا غیر آئینی اور نہایت خطرناک ہے۔ عمران خان پر اسی وجہ سے تنقید ہوتی رہی۔ میرے جیسے اخبارنویس عمران خان کے لئے نسبتاً نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اس دھرنے پر تنقید کرتے رہے۔ میں نے دھرنے سے پہلے اور اس کے دوران کئی تنقیدی کالم لکھے اوریہ کہا کہ اگر عمران خان جیت گئے تب بھی جمہوری سسٹم کو شدید نقصان پہنچے گا اور ناکامی کی صورت میں یہ سیاسی خودکشی ہوگی۔ آج سب جانتے ہیں کہ کس طرح وہ دھرناناکام ہوا۔
اس لئے عمران خان اپنے ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں کسی اپوزیشن جماعت کے احتجاج پر اعتراض کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ دھرنے، لاک ڈائون پر تنقید کرنے کا اخلاقی جواز رکھتے ہیں۔ نفرت، غصے اور ناروا احتجاج کی جو فصل بوئی، آج وہ اسی کو کاٹ رہے ہیں۔ عمران خان تو مولانا کو روکنے کا اخلاقی جواز نہیں رکھتے، مگر پاکستانی عوام کو اس کا حق حاصل ہے۔ وہ سوال کر سکتے ہیں کہ عمران خان تب غلط تھا، مگر آج مولانا فضل الرحمن وہی غلط کام کیوں کر رہے ہیں؟ مولانا کے پاس کیا جمہوری، اخلاقی جواز ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے پانچ سال پہلے عمران کے مارچ اور دھرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس وقت وہ اس احتجاج اور دھرنے کو ناجائز، غیر اخلاقی، غیر قانونی بتاتے تھے۔ مولانا ہم سب کو یہ بتاتے، سمجھاتے تھے کہ عوامی طاقت کے زور پر کبھی حکومت نہیں گرائی جانی چاہیے۔ آج مولانا نے وہی عمران خان والا متنازع اور قابل اعتراض طرز عمل اپنا کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ جو بات پانچ سال پہلے غلط تھی، وہ آج مولانا فضل الرحمن کے لئے جائز اور درست کیسے ہوگئی؟صرف اس لئے کہ مولانا شکست کھا کر اسمبلیوں سے باہر ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ان کا حصہ نہیں اورکشمیر کمیٹی کی سربراہی ان سے چھن گئی ہے؟مولانا کی اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ یہ نالائق حکومت ہے، اس لئے ہم اسے گرانے نکلے ہیں۔ پاکستان کوئی وحشی قبیلہ یا جنگل میں رہنے والی مخلوق نہیں۔ یہ ایک جمہوری آئینی ملک ہے جس کا ایک آئین ہے، اسی کی رو سے پارلیمنٹ بنی، حکومت بنی۔ اسے ہٹانے کا ایک پروسیجر ہے۔ اس سے ہٹ کر کچھ بھی کیا جائے، وہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غلط ہوگا۔ ویسے بھی ہر حکومت کو نالائق کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایسا لفظ ہے جس کے لئے دلائل دینے، ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں اپوزیشن حکمران جماعت اور حکمران کو نالائق اور نااہل سمجھتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ حکومتی پالیسیاں غلط ہوں، ان سے مہنگائی بڑھ رہی ہو، معیشت متاثر ہو، بیروزگاری میں اضافہ ہو۔ اس سب کے باوجود اس طرح وفاقی دارالحکومت پر ہلہ بول کر کوئی حکومت نہیں ہٹائی جا سکتی۔ مولانا کو احتجاج کرنے کا حق البتہ حاصل ہے۔ وہ ملک بھر میں جلسے کریں، ریلیاں نکالیں، عوام کو متحرک کریں، انہیں قائل کریں۔ یہ سب ضرور کریں، مگر حکومت گرانے کے لئے دھرنے کا حق نہیں مل سکتا۔ غلط بات ہمیشہ غلط ہے۔ عمران خان نے جو کیا وہ غلط تھا۔ آج مولانا جو کر رہے ہیں وہ غیر آئینی، غیر قانونی اور انارکی پھیلانے کی کوشش ہے۔
صرف تجزیہ کرنے کی خاطر ایک ذہنی مشق کرتے ہیں۔ مستقبل کا منظرنامہ فرض کرلیں۔ اس مارچ کے نتیجے میں دو منظرنامے بن سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت مولانا کو گرفتار کرلیتی ہے۔ پارٹی کے تمام اہم رہنما، قابل ذکر مقامی کارکن بھی پکڑ لئے جائیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کال پر احتجاج جاری رہے تو رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں روکا جائے۔ اس ٹکرائو کے کیا نتائج ہوں گے؟ جذباتی کارکنوں کو پولیس لاٹھی چارج، پانی کی بوچھاڑ، آنسو گیس وغیرہ سے روکے تو تصادم میں جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ عمران خان کے دھرنے میں ربڑ کی گولیوں کے استعمال کے باوجود چار پانچ جانیں چلی گئیں تھیں۔ اس بار کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔ دہشت گردی کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا۔ عوامی اجتماعات، ریلیوں پر کہیں بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ کوئٹہ اور بلوچستان میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ چند دن پہلے چمن میں مولانا کی جماعت کے ایک رہنما نشانہ بنے۔ خدانخواستہ اس صوبے سے آنے والی کسی عوامی ریلی پر حملہ ہوگیا۔ نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟اس تصاد م کی فضا سے دو فوری نقصان ہوں گے۔ معیشت پہلے ہی تباہ حال ہے، مزید نیچے جائے گی۔ دوسراکشمیر جو اس وقت نمبر ون ایشو بنا ہوا ہے، وہ پیچھے چلاجائے گا اور میڈیا پر ہر جگہ صرف دھرنے، احتجاج کی کوریج ہوگی۔ اس کا نقصان کسے ہوگا؟ ظاہر ہے کشمیریوں کو۔ ذمہ دار کون ہوگا؟ ظاہر ہے مولانا فضل الرحمن۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس احتجاج میں دینی مدارس کے طلبہ استعمال ہوئے تو پھر مدارس کے حوالے سے کریک ڈائون یقینی ہوجائے گا۔ مدرسوں کا بڑا حصہ نیشنلائز کرنے کی تجویز پہلے ہی چل رہی ہے۔ مولانا کے احتجاجی دھرنے کا نقصان مولانا سے زیادہ دینی طبقے اور مدارس کو ہو سکتا ہے۔ مدارس خود بخود ہدف پر آ جائیں گے۔ اس حوالے سے بھی سوچ لینا چاہیے۔
دوسرا منظرنامہ یہ کہ حکومت مولانا اور ان کے ساتھیوں کو نہیں روکتی۔ مولانا اپنے کارکنوں، حامیوں کی اچھی خاصی تعداد کے ساتھ اسلام آباد میں آجاتے ہیں۔ خاکسار کا شمار ان لوگوں میں نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مولانالوگ اکٹھے نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں وہ مختلف بڑے شہروں میں اچھا خاصا شو آف پاور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لاہور اور کراچی سے انہیں سیٹ نہیں ملتی، مگر مولانا ان دونوں شہروں میں بڑے اجتماعات کر چکے ہیں۔ کے پی اور بلوچستان میں وہ زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ مولانا کے پاس دینی مدارس کے طلبہ کی اچھی خاصی سپورٹ ہے۔ مختلف شہروں میں وفادار کارکن بھی موجود ہیں جو کسی خاص شہر میں جمع ہو کر بڑا جلسہ منعقد کر سکتے ہیں۔ اس لئے مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں چالیس پچاس ہزار تک لوگ جمع کر سکتے ہیں، ممکن ہے اس سے کچھ کم ہوں یا اس سے زیادہ بھی ہوجائیں۔ ہم زیادہ فرض کر لیتے ہیں۔ مولانا ایک لاکھ لوگ جمع کرکے غیر معمولی شو کرلیتے ہیں۔ پھر کیا حکومت استعفا دے دی گی؟نہیں تو پھر دھرنا کیا جائے گا۔ پچیس سے پچاس ہزارتک کے لوگوں یا چلیں ایک لاکھ ہی مان لیں، اتنے لوگوں کے دھرنے کے لئے غیر معمولی انتظامات چاہئیں۔ کروڑوں روپے خرچ اٹھے گا۔ تین وقت کھانا، پانی، چائے وغیرہ۔ اسلام آباد میں بارشیں ہوتی رہتی ہیں، سردی کی لہر بھی جلد آ جاتی ہے، سونے کے لئے خیمے، کمبل وغیرہ اور سب سے زیادہ حوائج ضروریہ کے لئے باتھ رومز۔ تحریک انصاف کا دھرنا بعد کے دنوں میں زیادہ بڑا نہیں رہا تھا، اس کے باوجو د بہت مسائل پیدا ہوئے۔ مولانا کے ساتھی کہتے ہیں کہ ان کے کارکن سادہ مزاج لوگ ہیں، کم پر گزارہ کر لیں گے۔ دال کھاتے رہیں گے۔ ہم مان لیتے ہیں۔ چلو اب یہ مسئلہ تو حل ہوا، بریانی کے بجائے دال کی دیگ سے کام چلا لیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ تمام انتظامات اعلیٰ طریقے سے ہوجائیں پھر بھی اگر وزیراعظم استعفا نہ دے، تب کیا کریں گے؟کتنے دن تک اسلام آباد بیٹھے رہیں گے؟ ایک دن، دو دن، ایک ہفتہ؟ دس دن، پندرہ دن، ایک مہینہ، دو مہینے، آخر کب تک؟عمران خان نے چودہ اگست سے دھرنا شروع کیا تھا، گرمی تھی، سردی آنے میں چار ماہ لگ گئے۔ یہ دھرنا شروع ہی ستائیس اکتوبر سے ہو رہا ہے۔ لوگ سردی کی شدت سہہ لیں گے؟اچھااس سب کے بعد بھی اگر حکومت مستعفی نہ ہو تب مولانا فضل الرحمن کیا کریں گے؟ کیا وہ پی ٹی وی پر قبضہ کر لیں گے، پارلیمنٹ ہائوس، وزیراعظم پر ہلہ بول دیں گے؟ اگر نہیں تو پھر جو حکومت استعفا نہ دے، اسے کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے؟امپائر کی انگلی والا تو سوال ہی نہیں۔ مولانا تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ شخصیت اور سویلین سپرمیسی کے قائل ہیں۔ وہ امپائر کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ پھر یہ حکومت گرانے کی انہونی کیسے ممکن ہوگی؟مولانا کو ان سوالوں کے جواب دینے چاہئیں۔ ابھی ستائیس اکتوبر میں بہت وقت باقی ہے۔ انہیں اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔