منفی دائرے کا حصار
کالم نگاری کے سفر کی ابتدا ہی میں ایک سینئر نے نصیحت کی تھی، " کوشش کرو یک رخا سوچو نہ لکھو اور کبھی خود کو منفی دائرے میں مقید نہ کرنا۔ " اس منفی دائرے کے حوالے سے سوال پر کہا گیا، " بسا اوقات آدمی کسی خاص ایشو، واقعے یا فرد، جماعت کے حوالے سے ایسی انتہائی پوزیشن لے لیتا ہے کہ پھر اس میں توازن لانا ممکن نہیں رہتا۔ انتہاپر چلے جانے کی وجہ سے مسلسل تنقید ہی کرنا پڑتی ہے اور اچھے بھلے ٹھیک کام میں بھی کیڑے نکالنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کے منفی دائرے کے حصار میں قید ہوجانا لکھاری کے لئے فکری موت ہے۔ "
لکھتے لکھاتے آدھی عمر گزر گئی، کالم نگاری کو بھی اٹھارہ برس ہونے کو ہیں۔ بہت بار ہم پر بھی یہ وقت آئے۔ مختلف ایشوز پر اپنی فہم کے مطابق رائے بنائی جاتی ہے، کبھی اس میں شدت یا انتہا بھی آ جاتی ہے۔ کوشش یہی کرتے ہیں کہ اس انتہا میں پھنسے رہنے کے بجائے باہر نکل آئیں۔ اپنی رائے سے رجوع کر لیا جائے۔ کوئی زیادہ سخت، یک رخی تحریر لکھی گئی تو اس کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھنے کے بجائے اسے ایک طرف رکھ دیا جائے۔
سیاست پر لکھتے، بات کرتے ہوئے ایسا لازمی کرنا چاہیے۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں حق وباطل کا معرکہ بپا نہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک طرف حسینی لشکر ہے، دوسری طرف یزیدی فوج۔ ایسا تاثر دینے کی بعض سیاستدان کوشش ضرور کرتے ہیں۔ حقیقت مگر یہ نہیں۔ یہ سیاست ہے، اقتدار میں آنے کی جدوجہد۔ سیاست میں مذہبی جماعتیں بھی پاور پالیٹیکس کرتی ہیں اور سیکولر جماعتوں کا ہدف بھی اقتدار ہی ہے۔ ہر جماعت اقتدار میں آنے کے لئے ہی جدوجہد کرتی ہے۔ ممکن ہے کلاسیکی ٹھیٹھ مذہبی فکر کی روشنی میں اس پر کوئی اعتراض ہو، دور حاضر کے اجتماعی انسانی شعور کے مطابق اس میں کوئی برائی نہیں۔
جمہوریت نام ہی اسی کا ہے۔ مختلف افراد، جماعتیں اپنا منشور لے کر میدان میں اترتے اور عوام کو اٹریکٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کو جیت ملتی تو کسی کے حصے میں ہار۔ سیاست کو جنگ وجدل کا معرکہ نہیں بنانا چاہیے۔ سیاستدان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں، دیگر انسانوں کی طرح۔ ہاں ہمیں اور انہیں اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے، اچھی روایات کی بھی۔
اخلاقی اصول اور ضابطے سیاست اور سیاستدانوں پر منطبق ہوتے ہیں۔ انہیں شفاف رہنا چاہیے، لوگوں کے آگے جوابدہ، اپنی پرفارمنس دکھا کر ووٹ لیں اور منفی کارڈز نہ کھیلیں۔ لسانیت، نسل پرستی، علاقائی نفرتوں وغیرہ کو نہ پھیلائیں، وغیرہ وغیرہ۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست میں تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لہجوں، مزاج اور رویوں میں بھی شدت جھلکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن انتہائوں پر جا چکے ہیں۔ مخالف کو برداشت کرنا گوارا ہی نہیں۔ اس میں سوال ہوسکتا ہے کہ یہ کس نے کیا؟ کوئی عمران خان کا نام لے گا تو کوئی نوے کے عشرے کی لڑائی کے دونوں فریقوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ان کا ماضی یاد دلائے گا۔
یہ بحث طویل ہے، کبھی نتیجے پر نہیں پہنچے گی۔ ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ آج کے بحرانی حالات میں اعتدال کا رویہ اپنا ئیں۔ کشیدگی کم کریں اور سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے سب کو اختلافات چھوڑ کر اکھٹا ہونا چاہیے۔
میں نے سوشل میڈیا میں کل سے عمران خان کی ٹیلی تھون کے خلاف جاری منفی کمپین دیکھی۔ افسوس ہوا۔ عمران خان کی ٹیلی تھون کا مذاق اڑانا، طنز کرنا اور پھبتیاں کسنا غلط اورنامناسب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان قدرے تاخیر سے سیلاب زدگان کی طرف متوجہ ہوئے، ان کا یہ رویہ ناقابل فہم تھا۔ ہم اس پر تنقید کرتے رہے۔ مطالبہ کرتے رہے کہ وہ فنڈریزنگ کے لئے فعال ہوں۔ میں نے خود انہی کالموں میں یہ مطالبہ کیا۔ بہت سے اور لوگ بھی یہ لکھتے اور کہتے رہے۔ اچھی بات ہے کہ عمران خان نے وقت کی اس ضرورت پر عمل کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب عمران خان فنڈ ریزنگ کے لئے بیٹھے تو ان کی ٹیلی تھون کو غیرمعمولی پزیرائی ملی۔ لوگوں نے اپنے دل کھول دئیے۔ صرف دو گھنٹوں میں چار پانچ ارب کی کمٹمنٹس ہوئیں۔ ایسا کبھی دیکھا نہ سنا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی اور پاکستانی لیڈر اتنے کم عرصے میں لوگوں کو اتنا چارج اور موٹی ویٹ کر سکتا ہے۔ یہ تو ایک امر واقعہ ہے، اس میں چڑنے، ناراض ہونے، غصہ کرنے، اداس ہونے یا مضطرب ہو کر پے درپے ٹوئٹس وغیرہ کرنے اور منفی پوسٹوں کی کوئی منطق نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے پاکستانی دل کے کس قدر کشادہ، درد دل رکھنے والے اور حساس ہیں۔
میں اپنے بے شمار تجربات کی روشنی میں اوورسیز پاکستانیوں کا بڑا مداح اور ان سے محبت رکھتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی کی مدد کے لئے چار لفظ لکھے، ہمیشہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے لبیک کہا گیا۔ دکھی دلوں پر مرہم رکھا گیا، اتنے زور شور سے مدد کی گئی کہ بہت بار تو انہیں روکنا پڑا کہ اب بس کر دیں، بہت اچھے سے سب ہوچکا ہے۔ یہ بار بار ہوا۔ میں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اپنے وطن اور قوم کے لئے غیر معمولی درد اور تڑپ دیکھی۔
یہ بھی اپنی جگہ حقیقت اور سچ ہے کہ فنڈ ریزنگ کے حوالے سے عمران خان کی کریڈیبلٹی ہے۔ اس سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ، اس کی بہت سی باتوں پر تنقید اپنی جگہ، مگر جو حق ہے، سچ ہے، اسے کیسے ہم جھٹلا سکتے ہیں؟ عمران خان کے تینوں کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی انہی فنڈز کی بنا پر قائم ہوئے اور کیا شاندار ادارے چل رہے ہیں، یہ سب جانتے ہیں۔
عمران خان کی ٹیلی تھون میں بہت اچھا، شاندار ریسپانس ملا۔ بہت سے لوگوں نے فوری طور پر فنڈز ٹرانسفر بھی کر دئیے، کچھ نے وعدے کئے ہیں اور بعض رقوم اتنی بڑی ہیں کہ ان کے ٹرانسفر میں چند دن لگنے فطری اور قابل فہم ہیں۔ اسی طرح جس نے سینکڑوں مکان بنانے کا وعدہ اور کمٹمنٹ کی، ظاہر ہے اس میں وقت لگے گا۔
ہمیں حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ جب سب اتنا اچھے سے ہو رہا ہے تو آگے بھی ان شااللہ اچھا ہی ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ ان شااللہ یہ تمام فنڈز یا ان کا بیشتر حصہ اکھٹا ہوگا۔ ہمیں ان فنڈز کے درست استعمال کے حوالے سے بھی حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ ماضی گواہ ہے کہ عمران خان نے چیریٹی اداروں کے نام پر پہلے جو فنڈز لئے، وہ درست جگہ پر لگائے، اس کے کینسر ہسپتال اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ہر وقت طنز تشنیع کا رویہ رکھنا اچھی بات نہیں۔ ایسے بحرانی دور میں تو منفی سوچ اور منفی تخلیقیت کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فنڈز کے شفاف استعمال کا مطالبہ وہی لوگ اتنے زور شور سے کیوں کر رہے ہیں جنہوں نے نہ فنڈ دیا اور نہ ہی وہ اس حوالے سے عمران خان کی حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ٹیلی تھون کامیاب کیسی ہوگئی؟ لوگوں نے فنڈز کے وعدے کیوں کر دئیے؟ اور کہیں یہ سب پیسے آ ہی نہ جائیں؟
یارو یہ سب ذہنی مریضوں والا رویہ ہے۔ عمران خان پر تنقید کے بے شمار مواقع ملیں گے۔ ماضی میں اس نے اس حوالے سے کبھی "مایوس"کیا، نہ آئندہ کرے گا۔ آج کل ہی میں وہ کوئی نہ کوئی موقعہ فراہم کر دے گا۔ جی بھر کر تب تنقید کر لیں۔ ہم بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ایسی غلطیوں پر۔ اس ٹیلی تھون پر مگر تنقید کرنے، کڑوے کٹیلے سوال اٹھانے اور خواہ مخواہ شکوک پھیلانے، طنز کرنے، پھبتیاں کسنے کا جواز نہیں۔ یہ غلط ہے۔
ہر وقت منفی دائرے میں مقید رہنے کے بجائے اسے توڑ کر باہر نکلیں۔ اپنے کاندھوں پر نفرت، بغض، تعصب کی جو بوری لاد رکھی ہے، اسے اتار پھینکیں۔ ریلیکس ہوجائیں، سکون سے ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیں اور اعتدال کے ساتھ بات سوچیں، کہیں، لکھیں۔