معاملات گرفت میں نہیں آ رہے
موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ گزر چکا ہے۔ ویسے تو یہ چار ہفتوں کا وقت اتنا زیادہ نہیں کہ اس پر کوئی حتمی رائے دی جا سکے۔ حکمران اتحادکی کارکردگی کا درست تجزیہ کچھ مزید وقت گزر جانے کے بعد ہی ہوپائے گا۔ تاہم چونکہ یہ تجربہ کار لوگ ہیں، کئی بار حکومتیں کر چکے ہیں اوردرجن بھر پارٹیوں کی اجتماعی سیاسی دانش اور تجربہ اکھٹا ہو چکا ہے، اس لئے ان کے ابتدائی دنوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
سب سے بڑا دھچکا وزیراعظم میاں شہباز شریف کو دیکھ کر لگا ہے۔ وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، پنجاب جیسے بڑے صوبے کو چلانے کی گورننس کا وسیع تجربہ ہے۔ تین بار وزیراعلیٰ رہے، دوبار تو مسلسل دس برس رہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ملک چلانا صوبہ چلانے سے مختلف ہے، اس میں عالمی سطح کی ڈیلنگ بھی آ جاتی ہے۔ اس کے باوجود میاں شہباز شریف سے زیادہ بہتر اور مرتب انداز میں معاملات چلانے کی توقع تھی۔
جب سے شہباز شریف وزیراعظم بنے ہیں، ان کے چہرے سے مسکراہٹ روٹھ سی گئی ہے۔ ایک عجب انداز کی خشونت، تفکر اور بوکھلاہٹ سی بشرے سے مترشح ہے۔ ان کا وہ سافٹ تاثر، وہ لہک لہک سے اشعار پڑھنے والا معاملہ بھی اپنا ردھم کھو بیٹھا۔ مانا کہ حالات سنگین ہیں، معیشت برے حالوں سے دوچار ہے، حکومت کے لئے کابینہ بنانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ یہ سب اپنی جگہ مگر اپنے چہرے پر یہ سب پریشانیاں سجانا اپنے حامیوں کا مورال گراتا ہے، بڑھاتا نہیں۔
شہباز شریف صاحب کو لگتا ہے کوئی اچھا سپیچ رائٹر بھی دستیاب نہیں۔ وہ سرکار میں ہیں، سرکاری کھاتوں میں اس کام کے لئے کئی لوگ مقرر ہوتے ہیں۔ نجانے شہباز شریف کو اچھی تقریر لکھی نہیں ملتی یا وہ بھی سابق وزیراعظم عمران خان کی طرح فی البدیہہ تقریر کرنا پسند کرنے لگے ہیں۔ اس میں ان سے مسلسل غلطیاں ہو رہی ہیں۔ ایسی غلطیاں جن کے لئے پنجابی سلینگ میں کئی جگتیں موجود ہیں۔ شانگلہ گئے تو وہاں مقامی آبادی پر اتنا ترس کھایا کہ جذبات میں آ کر اعلان کر دیا کہ مجھے اپنے کپڑے بیچ کر آپ کو سستا آٹا دینا پڑا تو دوں گا۔ اس پر ظاہر ہے پھبتیاں کسی گئیں اور سوشل میڈیا پر بہت سے میمز بنے۔
پھر ایک جلسے میں علامہ اقبال کا شعر سنایا تو جوش جذبات میں بولے کہ یہ اقبال نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں لکھا تھا، یعنی اقبال نے اپنی پیدائش سے پہلے یہ شعر کہا۔ ایک زمانے میں عمران خان ایسی غلطیاں کیا کرتے تھے، کبھی وہ جرمنی کو جاپان کا پڑوسی ملک بنا دیتے تو اس پر ن لیگی بڑا ہنسا کرتے۔ اب لگتا ہے تحریک انصاف والوں کی باری ہے۔ اب یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ وزیراعظم صاحب کو ایڈیٹرز سے حالیہ ملاقات میں گفتگو کا آغاز لاہورکے کڈنی لیور ہسپتال (پی کے ایل آئی)اور میٹرو ٹرین سے کرنا پڑا اور اختتام انہوں نے اورنج ٹرین پر کیا۔ یعنی جناب وزیراعظم کے پاس کئی سال پرانے بطور وزیر اعلیٰ کئے گئے کاموں کے حوالے کے سوا کچھ کہنے کو نہیں تھا۔ افسوسناک۔
ایک کام حکومت نے اچھا کیا کہ آئی ایم ایم وغیرہ سے مذاکرات کے لئے وقت بالکل ضائع نہیں کیا۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو ابتدائی چند مہینے جانے، نہ جانے کی باتوں میں ضائع ہوگئے۔ تحریک انصاف کے عبقری وزیر ڈاکٹر اسد عمر کو دراصل معیشت کا بالکل ہی آئیڈیا نہیں تھا اور نہ ہی انہیں تجربہ تھا۔ اسی لئے غلطیاں ہوئیں۔ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے غیر معمولی مستعدی دکھائی اور مفتاح اسماعیل فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے پہنچ گئے اور انہیں امریکہ کی مہربانی یا کسی اور وجہ سے خاصا ریلیف مل بھی گیا۔ دو ارب ڈالر ایک سال کے توسیعی پروگرام کے لئے دینے کا وعدہ ہوگیا۔ اب اسحاق ڈار نے کسی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ہونا چاہیے۔ نجانے اس کا کیا مطلب ہے؟ کہیں رہا سہا بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہوئی کہ پچھلے تین برس اپوزیشن سٹیٹ بنک کے گورنر پر تنقید کرتی رہی اور عمران خان حکومت پر الزام لگاتی رہی کہ اس نے ملک آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ یہ تنقید بہت سخت اور شدید تھی۔ اب جبکہ انہی گورنر کی مدت مکمل ہوئی تو اسی اپوزیشن کے اتحاد نے جو حکومت میں آ چکا ہے، اس کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے دل کھول کر گورنر سٹیٹ بینک کی تعریف کی۔ پہلے وہ جھوٹ بول رہے تھے یا اب جبری سچ بولنا پڑا کہ کہیں آئی ایم ایف ناراض نہ ہوجائے۔
اس کے باوجود معیشت ابھی تک حکومت کے کنٹرول میں نہیں آئی بلکہ جو عمومی اندازہ تھا کہ سرمایہ کار ن لیگ سے فرینڈلی ہیں اورا ن پر اعتماد کرتے ہیں، وہ بھی درست نہیں نکلا۔ ابتدائی دو تین دنوں کے بعد سٹاک مارکیٹ بھی نہیں اٹھ رہی اور ڈالر بھی کنٹرول میں نہیں آ رہا، گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ پھر گر گئی۔ ڈالر کو روکنے کی یقیناً حکومتی کوششیں چل رہی ہوں گی، اس کے باوجود یہ حال ہے۔
پٹرول بم عوام پر کسی بھی وقت گر سکتا ہے، ابھی نہیں تو بجٹ میں لازمی ایسا ہوگا۔ اس سے مہنگائی کی جو بھیانک سونامی نما لہر اٹھے گی، اس کے بارے میں ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہونے کا مطلب یہ کہ بجلی لازمی مہنگی ہوگی۔ جون، جولائی، اگست بلکہ اب تو ستمبر بھی سخت گرم اورتکلیف دہ مہینے ہیں، جن میں ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کولر، اے سی وغیرہ چلاتا ہے۔ سال بھر میں سب سے زیادہ بل انہی چار ماہ میں آتے ہیں، اگربجلی مہنگی ہوگئی تو یہ بل کہاں جا پہنچیں گے، اس کا تصور بھی ہلا دیتا ہے۔
روس یوکرائن جنگ کے باعث پٹرول، گیس مہنگی ہوتی جائے گی اور انڈونیشیا کے مقامی بحران کی وجہ سے پام آئل بھی۔ اسی وجہ سے کوکنگ آئل اور گھی بہت زیادہ مہنگے ہوچکے ہیں، مزید مہنگے ہوجائیں گے اور حکومت کے پاس اس کے لئے بظاہر کوئی حل موجود نہیں۔ ممکن ہے اگلے چند ماہ میں ہمیں گندم بھی باہر سے منگوانا پڑے، تب وہ بھی مہنگی ملے گی کہ ہم ماضی میں زیادہ تر گندم روس اور یوکرائن سے لیتے رہے ہیں، اب وہ دونوں بحران کا شکار ہیں۔
چلیں پوسٹ کورونا بحران اپنی جگہ، روس یوکرائن کی جنگ بھی ایک عالمی حقیقت ہے، سوال مگر یہ ہے کہ مرغی کا گوشت کیوں اتنا مہنگا ہوگیا ہے، اس کی فیڈ بھی مقامی سطح پر تیار ہوتی ہے، اس سال مکئی کی فصل بھی اچھی ہوئی جو فیڈ میں استعمال ہوتی ہے۔ پولٹری فارم بھی مقامی، مرغیاں بھی مقامی، ان کی فیڈ بھی مقامی، گوشت استعمال کرنے کی کوئی غیر معمولی وجہ بھی نہیں۔ عید ہوچکی، اب سخت گرمیاں ہیں، جن میں شادیاں زیادہ نہیں ہوتیں۔ آخر گوشت کی قیمت میں سو ڈیڑھ سو کا اضافہ کیوں ہوا؟ جو گوشت لاہور میں ساڑھے تین سو تک مل جاتا تھا، اب ساڑھے چار سو اور بعض اوقات پانچ سو سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ آخر کیوں؟
یہ کالم لکھے جانے سے کچھ دیر پہلے چینلز پر مسلسل چیزیں مہنگی ہونے کے ٹِکرز چل رہے تھے۔ جن کے مطابق ایک پائو سے بھی کم (190 gm) چائے کی پتی کا پیکٹ بارہ روپے مہنگا ہوگیا۔ کوکنگ آئل فی لٹر کی قیمت میں بیس روپے اضافہ۔ ایک کلو مرغی کا گوشت ساڑھے پانچ سو اور بعض شہروں میں ساڑھے چھ سو تک پہنچ گیا۔ لاہور میں ایک کلو پیاز کی قیمت دو سو روپے کلو تک پہنچ گئی۔ رمضان میں یہ پیاز ساٹھ سے اسی روپے کلو ملتا رہا تھا۔ اب کیا آفت آگئی؟
یوں لگ رہا ہے کہ جیسے تحریک انصاف پر اقتدار میں آتے ہی افتاد ٹوٹ پڑی تھی اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ اب وہی حال حکمران اتحاد کا ہے۔ ن لیگ کی حالت زیادہ پتلی ہے کیونکہ ان کا وزیراعظم ہے، وزیرخزانہ اور کئی اہم وزرا۔ پیپلزپارٹی پر بھی مشکل وقت آنے والا ہے جب بلاول بھٹو غیر ملکی دورے کریں گے اور پھر ان کی کارکردگی کا بھی محاسبہ ہوگا۔ سردست تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکمران اتحاد کا تعاقب کوئی بددعا کر رہی ہے۔ حکمران اتحاد اور ان کے حامیوں کو کچھ توجہ صدقہ خیرات پر بھی دینی چاہیے، اس سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ ممکن ہے سیاسی مخالف پر بھی اس کا اثر ہوجائے۔