ملفوظات
پچھلے کالم میں احمدپورشرقیہ کے ممتاز عالم دین اور مدرس علامہ عبداللہ کا ذکر آیا۔ مولانا عبداللہ کی کتابوں کے حوالے سے گزشتہ نشست میں لکھا تھا۔ ان کا مجموعہ "تالیفات علامہ عبداللہ"کے نام سے شائع ہوا ہے۔ خلافت وملوکیت پر نقد کے حوالے سے ان کی کتاب" صحابہ کرامؓ پر تنقید" مشہور ہوئی۔ مولانا عبداللہ نے"خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ"کے نام سے ڈاکٹر حمیداللہ کے مشہور خطبات میں بیان کئے گئے بعض علمی تفردات پر گرفت کی اور حق ادا کر دیا۔ مولانا عبداللہ کے سوانح اور افکار کی تفصیل "تذکرہ مولانا عبداللہ " کے نام سے ایک کتاب میں موجود ہیں۔ اس میں ایک باب ملفوظات وارشادات کے نام سے ہے۔ اس درویش عالم دین کی باتیں قارئین سے شیئر کررہا ہے تاکہ نافع علم دوسروں تک پہنچ سکے۔
مولانا عبداللہ نے ایک دن فرمایا:"کشف اور فراست میں فرق ہے۔ کشف تو یہ ہے کہ کوئی آدمی راستہ میں آ رہاہے، اس کو یہیں بیٹھے دیکھ لیا اور وہ آ بھی گیا۔ یہ کشف تھا۔ جبکہ فراست دل کی گواہی دینے کو کہتے ہیں۔ اس کو الہام بھی کہا جا سکتا ہے۔ شیخ یا پیر کو اسی الہام، فراست کے ذریعے ہی طالب یا مرید کے امراض باطنی معلوم ہوجاتے ہیں۔ فراست اور عقل ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ عُقلا کو عقل کے ذریعے باتیں معلوم ہوجاتی ہے، لیکن عقل اور فراست میں بھی کچھ فرق ہے۔ عقل تو اسباب ظاہری سے استدلال کرتی ہے اور فراست محض وجداناً محسوس کرتی ہے۔"
فرمایا: سرکار دو عالم ﷺ کی اتباع میں برکت کا ایک راز ہے، وہ یہ کہ جو شخص آپ ﷺ کی ہئیت اختیار کرتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کو محبت اور پیار آتا ہے کہ میرے محبوب کا ہم شکل ہے۔ فرمایا، حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک زمانے آنے والا ہے جس میں درہم ودینار مسلمانوں کے لئے سب چیزوں سے بہتر ہوگا۔ پھر فرمایا کہ اب وہی زمانہ چل رہا ہے، اس میں کچھ روپیہ پیسہ بچا کر رکھنا تقویٰ یا ولایت کے خلاف نہیں۔ بلکہ ولایت کہتے ہیں اطاعت اور عبدیت کو، چناچہ حضورﷺ نے ازواج مطہرات کو سال بھر کا خرچ ایک ساتھ دے کر ظاہر فرما دیا کہ سال بھر تک خرچ ذخیرہ رکھنا اعلیٰ سے اعلیٰ توکل کے بھی خلاف نہیں۔ مزید فرمایا کہ حضرت سفیان ثوریؒ کا زہد وتقویٰ بہت بڑھا ہوا تھا، ہارون الرشید کے خط کو ہاتھ سے چھوا تک نہیں تھا بلکہ دور سے لکڑی الٹ کر کھولا تھا۔ وہی سفیان ثوری ہم لوگوں کے لئے فرماگئے ہیں کہ جس کے درہم ہوں، اس کو چاہیے کہ ان کی قدر کرے کیونکہ اب و ہ زمانہ ہے کہ جب آدمی کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو اس کی او ل مشق دین پر ہوتی ہے۔ مولانا عبداللہ نے پھر فرمایا کہ مثنوی شریف میں ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اسباب کے ذریعے مسبب الاسباب پر نظر کرو، اس طرح یہ اسباب اللہ سے ملنے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ پھر کہنے لگے، میاں میرا تو مشورہ یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کر کے رکھ لیا کرو۔ ورنہ میرا مشاہدہ ہے کہ تنگ دستی اور فقر میں انسان کی نیت اکثر ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے اور وہ دوسروں کے حقوق مارنے لگتا ہے۔
حضرت کا فرمان ہے کہ شیخ یا پیر کا ولی ہونا ضروری نہیں اور مقبول عنداللہ ہونا بھی ضروری نہیں۔ ہاں فن کا جاننا اور اس میں مہارت ضروری ہے جیسا کہ ڈاکٹر یا طبیب کا پرہیز گار ہونا ضروری نہیں، فن کا جاننا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر اعمال صالحہ ہوں، تقویٰ ہو، ولایت حاصل ہوجائے گی گو شیخ نہ ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر شیخ ولی بھی ہو تو اس کی تعلیم میں برکت زیادہ ہو گی۔ فرمایا:"دوسروں پر اعتراض سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرو۔ اگر کہیں ایسا موقعہ آئے تو دوسروں کے محاسن اور خوبیوں پر نگاہ کرو اور اپنے معاصی اور عیب پر نظر رکھو۔ اس سے نظر میں وسعت پیدا ہوگی۔ پھر فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرمایا کرتے تھے کہ نظر جس قدر وسیع ہوتی جاتی ہے، اعتراض واختلاف کم ہوتا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ سوال ہوا کہ تعلق مع اللہ پیدا کرنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟ فرمایا کہ اہل اللہ کی صحبت اختیار کرو، ذکراللہ اور مراقبہ کرو۔ عرض کیا گیا کہ کیسا مراقبہ؟ فرمایا کہ دنیا فنا ہونے کا، اپنی موت کا مراقبہ، آخرت کی بقاواثبات کا اور اللہ کے انعامات واحسانات کا اور ثواب اور عتاب کا مراقبہ۔ فرمایا کہ ایک قول پڑھا تھا کہ کسی بادشاہ کے خزانے میں دوسرے ملک سے کوئی موتی آئے تو خود بادشاہ بھی اس موتی کی قدر کرتا ہے۔ ندامت کے آنسو آنکھوں سے زمین پر گریں تو وہ اللہ تعالیٰ کے شاہی خزانے میں فوراً قبول ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت وعزت اور جلال تو ہے وہاں ندامت نہیں، لہٰذا اپنے بندوں کے اشک ندامت کی بڑی قدر فرماتے ہیں اور شہیدوں کے خون کے برابر وزن فرماتے ہیں، اقبال کی شاعری میں ان کا "موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لئے?""والا مشہور شعر ٹرننگ پوائنٹ شامل ہوا۔ پھر فرمایا کہ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے گنہگاروں کی توبہ واستغفار میں رونے کی آواز تسبیح پڑھنے والوں کی بلند آواز سے زیادہ محبوب ہے۔
فرمایا کہ حضرت ابوالحسن شاذلیؒ کا قول پڑھا تھا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں کسی چیز میں اختیار دیں تو مختار ہونے سے بچو بلکہ اپنے اختیار کو اللہ کی پسند میں فنا کروکیونکہ تم نتائج سے بے خبر ہو۔
ایک دن واقعہ سنایا کہ سید سلیمان ندوی جامعہ عباسیہ تشریف لائے تو مولانا صادق بہاولپوری صاحب سے ملاقات میں نصاب سے متعلق گفتگو کے دوران فرمایا کہ مولانا آپ نے اپنے نصاب میں قرآن کے لئے بہت تھوڑا وقت رکھا ہے۔ مولانا صادق نے جواب میں کہا میں نے تو کم وبیش دس سال قرآن کو پڑھنے کے لئے نصاب میں رکھے ہیں۔ اس پر سید ندوی حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیسے؟ مولانا صادق نے جواب دیا کہ میں عجمی تھا، جبکہ قرآن عربی میں ہے تو میں اس کی زبان سیکھنے کے لئے عربی صرف ونحو سیکھنا شروع کیا، اس پر میں نے کچھ عرصہ لگایا۔ پھر میں نے دیکھا کہ قرآن اکثر مقامات پر استدلال سے کام لیتا ہے تو میں نے اس کے لئے منطق وفلسفہ پڑھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ قرآن سابقہ امتوں کے تذکرے کرتا ہے تو اس کے لئے مجھے تاریخ سابقہ امم پڑھنا پڑی۔ میں نے دیکھا کہ قرآن حکیم ایک حکیم اور اصول بیان کر کے تفصیل کے لئے حدیث پاک کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کر دیتا ہے تو میں نے حدیث پاک پڑھی۔ یوں مولانا صادق نے تمام علوم جو نصاب میں شامل تھے، ایک ایک کر کے سب گنوا دئیے اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ دراصل یہ تمام علوم قرآن ہی کو سمجھنے کے لئے پڑھائے جاتے ہیں۔ اس پر سید صاحب مسکرائے اور بولے مولانا آپ نے اپنے زور علم سے بات بنا تو لی ہے، مگر اس طرح عام طور پر لوگ مانتے نہیں۔
علما عصر کا تذکرہ ہوتا تو مولانا عبداللہ فرماتے کہ علما سے متعلق مجھے سب سے زیادہ فکر رہتی ہے کیونکہ اس طبقہ کو انبیاء کا وارث فرمایا گیا ہے۔ اتنی بڑی وراثت کو سنبھالنے کے لئے استعداد بھی اتنی ہی چاہیے۔ جتنا بڑا منصب ہوگا، اتنے ہی بڑے تقاضے۔ فی زمانہ علما میں اور کچھ نہ ہو تو کم از کم تین وصف ہونے چاہئیں، تعلق مع اللہ، قناعت پسندی اور رسوخ فی العلم۔ تعلق مع اللہ کمزور ہوجائے تو دنیا کا غلبہ انہیں مفاد کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ قناعت پسندی انہیں لوگوں کی محتاجی سے محفوظ رکھے گی جو ان کے منصب کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ فی زمانہ علما نے مطالعہ چھوڑ رکھا ہے، اگرچہ کچھ علما قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ قدیم علوم کا ذوق بھی رکھتے ہیں لیکن انہیں عصری علوم یعنی جدید علوم سے مناسبت نہیں جبکہ فی زمانہ جدید علوم کا جاننا علما وقت کے لئے بہت ضروری ہے۔
سوال کیا گیا نوجوان نسل کو کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا، اہل علم اور صلحا کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ کہنے لگے کہ مرزا مظہر جان جاناں سے کسی نے سوال کیا کہ اگر آپ کو لیلتہ القدر نصیب ہو تو کیا دعا کریں گے؟ فرمایا، " نیک لوگوں کی صحبت کی دعا کروں گا۔"