Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Kya Pakistan Ko Lockdown Ki Taraf Jana Chahiye?

Kya Pakistan Ko Lockdown Ki Taraf Jana Chahiye?

کیا پاکستان کو لاک ڈائون کی طرف جانا چاہیے؟

کورونا کی تیسری لہر نے دنیا کے ساتھ ہمارے خطے کے ممالک اور ان کی حکومتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بار کورونا کے اثرات بھی زیادہ شدید ہیں۔ مریضوں کی حالت زیادہ بگڑ رہی ہے، ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور آکسیجن دینے کے آلات کم پڑ رہے ہیں، اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔ کئی ہزار لوگ روزانہ نشانہ بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ سخت اقدامات کب اٹھائے جائیں گے؟

کورونا کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ تین کام کرنے چاہیے تھے۔ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران ہی ماہرین نے یہ کہہ دیا تھا کہ اس وائرس سے جلدی جان نہیں چھوٹے گی، یہ بار بار حملہ آور ہوتا رہے گا، جب تک اس کی ویکسین بن کر ہر ایک کو نہیں لگ جاتی۔ ہمارے ہاں پچھلے سال گرمیوں میں ہسپتالوں کی گنجائش سے زیادہ مریض آ گئے تھے، اگر وہ شرح برقرار رہتی تو ملک میں خوفناک بحران پیدا ہوجاتا۔ الحمد للہ اس میں کمی آ گئی اور بتدریج معاملات کنٹرول ہوتے گئے۔ تب یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمارے پاس اپنی آبادی کے دبائو کے مطابق مناسب سہولتیں موجود نہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم انسداد کورونا کی صلاحیت بہتر کر لیتے۔ مزید کورونا سینٹرز، زیادہ آکسیجن دینے کے آلات اور وینٹی لیٹرز کی تعداد میں اضافہ۔ مناسب حکمت عملی سے کام لیا جاتا تو اس پر زیادہ رقم بھی خرچ نہیں ہونی تھی۔ بدقسمتی سے حکومت کورونا میں کمی کا کریڈٹ تو لیتی رہی، مگر یہ نہیں سوچا کہ اگلی لہر شدید ہو ئی توعوام کا کیا بنے گا؟

کورونا کو کنٹرو ل کرنے کا دوسرا طریقہ ویکسین منگوانے کا تھا۔ اس حوالے سے بدترین غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ پچھلے چند دنوں میں کئی حکومتی وزرا، ترجمانوں کی تفصیلی گفتگو سنی، کسی کے پاس معقول دلائل موجود نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے ویکسین منگوانے کے لئے ذرا برابر بھی کوشش نہیں کی اور بھک منگوں کی طرح عالمی اداروں سے خیرات میں ملنے والی ویکسین کا انتظارکرتی رہی۔ بھیک تو پھر بھیک ہے، دینے والے کی مرضی کہ جب دے۔ بھکاری نخرے کر سکتا ہے نہ اسے مطالبات کا حق ہے۔ مشہور انگریزی محاورہ ہے Beggars can't be choosers۔ حکومتی سطح پر اگر ویکسین منگوائی جاتی تو سستی پڑنی تھی۔ کہا جارہا ہے کہ روسی ویکسین دس ڈالر یعنی پندرہ سو روپے کے لگ بھگ پڑتی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر حکومت ایک یا دو کروڑ ویکسین منگواتی تو دس یا بیس کروڑ ڈالر خرچ ہوتے۔ کورونا ویکسین کے نام پر دس بیس کروڑ ڈالر نہایت آسانی سے عالمی اداروں سے مل جانے تھے۔ حکومت اگر بروقت آرڈر دے کردو ڈھائی کروڑ روسی اور چینی ویکسین خرید لیتی تو آج کورونا کی شرح اتنی خوفناک نہ ہوتی۔

عطیہ کے طور پر آنے والی ویکسین توقعات کے مطابق نہیں آ سکی، جبکہ خریدنے میں غفلت اور تساہل برتا گیا۔ اس کے بعد اگلا چیلنج ویکسین لگانے کا تھا۔ اس میں بھی حکومت زیادہ کامیاب نہیں جا رہی۔ یہ درست کہ جو چند ایک سنٹرز بنائے گئے ہیں، وہاں پر بہت اچھے انتظامات ہیں۔ ویکسین لگانے کی رفتار بھی تیز ہونی چاہیے۔ اصولی طور پر تو یہ ویکسین لگانے والے سنٹر اگر چوبیس گھنٹے نہیں چل سکتے تو کم از کم صبح چھ سات بجے سے رات بارہ بجے تک کام کریں۔ چھ چھ گھنٹوں کی تین شفٹیں بنا لیں اور عملہ کی تعداد میں اسی تناسب سے اضافہ کر لیا جائے۔ ہزاروں لوگ روزانہ متاثر ہو رہے ہیں، اگلے چند ہفتوں تک مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کروڑوں کو ویکسین لگنی ہے اور ابھی تک دس لاکھ کو بھی نہیں لگا پائے۔ کس طرح کام چلے گا؟

حل یہی ہے کہ ویکسینیشن کے عمل میں فوج اور فوجی اداروں کو شامل کیا جائے۔ ہر شہر میں بہترین سہولتوں سے مزین سی ایم ایچ موجود ہیں، ان کے تجربہ کار ڈاکٹرز کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں کا سٹاف شامل کر کے شہر کے مختلف مقامات پر تیزی سے ویکسین لگائی جائے۔ ابھی تک پچاس سال سے اوپر والوں کی رجسٹریشن چل رہی ہے، کیا تیس سے چالیس اور چالیس سے پچاس والے مریخ کی مخلوق ہیں کہ انہیں کورونا نشانہ نہیں بنائے گا یا ان کی ویکسین لگ جانے کا انتظار کرے گا؟

وزیراعظم عمران خان قوم کو بھاشن دینے کے شوق بلکہ جنون میں مبتلا ہیں۔ انہیں نیا شوق چرایا ہے کہ سچی، جھوٹی فون کالز کرا کر ان کے جواب میں طویل تقریریں کی جائیں۔ خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے اتنا زیادہ بولنے سے اچھے بھلے حامی بھی بور اور بیزار ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم کا کام تقریریں کرنا، بیکار کی نصیحتیں جھاڑنا نہیں بلکہ عمل کر کے دکھانا ہے۔ خان صاحب کو چاہیے تھا کہ لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ملتان جیسے شہروں میں جہاں کورونا کی شرح بہت زیادہ ہوچکی ہے، وہاں فوری طور پر ویکسین لگانے کے سنٹرز پانچ سات گنا بڑھا دئیے جاتے۔ ان شہروں میں رہنے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگوائی جاتی۔ یوں چند دنوں میں کئی ملین افراد محفوظ ہوجاتے۔

کورونا کا اصل خطرہ زیادہ رسک فیکٹرز والوں کو ہے۔ دمہ اور دل کی بیماریوں کا شکار لوگ، شوگر، بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کے رسک فیکٹر زیادہ ہیں۔ انہیں کورونا ویکسین پہلے لگنی چاہیے۔ اب ہوگا یہ کہ ایک چالیس سالہ شخص جو شوگر، بلڈ پریشر کا مریض ہے، اس تک ویکسین پہنچتے کئی ماہ بلکہ شائد سال بیت جائے۔ اس دوران وہ کورونا کے رحم وکرم پر ہوگا۔ اللہ حکومت پر رحم کرے اور عوام کا خیر خواہ بنائے۔ بظاہر یہ لگ رہاہے کہ حکومت کی خواہش ہے لوگ نجی شعبہ سے ویکسین لگوائیں اور حکومت کو کچھ نہ کرنا پڑے۔

ایک اور افسوسناک پہلو ہے کہ صوبائی حکومتوں نے ویکسین منگوانے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی شعبہ ہے اور صوبے اپنا حق جتانے میں غیر معمولی مستعد ثابت ہوئے ہیں۔ پچھلے سال کراچی کے ایک ہسپتال کو وفاق نے واپس لینے کی کوشش کی، وہ ہسپتال پہلے وفاقی حکومت کے پاس ہی تھا، مگر پھرسندھ حکومت کو دے دیا گیا۔ اس پر پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ صوبائی خود مختاری، حقوق کے نعرے اور وفاق کے خلاف مزاحمت کا عزم وغیرہ وغیرہ۔ بلاول بھٹو نے دھواں دھار بیانات دئیے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت ایک ہسپتال وفاقی حکومت کو دینے کے لئے تیار نہیں، مگراپنی آئینی ذمہ داری پر کوئی توجہ نہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں۔ انہوں نے کیا کر لیا؟

اگلے روز وفاقی وزیر اسد عمر ایک ٹاک شو میں یہی شکوہ کر رہے تھے۔ اینکر نے کہا کہ آپ کی صوبائی حکومتوں نے بھی ویکسین نہیں منگوائی تو اسد عمر کے پاس بے بسی سے سر ہلانے کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ پنجاب کا صوبہ عمران خان خود چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے پنجاب کی تاریخ کا کمزور ترین وزیراعلیٰ یہاں لگایا ہے۔ کیا خان صاحب کو نہیں چاہیے کہ وہ پنجاب حکومت کو چند ملین ویکسین منگوانے کا کہیں۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین، ٹیچرز، پولیس وغیرہ ہی کو صوبائی حکومت اپنے خرچ پر ویکسین لگوا دے۔ کیا یہ بڑا مطالبہ ہے؟

ویکسین کے ساتھ ساتھ کورونا کے دائرے کو توڑنا بہت اہم ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اپنی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے خطرے کے باوجود مجبوراً لاک ڈائون کی طرف جا چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے بھی دس دن کے لاک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ پاکستان بھی مختصر لاک ڈائون کی طرف جائے؟ دس یا پندرہ دن کا لاک ڈائون معاشی مسائل تو پیدا کرے گا، مگر لاک ڈائون پر سختی سے عمل کیا گیا تو کورونا کی شرح نیچے گر جائے گی۔ پچھلی بار بھی لاک ڈائون ہی سے کورونا مریضوں کی رفتا رکم ہوئی تھی۔ اس بار بھی ہمیں اس جانب جانا چاہیے۔ ملک کے ممتاز طبی ماہرین، ڈاکٹروں کی تنظیمیں دو تین ماہ سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب اگر لاک ڈائون نہ لگایا گیا تو پھر کئی ماہ کے لاک ڈائون کی نوبت آ جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جناب وزیراعظم کچھ عرصے کے لئے ٹی وی پر تقریروں اور فون کالز لینے کا کام چھوڑ کر کورونا کے خاتمے کے لئے عملی جدوجہد کریں؟ ممکن ہے اس زباں بندی سے جناب وزیراعظم چند دن کمفرٹیبل محسوس نہ کریں، عوام الناس کے لئے مگر یہ بہت مفید ثابت ہوگا۔ آزمائش شرط ہے۔

پس نوشت: آخر میں الخدمت پاکستان کے سربراہ عبدالشکور صاحب کی جانب سے تین تجاویز جو وہ حکومتی وزرااسدعمر وغیرہ کو بھی بھجوا چکے ہیں 1: حکومت ہیلتھ کی این جی اوز(الخدمت فائونڈیشن، ایس آئی یوٹی، انڈس، شفاوغیرہ)کو غیر تجارتی بنیادوں پر ویکسین درآمد کرنے کی اجازت فراہم کرے اور ان سے خالص انسانی مدد کی بنیاد پر کام لینے کا پروگرام بنائے۔ 2: احساس پروگرام کے تحت جو لوگ رجسٹرڈ ہیں، احساس پروگرام سے فنڈز مختص کر کے ان کی ہیلتھ این جی اوز کے ذریعے ویکسی نیشن کرائی جائے۔ 3: پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں اور ایسے کاروبار جو کورونا کے باعث بند ہیں، انہیں غیر تجارتی بنیادوں پر ویکسین فراہم کی جائے۔ ادارے اپنے تمام سٹاف کو ادائیگی کے ساتھ مکمل کریں تاکہ یہ ادارے جلداز جلد اپنی سرگرمی بحال کر سکیں۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti