کیا چین میں پھنسے پاکستانی طلبہ کو وطن واپس لانا چاہیے؟
آج کل ہمارے ہاں اسی سوال پر بحث جاری ہے کہ کیا مہلک کورونا وائرس سے متاثرہ چینی صوبہ وو ہان میں پھنسے سینکڑوں پاکستانی طلبہ کو واپس بلایا جائے یا نہیں۔ میری اس حوالے سے ایک خاص رائے ہے، مگر اپنی رائے قارئین پر مسلط کرنے کے بجائے یہ کوشش کروں گا کہ اس ایشو کو وہ خود سمجھیں اور غیر جذباتی انداز میں دلائل کی بنیاد پررائے قائم کریں۔
کورونا وائرس(ncov-2019) کے بارے میں اب تک بہت کچھ شائع اور نشر ہوچکا ہے۔ قارئین جان چکے ہوں گے کہ یہ تیزی سے پھیلنے والا ایک خطرناک وائرس ہے جو ٹچ کرنے سے فوری طور پر دوسرے شخص کو منتقل ہوجاتا ہے۔ تکنیکی طور پر کورونا وائرس (Coronaviruses (CoV ایسے وائرس کے گروپ ہیں جو سانس کی مختلف بیماریاں (جن میں بعض سنگین امراض بھی شامل ہیں ) پیدا کرتے ہیں۔ جس وائرس نے چین کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ اسی سلسلے کا ایک نیا وائرس (ncov)ہے۔ اس سے پہلے انسانوں میں یہ وائرس کبھی نہیں دیکھا گیا۔ کورونا وائرس کے حوالے سے ایک سخت پریشان کن بات یہ ہے کہ ان میں جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے کی صلاحیت ہے۔ حالیہ کورونا وائرس کے بارے میں بھی یہ بات تو کنفرم ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں آیا۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کے بارے میں ابھی کنفرم نہیں ہوسکا۔ مختلف اندازے ہیں، سائنس دان ان پر کام کر رہے ہیں، مگر ابھی تک وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں مشہور ہونے والی بیشتر تھیوریز غلط اور بے بنیاد ہیں۔ یہ تھیوری چل رہی ہے کہ چمگادڑوں کے سوپ سے یہ پھیلا۔ یہ بات درست نہیں۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر مشہور ہوئی، جس میں ایک خاتون چمگادڑ کے سوپ کا پیالہ لئے اس کی تعریف کر رہی ہے۔ اب واضح ہوچکا کہ وہ ویڈیو چین کی ہے ہی نہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر سازشی تھیوری اور گپ بک جاتی ہے۔ چین کے حالیہ بحران میں بہت سے لوگوں نے پیسہ کمانے کے لئے نت نئی تھیوریز جڑ دی ہیں، سب گپ بازی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ چین میں مہلک وائرس بنانے والی کسی فیکٹری سے یہ وائرس باہر آئے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ کوئی اسے امریکہ یا مغربی قوتوں کی سازش گردان رہا ہے، اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ کورونا وائرس سے عام طور پر سانس کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، نزلہ، زکام، کھانسی، بخار، سانس لینے میں تنگی وغیرہ۔ کچھ کیسوں میں معاملہ بڑھ کر نمونیا تک پہنچ جاتا ہے، زیادہ خطرناک کیسز میں دم گھٹنے، گردے فیل ہونااورپھر موت ہوجاتی ہے۔
ووہان چین کا بہت اہم شہر ہے، اس کی آبادی سوا کروڑ سے زیادہ ہے یعنی یہ لاہور، کراچی کی طرح کا شہر ہے۔ بہت ترقی یافتہ، خوبصورت شہر۔ چین کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے چند ایک یہاں موجود ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے طلبہ بھی ان یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے مقیم تھے۔ چینی حکومت نے اس وائرس کے سدباب کے لئے جس انداز میں کام کیا، اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین میں نئے سال کی تعطیلات ہمیشہ بڑے جوش وخروش سے منائی جاتی تھیں۔ اس وائرس کی شدت سامنے آنے سے پہلے کئی ملین لوگ ووہان شہر سے دیگر چینی شہروں کی طرف تعطیلات منانے چلے گئے تھے۔ چینی حکومت اب یہ کوشش کر رہی ہے کہ ان سب سے رابطہ کر کے ان کی سکریننگ کی جائے اور متاثرہ لوگوں کو الگ کیا جائے۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اب تک ہزاروں لوگ اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں، مگر ہلاکتیں دو سو سے کچھ زیادہ ہوئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کورونا وائرس کا شکار ہر شخص ہلاک ہوجائے گا۔ ڈینگی وائرس کی طرح اس کے شکار بے شمار مریض چند دن تکلیف کا شکار رہ کر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ وائرس عمومی طور پر ادویات سے نہیں مرتے، ان کا ایک لائف سائیکل یا عمر ہوتی ہے، وہ مکمل ہوتے ہی ازخود مر جاتے ہیں۔ چند ایک وائرس البتہ ایسے ہیں جن پر کام کر کے ان کا علاج اور ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے۔ اس کورونا وائرس کے حوالے سے ابھی تک ایسا نہیں ہوا، البتہ سائنس دان اس پر جنونی انداز میں لگے ہوئے ہیں، مگر ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ان کی ویکسین کب تک بنے گی۔
اب سوال آتا ہے پاکستانی طلبہ کا۔ ووہان میں ایک اندازے کے مطابق آٹھ سو کے قریب پاکستانی طلبہ مختلف یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں موجود ہیں۔ ان میں سے چار پاکستانیوں پر اس مرض کا شکار ہونے کا شبہ ہے۔ پاکستانی طلبہ اس وقت شدید ڈپریس، پریشان اور دکھی ہیں۔ سب سے زیادہ پریشانی انہیں یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور ان کے اپنے ملک نے انہیں لاوارث بچوں کی طرح تقدیر کے حوالے کر دیا ہے۔ بعض طلبہ سے میڈیا کے دوسرے لوگوں کی طرح میری بھی بات ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ نے اپنی فیملیز بھی ساتھ رکھی ہوئی ہیں، اندازے کے مطابق تیس سے پینتس فیملیز وہاں موجود ہیں۔ دو، تین، پانچ برسوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں۔ تصور کریں کہ آپ کا کوئی پیارا اپنی بیوی، دو سال کے بچے کے ساتھ دس دنوں سے ایک کمرے میں بند ہو، ہر طرف خوف کی فضا ہو، موت سر پر ناچ رہی ہو، ایسے میں ان پر کیا گزر رہی ہوگی؟ کورونا وائرس کا شکار تو ان شااللہ یہ نہیں ہوں گے، مگر اس تنہائی، خوف اور وحشت کی فضا میں کب تک رہیں گے؟ اس سوال کا جواب بھی کسی کو دینا چاہیے۔ سارس وائرس کی ویکسین دس ماہ کے بعد بنی تھی، صورتحال نے نارمل ہونے میں بھی کئی ماہ لئے تھے۔ اب معلوم نہیں کتنی دیر لگے؟ یہ پاکستانی طلبہ آخر کب تک ووہان کے مقتل میں پھنسے رہیں گے؟
اس حوالے سے دوتین باتیں کہی جا رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں واپس بلانے سے یہاں کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔ دوسرا یہ کہ عالمی اداروں نے بھی کہا ہے کہ لوگوں کو نہ نکالا جائے، تیسرا یہ کہ ایسا کرنا چین پر عدم اعتماد ہوگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اپنے طلبہ کو وہاں سے نکال رہے ہیں۔ بھارت نے کل ہی سوا تین سو طلبہ کو ایک خصوصی بوئنگ طیارہ بھیج کر واپس منگوایا ہے۔ ترکی، مصر، بنگلہ دیش، فلپائن حتیٰ کہ سوڈان جیسے غریب ملک نے بھی اپنے طلبہ کو وہاں سے نکلوانے کے انتظامات کئے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک تو پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں۔ دوسرا یہ کہ چینی حکومت ائیرپورٹ پر تمام طلبہ کی مکمل سکریننگ کرنے کے بعد ہی انہیں جانے کی اجازت دے رہی ہے۔ ائیر انڈیا کی فلائٹ میں چھ بھارتی طلبہ کو نہیں جانے دیا گیاکہ انہیں بخار تھا۔ احتیاط کے طور پر انہیں ہسپتال شفٹ کیا گیا۔ پھر ہر ملک اپنے طلبہ کو وطن بلوانے کے بعد چودہ دنوں کے لئے علیحدہ جگہ پر رکھتا ہے، اسے قرنطینہ میں رکھنا کہتے ہیں۔ چودہ دن اس لئے کہ کورونا وائرس دس دنوں سے چودہ دنوں میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ اگر چودہ دنوں میں کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوئی تو اس کا مطلب ہے کہ مریض کلیئر ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس کا کوئی ایسا علاج نہیں جوصرف چینی حکومت کر سکتی ہے اور پاکستانی ڈاکٹر نہیں کر سکیں گے۔ کورونا وائرس نے تو اپنے لائف سائیکل کے مطابق ہی ختم ہونا ہے، تب تک صرف پیشنٹ مینجمنٹ ہی ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی ڈاکٹر یا مناسب سا ہسپتال کر سکتا ہے۔ رہا سوال چین پر عدم اعتماد کا تو جو ممالک اپنے طلبہ کو واپس بلا رہے ہیں، وہ کیا چین پر عدم اعتماد کر رہے ہیں؟ ظاہرہے نہیں؟ وہ صرف اپنے طلبہ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں نفسیاتی اعتبار سے زیادہ محفوظ، پرسکون جگہ یعنی اپنے وطن میں رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ چینی حکومت یا کسی اور کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ ایک اور نکتہ اسلامی حوالے سے بیان کیا گیا کہ شرعی حکم یہی ہے کہ وبا کے علاقے سے باہر نہ نکلو، وہاں نہ جائو۔ یہ بات درست ہے، مگر یہ بھی یار رکھیں کہ جب حضرت ابو عبیدہ ؓ اپنے لشکر سمیت طاعون زدہ علاقے میں تھے توسیدنا عمرؓ نے انہیں خط لکھ کر مدینہ بلوانا چاہا۔ جناب ابو عبیدہؓ نے ایسا نہیں کیا، یہ ان کی عزیمت تھی، مگر خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے انہیں بلانے کی سعی کیوں کی؟ کیا وہ شرعی حکم سے واقف نہیں تھے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں تھا، مگر انہوں نے جلیل القدر صحابی رسولؓ کو اس مہلک بیماری سے بچانے کی کوشش کی۔ ویسے شرعی حکم میں جو حکمت ہے، وہ قابل فہم ہے۔ اس زمانے میں کوئی متاثرہ شخص اونٹوں پر سینکڑوں میل سفر کر کے کوئی کہیں پرجاتا تو ہر جگہ وائرس پھیلاتا جاتا۔ آج کے دور میں خصوصی جیٹ طیارہ پرمتاثرہ جگہ سے کسی کو محفوظ ماحول میں لا کر کسی علیحدہ محفوظ جگہ پر اتنے دنوں کے لئے مقید کرنا جس سے اس مرض کے دوسروں کو لگنے کے امکانات صفر ہوجائیں، یہ یقینی طور پر مختلف امر ہے اور شرعی احکامات سے متصادم نہیں۔ قارئین کے سامنے اس ایشو کے تمام پہلو رکھ دئیے ہیں، آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ہمیں پاکستانی طلبہ کو واپس بلوانا چاہیے، انہیں ہاسٹلز میں بے یارومددگار چھوڑ دینا ظلم ہے کیونکہ ان کے اردگرد کے تمام غیر ملکی طلبہ اپنے اپنے ممالک واپس جا چکے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو، ہمیں، آپ کو، سب لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ان کے اپنے بچے ووہان میں ہوتے تب کیا فیصلہ کرتے؟