کچھ عرصے کے لئے سیاسی کھیل روک دیں
سیلاب زدگان کے حوالے سے سامنے آنے والے فوٹیج، ویڈیوز اس قدر دل دہلادینے والی ہیں کہ دیکھنا محال ہوگیا۔ انہیں دیکھ کر نارمل رہنا ممکن ہی نہیں۔ اگلے روز کوہستان، کے پی میں پانچ دوستوں کی ایک پتھر پر کھڑے ہو کر سیلابی ریلے کے ساتھ لڑنے کی تصاویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
یہ نوجوان کئی گھنٹوں تک سیلابی ریلے سے لڑتے رہے، پھر آخر ہمت ہار بیٹھے۔ تصویر دیکھ کر آدمی یہی سوچتا ہے کہ کاش کسی طرح ان کو مدد پہنچ پاتی اور جانیں بچ جاتیں۔ اپنے آپ کو ان کی جگہ پر رکھ کر سوچنے کی کوشش کی تو چند ہی لمحوں میں سانس بند ہونے لگا۔ چاروں طرف قیامت خیز سیلابی ریلا، پانی ایک خوفناک آواز کے ساتھ اتنی قوت اور رفتار سے بہہ رہا تھا کہ رسیاں باندھنے کے باوجود پانی میں کودنے کی ہمت نہیں ہوسکتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے رسیاں ان تک پھینکی تھیں، مگر پانچ میں سے صرف ایک نے چھلانگ لگانے کی ہمت کی، وہ بچ بھی گیا، باقی چار مدد کے انتظار میں کئی گھنٹے تک پتھر پر کھڑے رہے کہ شائد کہیں سے کوئی مدد آجائے۔ شائد کسی طرف سے ہیلی کاپٹر ہی آ جائے۔ افسوس کچھ بھی نہ ہوسکا۔
ایسے خوفناک مناظر ہر طرف ہیں۔ دو تین دن سے کے پی میں ایسی تباہی آئی کہ سوات جیسا ہنستا مسکراتا خطہ کھنڈر بن گیا۔ چارسدہ کے قریب ڈیم ٹوٹنے سے جو تباہی آئی، اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ نوشہر ہ پر بارہ سال پہلے بھی قیامت ٹوٹی تھی، اس بار بھی تباہی کے ڈر سے انخلا جاری ہے۔ دوسری طرف دیہی سندھ میں تباہی مچی ہے، کئی اضلاع تباہ وبرباد ہوگئے ہیں۔ ایک خبر دیکھی کہ سانگھڑ میں کئی لاکھ ایکڑ زمین پر فصل تباہ ہوگئی، سندھ کے متعدد اضلاع میں یہی صورتحال ہے۔ بلوچستان میں خوفناک تباہی آئی ہے۔ بلوچستان سے خبریں ذرا تاخیر سے آتی ہیں، مین سٹریم میڈیا میں زیادہ کوریج بھی نہیں، اس بار پھر بلوچستان میں شدید نقصان ہوا۔
جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ تونسہ، ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے کچھ علاقے نشانہ بنے ہیں۔ تونسہ کے بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر ہیں، ان کی وجہ سے جلد آگہی بھی ہوئی اور سوشل میڈیا پر تونسہ کے متاثرین کے لئے کسی حد تک فنڈ ریزنگ بھی ہوئی۔ نقصان مگر بہت زیادہ ہوا ہے، ان اضلاع کے بیشتر دیہات سرے سے مٹ گئے ہیں۔ فاضل پور شہر ڈوبنے سے بہت نقصان ہوا۔
ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں بھی سخت نقصان ہوا۔ وہاں دوست بتا رہے تھے کہ تحصیل کلاچی اور پرووا میں بہت تباہی مچی۔ کئی گائوں تباہ ہوگئے۔ یہ دورافتادہ علاقہ ہے، اس کی خبریں تاخیر سے باہر آئیں، وہاں مدد کی شدید ضرورت ہے۔ عمران خان نے وہاں کا دورہ کیا ہے، امید کرنی چاہیے کہ وہاں کچھ بہتری آئے گی۔
اس سب میں مثبت ترین خبر فلاحی تنظیموں اور اہل خیر کا دل وجاں سے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے نکلنا ہے۔ الخدمت ملک کی سب سے بڑی چیریٹی تنظیم ہے، اس نے کمال ہی کر دیا۔ ملک بھر میں الخدمت کے آپریشنز چل رہے ہیں، سندھ، بلوچستان، کے پی اور جنوبی پنجاب ہر جگہ وہ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر مذہبی گروپ اور تنظیمیں بھی ایکٹو ہیں، کراچی سے مدارس کی بعض ٹیمیں تونسہ اور ڈی جی خان کے مختلف علاقوں میں مدد کے لئے پہنچی ہیں۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں سے والنٹیئرجنوبی پنجاب کے تباہ حال علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں، تنظیموں کی ایک طویل فہرست بن جائے گی، پھر بھی کئی نام رہ جائیں گے۔ اللہ ان سب کو اس کا اجر دے۔ ایسے مواقع پر ہی آدمی کے اصل کردار کا پتہ چلتا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ مذہبی لوگ، علما دین ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بڑے زور شور سے مدد کے لئے نکلے ہیں۔ ہر ایک کو ایسا کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر" ڈونیٹ اے برگر" کی اپیل چل رہی ہے۔ کسی بھی اچھی کمپنی کا برگر پانچ سات سو سے کم نہیں، اپیل یہی ہے کہ اس مہینے یا ویک اینڈ پر اپنا برگر، پیزا، کڑھائی کھانے کا پروگرام ترک کر کے وہ چند سویا ہزار دو ہزار روپے ہی کسی فلاحی تنظیم کے فنڈ میں دے دیں۔ بظاہر پانچ سو، ہزار معمولی رقم لگتی ہے، لیکن اگر دس ہزار لوگ ایسا کریں تو ملین میں رقم جمع ہوجاتی ہے۔
پریشان کن صورتحال یہ ہے کہ سیلاب کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ چارسدہ، نوشہرہ سے آنے والے سیلابی ریلے پنجاب پر دبائو بڑھائیں گے اور یوں خطرات پنجاب کے ساتھ سندھ کے لئے بڑھتے چلے جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ستمبر میں شدید بارشوں کا ایک سپیل اور آئے گا۔ اگر ایسا ہوا تو سنگینی مزید بڑھ جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیلاب کئی حوالوں سے بارہ سال پہلے 2010میں آنے والے سیلاب سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ اللہ رحم کرے۔ پچھلے چند ماہ سے قوم مسلسل آزمائشوں میں گھری ہے۔ پہلے شدید ترین مہنگائی، پھر شدید لوڈ شیڈنگ اور اب سیلاب کی آفت۔
دو تین باتیں سمجھنی چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیلاب کے خطرے سے نمٹنے کے حوالے سے پلاننگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر بار جب تباہی سر پر آتی ہے، تب ہم سب یہ سوال اٹھاتے ہیں۔ جب خطرہ ٹل جاتا ہے پھر وہ محکمے جن کا یہ کام ہے، وہ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ ڈیم بنائے جاتے ہیں نہ اربن فلڈ مینجمنٹ کی کوئی شکل۔ یوں ہر چند سال بعد پھر سے مصیبت قوم پر نازل ہوجاتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگرآج ہمیں اس پر بحث کرنے، تلخی بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ آج فائر فائٹنگ، آفت سے لڑنے کا دن ہے۔
اس وقت سب چیزیں چھوڑ کر ہمیں صرف اور صرف ایک ہی ایجنڈے پر فوکس کرنا چاہیے۔ سیلاب زدگان کی فوری مدد اور پھر سیلاب کا خطرہ ٹل جانے کے بعد ان کی بحالی۔ یہی وہ ایجنڈا ہے، جس پر پوری قوم اور حکومت و اپوزیشن کو کام کرنا چاہیے۔
عمران خان نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے نکلنے کے حوالے سے تساہل برتا، اس پر گزشتہ کالم اور اپنی سوشل میڈیاتحریروں میں مسلسل تنقید کرتا رہا۔ مجھے خان کے جہلم کے جلسہ سے بھی مایوسی ہوئی، یہ جلسہ منسوخ کر دینا چاہیے تھا، غالباً اس کی تیاری مکمل تھی اس لئے ایسا نہیں کیا گیا۔ تاہم جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان کا سیلاب زدگان کی مدد کے لئے نکلنے کا اعلان خوش آئند ہے اور ساتھ ہی متاثرین کے لئے ٹیلی تھون منعقد کرنا بھی اچھا ہے۔ اس میں عالمی نشریاتی ادارے بھی اگر شامل ہوں تو ان شااللہ باہر سے بھی فنڈز جمع ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی فنڈز کے حوالے سے کریڈیبلٹی ہے۔ اسے استعمال کرے اور متاثرین کی مدد کے لئے خود میکنزم بنائے تاکہ فنڈز ضائع نہ ہوں۔
یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ سیاست سے باز رہنے کا مطالبہ صرف عمران خان سے نہیں کرنا چاہیے، وفاقی حکومت بھی اپنے ڈرٹی ٹرکس سے باز آئے۔ اگر عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات چلتے رہیں گے، حکومتی مشینری ان کے خلاف استعمال ہو، بنی گالہ سرچ کے لئے درخواست دی جائے، دبائو بڑھانے کے تمام حربے استعمال ہوں تو یہ بھی نہایت مایوس کن رویہ اور ڈرٹی پالیٹکس ہے۔
حکومت بھی اپنا ہاتھ روکے، سیاسی سپیس دے۔ پیمرا چینلز پر سے پابندی ختم کرے۔ جو چینلز آف ہیں، انہیں بھی نشریات جاری رکھنے دے تاکہ سیلاب متاثرین کے لئے سب مل کر ٹیلی تھون کر سکیں۔ ہم عدلیہ کو براہ راست کوئی مشورہ نہیں دے سکتے۔ اپنا کام وہ بہتر جانتے ہیں، تاہم اگر سیاسی کیسز میں دو ماہ کا التوا ہوجائے تو یہ ملک وقوم کے لئے اس وقت بہتر ہوگا۔
اصولی نکتہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی سیاست روکیں اور تمام تر قوت سیلاب زدگان کے لئے وقف کریں۔ یہ مطالبہ ہی درحقیقت پوری اور مکمل بات ہے۔ اگر صرف عمران خان کو نشانہ بنانا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ اگر صرف حکومت کو نشانہ بنانا ہے تو وہ بھی بیکار ہے۔ ہم سب اپنی سیاسی خواہشات اور منتقم مزاجی پر قابو پائیں۔ سوشل میڈیا پر مثبت ٹرینڈ چلائے جائیں، سیلاب زدگان کی مدد کے لئے۔ یہی ہمارا انسانی، اخلاقی، مذہبی فرض ہے۔