اس بار تو انصاف ملنا چاہیے
چند ماہ پہلے والدہ محترمہ شدید علیل ہوئیں اور ایک ہفتے تک ایک نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں رہیں۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں تھیں اور مسلسل آکسیجن لگی رہی۔ یہ سات روز ہم دونوں بھائیوں کے لئے زندگی کے شائد سب سے کٹھن دن تھے۔ آئی سی یو (انتہائی نگہداشت وارڈ) کا اپنا ایک میڈیکل پروٹوکول ہوتا ہے، وہاں مریض کے اٹینڈنٹ کو بھی ٹھیرنے کی اجازت نہیں۔ بار بار ہم بھائی جاتے اور غشی کی حالت میں سوئی والدہ کو پرامید نظروں سے تکتے رہتے۔ اس امید پر کہ شائد ابھی کوئی معجزہ ہوجائے اور وہ آنکھیں کھول دیں۔ بیڈ کے سرہانے لگے مانیٹر کو ہم مسلسل چیک کرتے کہ بلڈ پریشر اوردل کی دھڑکن کتنا ہے؟ ایک دو بار دھڑکنیں سست ہوئیں یا بلڈ پریشر کم ہونے لگا تو فوراًہسپتال کے مستعد عملے کی توجہ ادھر دلائی جاتی، جو پہلے ہی ان تمام چیزوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ فوری طور پر اپنے سسٹم کے مطابق چیزیں بیلنس کر دیتے۔
سات دن گزرنے کے بعد والدہ صاحبہ ستائیس رمضان کی صبح دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ہم ابھی تک شدید صدمے میں ہیں، گاہے لگتا ہے کہ خواب کی کیفیت ہے اور ابھی امی کی آواز آئے گی:" عامر!آ کر میری بات سن جائو۔"یہ اطمینان مگر ہوتا ہے کہ جس حد تک کوشش کی جا سکتی تھی، وہ کی گئی۔ طبی حوالوں سے جو بہترین نگہداشت ممکن تھی، وہ الحمدللہ ہم کر پائے۔ باقی اللہ کا فیصلہ ہے، اسے قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ گزشتہ روز میں یہ سوچ رہا تھا کہ خدانخواستہ امی جس حالت میں تھیں، اس وقت اگرکوئی احتجاج کرنے والا وحشی جتھا ہسپتال میں گھس آتا۔ توڑ پھوڑ کرتا، آئی سی یو کا تمام سسٹم درہم برہم کر دیتا، مانیٹر توڑ دیتا، آکسیجن پائپ اتار دیتا تو ہمارے اوپر کیا گزرتی؟اگر اس قیامت کا نشانہ ہماری والدہ بن جاتیں تو کیا ہم زندگی بھر اس آفت کو بھول پاتے؟ یہی سوچتے رہتے کہ اگر یہ لوگ نہ حملہ کرتے تو شائد ہماری ماں بچ جاتیں۔ ان کو مسلسل آکسیجن ملتی رہتی، سسٹم چلتا رہتا تو ممکن ہے ایک آدھ دن میں کوئی معجزہ ہوجاتا۔ قدرت کا فیصلہ ہم اس لئے جھیل پائے کہ اپنی سی تمام کوششیں کر ڈالی تھیں۔ جانے والے نے جانا تھا، اس لئے کامیاب نہ ہوسکے۔ اگر خدانخواستہ کوئی ہجوم حملہ آور ہوتا اور ہنگامہ آرائی میں جان چلی جاتی تو پھر وہ فطری، طبعی موت نہ ہوتی۔ وہ پھر قتل ہوتا، وحشیانہ، سفاکانہ قتل۔ قتل کا زخم زیادہ گہرا اور روح تک کو گھائل کردینے والا ہوتا ہے۔ اللہ ہر ایک پر رحم فرمائے، ان کے پیاروں کو اپنی امان میں رکھے۔ بدھ کے روز لاہور کے کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں وکیلوں کے خوفناک احتجاجی حملے کے نتیجے میں مرنے والے مریض بھی قتل ہوئے ہیں۔ ان کے قتل کی ذمہ داری حملہ آوروکیلوں پر عائد ہوتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ان وکیلوں کو دنیاوی عدالت ہی میں قرار واقعی سزا دی جائے۔ اگر خدانخواستہ یہ عدالتیں، جج صاحبان انصاف نہیں کرتے، تب بھی ہر ایک کو یقین رکھنا چاہیے کہ روز آخر جب اس عظیم ترین بادشاہ کی حکمرانی ہوگی، جو واحد بھی ہے، قاہر بھی، جبار بھی اور بہترین انصاف کرنے والا بھی۔ تب ان قاتلوں کو اپنے جرم کی سزا ضرور ملے گی، مگر تب ان تمام کو بھی سزا ملے گی جو ایسے وحشی قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا پائے۔ اس واقعے کا تجزیہ کیا جائے توتین چار پہلو اہم نظر آتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ وکیلوں نے سخت زیادتی، ظلم اور قانون شکنی کی۔ انہیں ہسپتال پر حملہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ وکیلوں کی اس درندگی، وحشت اور سنگدلی کی کھل کر، واضح الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تاویل کو قطعاً قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اسکا دفاع کرنے والوں کے موقف کو سختی سے رد کرنا چاہیے۔
پولیس اور انتظامیہ کی بدترین غفلت اور نالائقی سامنے آئی۔ پولیس کو معلوم تھا کہ احتجاج ہونے والا ہے۔ کئی سو وکلا ایوان عدل سے پی آئی سی کے گیٹ تک پہنچے، مگرپولیس انہیں روکنے کے لئے حرکت میں نہیں آئی۔ لاہور پولیس کے اعلیٰ افسروں کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پولیس نے مظاہرین کو روکا۔ اگر پولیس مستعد ہوتی تووکیل ہسپتال میں گھس ہی نہ سکتے۔ وکیلوں کا ہسپتال جا کر توڑ پھوڑ کرنا ہی پولیس کی نااہلی اور غفلت کو ثابت کرتا ہے۔ لاہور پولیس مکمل طور پر ناکام ہوئی، اس کے ذمہ دار افسروں کو سزا ملنی چاہیے۔ ایک بار پھر نظر آیا کہ پنجاب میں کوئی مضبوط ایڈمنسٹریٹر موجود نہیں۔ اتنا کمزور وزیراعلیٰ ہو گا تو پولیس اور انتظامیہ ایسے ہی کام کرے گی۔ افسوس کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود نظر نہیں آ رہا۔
یہ اپنی جگہ درست ہے کہ پی آئی سی کے ڈاکٹرکی جو ویڈیو وائرل ہوئی، وہ بھی غلط اور نامناسب تھی۔ ینگ ڈاکٹرز کا دعویٰ ہے کہ یہ ویڈیوپرانی ہے اور وہ اس کی معذرت کر چکے ہیں۔ ویڈیو پرانی تھی یا نئی، اس میں وہ ڈاکٹر اپنے جرم کا اعتراف کر رہا ہے۔ وہ مزے لے لے کر بتا رہا ہے کہ کس طرح انہوں نے وکیلوں کی پٹائی کی تھی، اس فضول لن ترانی کو دیگر ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹرز اور نرسیں نہ صرف سن رہی ہیں بلکہ تالیاں بجا کر داد دے رہی ہیں۔ اس ویڈیو ہی کو ڈاکٹر کے خلاف ثبوت قرار دے کر اسے گرفتار کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بات واضح رہے کہ یہ یا اس قسم کی کوئی اور ویڈیو وکیلوں کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ ہسپتال پر حملہ کر کے تباہی پھیلائیں اور مریضوں کا قتل کریں۔
اس ضمن میں نہایت افسوسناک رویہ بارکونسلوں کا ہے۔ یہ اب پوری طرح آشکار ہوچکا کہ بار کونسل اپنے وکیلوں کا ہر صورت میں دفاع کریں گی، خواہ وہ بدمعاشی کریں، قتل وغارت یا کسی بھی نوعیت کی تباہی پھیلائیں۔ بارکونسلیں وکلا سیاست کی وجہ سے ووٹوں کی محتاج ہیں۔ وکلا کمیونٹی میں ہر سال چار پانچ الیکشن ہوتے ہیں۔ تحصیل بار، ڈسٹرکٹ بار، ہائی کورٹ بار، پنجاب بارکونسل، سپریم کورٹ باروغیرہ کے الیکشن۔ وکلا کے دھڑے اور گروپ ہیں۔ ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ وکلا لیڈر اسی لئے کبھی اپنے ووٹروں کو ناراض نہیں کرتے۔ ان کے ہر غلط، ناجائز کام کی تائید کرتے ہیں۔ اس لئے یہ خیال ہی ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ غلط، ناجائز کام کرنے والے وکیلوں کا احتساب بارکونسل کرے گی۔ نہیں۔ یہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔ ایسے ہزاروں لوگ وکیل کے طور پر کام کر رہے ہیں، جن کے پاس لاء کی جعلی ڈگریاں ہیں، جوکوئی اور کام یا ملازمت کرتے ہیں اور قوانین کے تحت وکیل نہیں بن سکتے۔ ایسے لوگ صرف ووٹ ڈالنے عدالت جاتے ہیں، البتہ وکیل ہونے کا استحقاق وہ سال بھر استعمال کرتے ہیں۔ جب کہیں ضرورت پڑی کالا کوٹ پہن کر چلے گئے۔ کوئی گڑ بڑ ہوئی تو فون کر بہت سے وکیل دوستوں کو بلوا لیا۔ اسی طرح مافیاز کا کام چلتا ہے اور بدقسمتی سے یہ جتھے دار وکیل بھی ایک طرح کا مافیا بن چکے ہیں۔
وکیلوں میں بے شمار اچھے، شریف، بھلے مانس لوگ ہیں۔ بار کونسل کی سیاست کی وجہ سے یہ مجبور اور بے بس ہیں۔ اچھے وکیلوں کے پاس اتنا کام ہے کہ انہیں بار کی سیاست کی فرصت نہیں۔ ایسے لڑنے جھگڑنے والے وکیلوں کو ناپسند کرنے کے باوجود چونکہ وکلا لیڈر اور دھڑے ان کے حامی ہیں، اس لئے اچھے وکیل بے بس ہیں۔ وکلا کے احتساب کی ذمہ داری حکومت کو لینا ہوگی۔ اس کے لئے قانون سازی کی جائے۔ وکیلوں کا لائسنس معطل کرنا بارکونسل کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے۔ اس طرح تو کبھی کسی وکیل کا لائسنس معطل نہیں ہوسکے گا، خواہ وہ جج پر جوتا پھینکے، عدالت میں ہنگامہ کرے یا ہسپتال پر حملہ آور ہو۔ یہ کام کسی حکومتی ریگولیٹری باڈی کے پاس ہونا چاہیے جو وکلا سیاست کے دبائو سے بے نیاز ہو کر فیصلہ کر سکے۔
افسوس کہ عدلیہ نے بھی وکلا کے ان منفی رجحانات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ افسوس کہ چیف جسٹس صاحبان نے ان وکلا کے ساتھ نرم رویہ رکھا، جنہوں نے ماتحت عدلیہ میں ہنگامہ آرائی کی، بدتمیزی کی اور ججوں کو تنگ کیا۔ ملتان بار والا معاملہ زیادہ پرانا نہیں جب وہاں کے وکیلوں نے ہائی کورٹ کے ججوں کی توہین کی بدترین مثال قائم کی۔ جسٹس منصور علی شاہ اس وقت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تھے، انہوں نے کمال جرات سے اس پر سٹینڈ لیااورڈٹے رہے۔ افسوس کہ تب چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار تھے، انہوں نے پاپولربننے کے چکر میں ان وکیلوں کو سزا ملنے سے بچایا۔ لاہور میں ہسپتال پر کبھی حملہ نہ ہوتا، اگر ملتان بار کے وکیلوں کو اپنے کئے کی سزا ملتی۔ لاہور کے وکیلوں نے ایسا اس لئے کیا کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے، کوئی سزا دینے والا نہیں۔ جانتے ہیں کہ چاہے جو کچھ کر ڈالیں، ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔
لاہور میں وکلا گردی ایک بار پھر ہمارے پورے سسٹم کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔ ان وکیلوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ یہ پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ سب کی ذمہ داری ہے۔ میڈیا نے اپنا کام اچھے طریقے سے نبھایا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر کے عوام کو دکھا دیا۔ سول سوسائٹی کو بھی کھڑا ہونا چاہیے۔ اس ایشو کو سیاسی بھی نہ بنایا جائے۔ کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں مرنے والے مریضوں کو انصاف ملنا چاہیے۔ ان کا قتل ہوا، قاتلوں کو سخت ترین سزا دی جائے۔ صرف اسی ایک نکتہ پر پوری جدوجہد استوار کرنی چاہیے۔