حقائق بدلنے کی کوشش نہ کریں
ہمارے ہاں دوتین قسم کے رجحانات عام ہو رہے ہیں، کسی بے بنیاد اور غلط تھیوری کوایسے زور شور کے ساتھ پھیلانا کہ کچھ عرصے بعد لوگ اسے سچ ماننے لگیں بلکہ ان کی حیثیت عالمگیر سچ کی ہوجائے۔ دوسرا ہر وقت اپنی قوم پر لعنت ملامت کے تیر برساتے رہنا۔ تیسرا اپنی پسند کے موقف کو ترویج دینا اور تصویر کے دوسرے رخ کوسامنے نہ آنے دینا۔ مختلف طبقات اپنی اپنی وجوہات کی بنا پریہ ایسا کرتے ہیں۔ کسی پر سیاسی تعصبات غالب آجاتے ہیں، لیڈر کی محبت منفی پہلوئوں کی طرف دیکھنے کی توفیق نہیں دیتی۔ بعض لوگ بوجوہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اپنا چکے، وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے فوج کے خلاف کوئی تھیوری چلا دییتے ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کے معاملات میں دانستہ بھولے بن کرعجیب سا سوال اٹھا دیں گے یا پھر طے شدہ آئینی امور کو چھیڑنے کے درپے ہوں گے۔ مزے کی بات ہے کہ انہیں چند سال پہلے کی اٹھارویں ترمیم کے تقدس کا اتنا خیال ہے کہ اسے بدلنے کی خواہش حرام اور ناجائز تصور کرتے ہیں جبکہ ستر برس پہلے اسمبلی سے منظور کی گئی قرارداد مقاصد جسے بعد کی تمام دستور ساز اسمبلیوں نے برقرار رکھا اور اس کی اہمیت کا اعتراف کیا، اسے یہ فوری طور پر آئین سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں۔ ایک اور طبقہ ایسا ہے جو فوجی ڈکٹیٹروں کے مخالف ہونے کی وجہ سے ان پر تنقید کرتارہتا ہے۔ اس تنقید کا انہیں اصولی حق حاصل ہے کیونکہ فوجی آمر بنیادی طور پر غاصب تھے اور آئینی طریقہ سے اقتدار میں نہیں آئے۔ ایسا کرتے ہوئے مگر حقائق مسخ نہیں کرنے چاہئیں۔ حقائق تبدیل کرنے کی کوشش ایسے ہے جیسے کوئی شاطر چور ٹیکنالوجی کی مدد سے قوم کے حافظے سے کچھ باتیں چرا لے۔ دماغ کی یاداشتوں میں سے بعض فائلیں ڈیلیٹ ہوجائیں اور ان کی جگہ غلط، فرضی تاریخ کی فائلیں ڈال دی جائیں۔ یہ کوشش مذموم کہلائے گی۔
پچھلے پانچ سات دنوں میں دو حوالوں سے یہ کوششیں ہوئی۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصا کچھ لکھا گیا۔ اتنی بڑی شخصیت کا حق بنتا تھا کہ انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا، مگر بعض حلقوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ مادر ملت کو قومی سطح پر غدار قرار دیا گیا تھا۔ ایک سینئر اخبار نویس کی تحریروں میں مسلسل اس قسم کے اشارے ملتے ہیں۔ وقت کے الٹ پھیر نے انہیں سخت گیر قسم کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنا دیا، اب وہ دنیا جہاں کی ہر خرابی اپنے ناپسندیدہ ڈکٹیٹروں میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ تاریخ کا مسئلہ یہ ہے کہ صرف تمنائوں اور خواہشات سے تبدیل نہیں ہوسکتی۔ انہی صاحب نے چند سال پہلے یہ شگوفہ چھوڑا کہ پاکستان کا پہلا ترانہ کچھ اور تھا جو ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتا رہا، مگرشاعرکی محض ہندو ہونے کے ناتے حوصلہ شکنی کی گئی، اس کے ترانے کو رد کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس موضوع پر ممتاز محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے بڑی وضاحت اور ٹھوس شواہد کے ساتھ لکھا اور اس بے بنیاد تھیوری کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کو زندگی دے، ان کا وجود غنیمت ہے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے بہت سی گتھیاں انہوں نے اپنی تحریروں سے سلجھائی ہیں، وہ ہم جیسوں کے لئے رہنمائی کا باعث ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، ایسا کہیں نہیں ملا کہ ایوب خان حکومت نے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا ہو، ریاستی سطح پر ایسا موقف اختیار کیا گیا یا ان کے خلاف اس بنیاد پر کوئی مقدمہ وغیرہ درج ہوا۔ سوشل میڈیا پر ایک الیکشن پوسٹر کی تصویر ضرور دیکھنے کو ملی، بظاہر یہ کسی بی ڈی ممبر کی الیکشن کمپین کا پوسٹر تھا، جس میں مادر ملت پر تنقید کی گئی کہ وہ ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار بنی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایوب خان فوجی آمر تھے، انہوں نے اقتدار پر ناجائز طریقے سے قبضہ کیا اور پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش بھی کی۔ ان میں کچھ شخصی محاسن تھے اور کچھ خامیاں۔ ان کے دور حکومت میں کچھ اچھے کام ہوئے اور کئی ایسی غلطیاں بھی ہوئیں، جن کا خمیازہ ہمیں بطور قوم بھگتنا پڑا۔ میں ایوب خان کی بعض اچھی چیزوں کا قائل ہوں، مگر مجموعی طور پر ان کا مداح ہرگز نہیں۔ وہ فوجی آمر تھے اور مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف ان کی انتخابی کامیابی مشکوک اور متنازع تھی۔ مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کو کسی بھی اعتبار سے ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
یہ کہنابہرحال غلط ہے کہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو قومی غدار دے کر دیوار سے لگایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں تو ایوب خان حکومت کے وزرا کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ مادر ملت جیسی شخصیت پر کیا تنقید کریں۔ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ مادر ملت بزرگ ہیں، انہیں گورننس کا تجربہ نہیں ہے، حزب اختلاف کے لیڈروں کے زیراثر آگئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایوب خان کی گورنر ہائوس لاہور میں ایک پریس کانفرنس کا حوالہ ملتا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ مادر ملت ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار بن رہی ہیں۔ ان ملک دشمن قوتوں سے ایوب خان کی مراد عبدالغفار خان، ولی خان وغیرہ تھے۔ اس پریس کانفرنس میں ایوب نے مولانا مودودی کو بھی ملک دشمن ایجنڈے کا حامل قرار دیا اور چودھری محمد علی پر بھی خوب گرجے برسے۔ ایوب خان کی یہ سب باتیں غلط تھیں، ایک اوچھا انتخابی وار۔ بات بس اتنی ہے، قومی سطح پر غدار قرار دینے کی جرات کون کر سکتا تھا؟ ویسے نوجوان قارئین کے لئے یہ بات دلچسپ ہوگی کہ جماعت اسلامی نے کھل کر ایوب خان کی مخالفت کی اور مادر ملت کا ساتھ دیاجبکہ جمیعت علمائے اسلام کے علما کرام نے ایوب کی حمایت اور مادر ملت کی مخالفت کی، بعض نامور علمانے فتوے بھی دئیے کہ خاتون کا حکمران بننا شرعاً ناجائز ہے۔ ، دوسرا یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کھل کر ایوب خان کی حمایت کی، ان کے حق میں جلسے کئے اور مادر ملت پر خوب تنقید کے تیر چلائے۔
پچھلے چند دنوں میں پانچ جولائی کا دن بھی گزرا، جب جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ بھٹو صاحب کے مداحین آج انہیں مقدس شخصیت قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے، ورنہ یہ جیالے بھٹوصاحب کو سینٹ کا درجہ دلوا کر ہی دم لیتے۔ درست بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا، مگر بھٹو منتخب وزیراعظم نہیں ایک متنازع اور جعلی مینڈیٹ والے وزیراعظم تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 1977ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی، الیکشن کے پہلے مرحلے ہی میں بھٹو صاحب اور ان کے چاروں وزراعلیٰ اپنے مخالف امیدواروں کو بلڈوز کر کے بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ بھٹو صاحب نے لاڑکانہ سے پی این اے کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرایا اور کاغذات نامزدگی ہی داخل نہیں ہونے دئیے۔ اس زمانے میں لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد احمد کھرل تھے، یہ کارنامہ ان کے ذمے جاتا ہے۔ عام انتخابات میں بھی کھل کر دھاندلی کی گئی۔ اس پر پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ بھٹو صاحب نے کچھ نشستوں پر دوبارہ الیکشن کرانے کی بات تسلیم کر لی، مگر وہ مکمل الیکشن دوبارہ نہیں کرانا چاہتے تھے۔ حکومت اور پی این اے کی ٹیم کے مابین مذاکرات غیر ضروری طور پر طول کھینچ گئے، اس میں بھٹوصاحب کا قصور تھا جو دانستہ مذاکرات ادھورے چھوڑ کر ہفتوں پر محیط غیر ملکی دورے پر چلے گئے، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
احتجاجی تحریک میں ملک بھر میں ہنگامے ہوئے، مساجد میں گولیاں چلیں، ریگل چوک والی مسجد شہدا کا لہو رنگ قصہ کون سا لاہوری ہے جو بھولے گا۔ ہمارے شہر احمد پورشرقیہ کی جامع مسجد میں بھی گولیاں چلیں اور نمازی شہید ہوئے۔ حالات یہ ہوگئے کہ لاہور، پنڈی جیسے شہروں میں فوجی جوان اور افسروں نے نہتے احتجاجی عوام پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا، بریگیڈئر کی سطح کے تین افسروں نے کورٹ مارشل کرانا منظور کر لیا، مگرعوام کا خون بہانے سے انکار کر دیا۔ ڈیڈ لاک اس قدر شدید ہوگیا تھاکہ کوئی اور راستہ بچا ہی نہیں۔ اسی لئے فوج کی جانب سے مارشل لا لگانے کی ہر ایک نے پزیرائی کی۔ تمام اپوزیشن رہنمائوں نے اس کا خیرمقدم کیا، عوامی سطح پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ پی این اے کے بعض لیڈروں نے دو تین برس بعد یہ دعویٰ کیا کہ چار اور پانچ جولائی کی رات حکومت، پی این اے میں معاہدہ ہوگیا تھا، مگر جنرل ضیا نے مارشل لا لگا دیا۔ یہ دعویٰ غلط اور واقعاتی شواہد کے اعتبار سے درست نہیں۔ اگر ایسا تھا تو یہ محترم لیڈران دو تین برسوں تک خاموش کیوں رہے؟ یہ بات مارشل لا کے بعد کیوں نہیں کہی گئی؟ پانچ جولائی کے بعد کے مہینوں کے اخبارات دیکھے جا سکتے ہیں، ایسی کوئی بات موجود نہیں۔
یہ ایک الگ کہانی ہے کہ جنرل ضیا نے اپنا اقتدار کو طول کرنے کی خاطر ہر ممکن حربہ اپنایا، جعلی ریفرنڈم سے غیر جماعتی انتخابات تک سب کچھ کیا گیا۔ جنرل ضیا کے دور کی اپنی خامیاں ہیں، پہاڑ جیسی بڑی خامیاں، ان پر بات ہونی چاہیے، مگر پانچ جولائی ہونے میں بھٹو صاحب کا بھی حصہ ہے۔ بھٹو صاحب نے ظلم اور جبر کی انتہا کر دی تھی۔ اگر وہ دوبارہ الیکشن کرانے پر رضامند ہوجاتے تو جمہوریت ڈی ریل نہ ہوتی۔ جنرل ضیا اگر مجرم ہے تو بھٹو صاحب کا جرم بھی کم نہیں۔ بات مکمل ہونی چاہیے۔