ہجو: جریراور فرزدق
عربی شاعری کی طنزیہ اور مخالفین کو ہدف بنا کر ان کا تمسخر اڑانے والی صنف ہَجو (Hajv)پر بات ہو رہی۔ پچھلی نشست میں ذکر کیا کہ عرب ہجویہ شاعر ی کے تین سب سے بڑے نام اخطل، فرزدق اور جریر ہیں۔ اخطل مسیحی تھا، جریر اور فرزدق سے عمر میں بڑا۔ یزید بن معاویہ اور عبدالملک بن مروان نے اخطل کو خوب پزیرائی دی۔ کہا جاتا ہے کہ یزید نے اخطل سے انصار کے خلاف ہجو لکھوائیں۔ عبدالملک بن مروان نے اخطل کو مضری قبائل اور ان کے شعرا کے خلاف استعمال کیا، کیونکہ وہ عبدالملک کے سب سے بڑے مخالف ابن زبیرؓ کے حامی ہو چکے تھے۔
اخطل اور جریر کے مابین ہجو کا مقابلہ بھی کچھ عرصہ چلا۔ ہوا یہ کہ خلیفہ کے دربار میں اخطل سے پوچھا گیا کہ جریر اور فرزدق میں سے کون بڑا شاعر ہے۔ اخطل نے محتاط انداز میں تبصرہ کیا، "فرزدق پتھر تراش کر مضمون باندھتا ہے اور جریر چشمے سے چلو بھر کے پانی پیتا ہے۔ " جریر نے یہ سنا تو اسے برا لگا، اسے محسوس ہوا کہ اخطل نے فرزدق کی سائیڈ لی ہے۔ جریر نے ایک ہجو اخطل کے خلاف کہہ ڈالی، جس کا ایک شعر ہے، "اے غبی انسان امیر بشر نے فیصلہ کیا ہے کہ نشہ کرنے والے کے لئے کوئی حکم لگانا جائز نہیں۔ "یوں دونوں میں مقابلہ شروع ہوا۔ اخطل نے بھی ہجو کہی، جس کا جواب جریر نے دیا۔
اخطل کی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے لئے کہی مدحیہ شاعری بہت مشہور ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی میں گندھی یہ شاعری پڑھ کر جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہنر ہر دور میں اہم رہا ہے، وہاں آج کل کے ٹاک شوز میں اپنے پارٹی لیڈروں کی خوشامد میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے صف اول، صف دوم کے سیاسی لیڈر یاد آجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے عرب شاعروں اور ان کے قصیدوں کو نہیں پڑھا ہوگا۔ انہیں اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ جاہلی ادب میں نابغہ ذبیانی نے کیسے شاندار مدحیہ قصائد کہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی جدید نسل کے پاس مگریہ "غیر معمولی ہنر "پہلے ہی سے موجود ہے، ان ٹاک شوزنے صرف اسے تراش کر چمکا دیا۔
اخطل اپنے ایک مشہور مدحیہ قصیدے میں لکھتا ہے:
"میری جان امیرالمومنین پر فدا ہو، وہ قریش کے اونچے شجر سے ہیں
جس کے گرد لوگ جمع رہتے ہیں، وہ کسی جنگ میں ہو تو قسمت ساتھ دیتی ہے
اللہ کا ایسا خلیفہ جس کے وسیلے سے لوگ بارش کی دعا مانگتے ہیں
حق کی پکار پر جمع ہونے والا، فحش باتوں سے نفرت کرنے والا، مصیبت میں صبر کرنے والا
دشمنی میں بہت تند خو حتیٰ کہ ان کی اطاعت کر لی جائے، پھر وہ بہت بردبار ہیں"
فرزدق نے بھی مدحیہ شاعری کہی، مگر اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اموی بادشاہوں کی ناراضی کی پروا کئے بغیر اس نے آل رسول ﷺ جناب امام زین العابدینؒکے حق میں مدحیہ اشعار کہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار ولی عہد ہشام بن عبدالملک نے دیگر سرداروں کے ساتھ حج کیا، خانہ کعبہ میں اس قدر رش تھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ نہ دے سکا۔ اتنے میں سیدنا امام زین العابدینؒ (علی بن حسین)تشریف لائے، لوگ فرزند اہل بیت کو دیکھ کرازخود ہٹتے اور جگہ دیتے گئے۔ جناب امام نے حجر اسود کا بوسہ لے لیا۔ ہشام کھڑا یہ یہ سب دیکھ رہا تھا، کھسیانا ہو کر اس نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں، میں تو نہیں جانتا۔
روایت ہے کہ فرزدق اس موقعہ پر موجود تھا، اس سے رہا نہ گیا، اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ کون ہیں۔ اس کے بعد اس نے فی البدیہہ چند مدحیہ اشعار کہے جسے سن کر ہشام مزید شرمندہ ہوا۔ فرزدق نے کہاـ:
"یہ وہ ہیں کہ مکہ کی وادی ان کے قدم پہچانتی ہے، بیت اللہ اور حدود حرم کے باہر کا علاقہ ان سے شناسا ہے
یہ بندگان خدا میں سے بہترین کی اولاد ہیں، یہ متقی، برگزیدہ، پاک اور ممتاز ومعروف شخص ہیں
تمہارا یہ کہنا کہ یہ کون ہیں؟ انہیں نقصان نہیں پہچانتا کیونکہ پورا عرب وعجم ان سے واقف ہے
یہ حیا سے آنکھیں بچاتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت سے نظریں جھکا لیتے ہیں، یہ مسکرائیں تو بات ہوپاتی ہے
یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی محبت دین ہے، جن سے بغض کفر اور جن کا قرب پناہ کی جگہ ہے
اہل تقویٰ کی بات کرو تو یہ ان کے امام ہیں، کہا جائے کہ اہل زمیں میں سب سے بہتر کون تو وہ" یہی "ہیں"
کہتے کہ جب امام زین العابدینؒ تک یہ اشعار پہنچے تو انہوں نے فرزدق کو ہدیہ بھیجا، اس نے شکریہ کے ساتھ واپس کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ پہلی بار کچھ ایسا کہا ہے جو توشہ آخرت بن سکتا ہے، اس لئے یہ ہدیہ واپس لے لیں۔ جناب امام نے جوابی پیغام بھیجا کہ جب ہم اہل بیت کسی کو تحفہ دیں تو واپس نہیں لیا کرتے۔ بدقسمتی سے ان اشعار کی پاداش میں فرزدق کو جیل جانا پڑا تھا۔
جریر کی ہجو تو مشہور ہے ہی، مگر دیگر موضوعات پر بھی اس کے اشعار عربوں میں ضرب المثل کی طرح سمجھے جاتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ عربوں نے غزلیہ شاعری میں جو سب سے اچھا شعر ہے وہ جریر کا ہیـ ـ:
"ان سرمہ لگی آنکھوں نے ہمیں مار ڈالا، اور پھر ان مارے ہوئوں کو زندہ بھی نہ کیا
اچھے بھلے سمجھدار کو یوں مار گراتی ہیں کہ وہ ہل بھی نہیں پاتا، حالانکہ اللہ کی کمزور مخلوق ہیں"
اسی طرح مدح یعنی تعریف میں جریر کا یہ شعر مثالی سمجھا جاتا ہے جو عبدالملک بن مروان کی شان میں کہا:
"کیا آپ ان سب سے بہتر نہیں ہیں، جو کبھی سواریوں پر بیٹھے
اور آپ کی ہتھیلیاں کل عالم سے زیادہ کشادہ اورسخی نہیں ہیں"
فخر کی شاعری میں جریر کا یہ شعر نمونے کے طور پر سنایا جاتا تھا:
"جب بنو تمیم تم سے ناراض ہوجائیں تویوں لگے گا جیسے سب لوگ تم سے ناراض ہوگئے "
کہا جاتا ہے کہ سب سے سچا شعر جو عربوں نے کہا، وہ جریر نے کہا تھا:
"میں آپ سے فوری بھلائی کی امید چاہتا ہوں
انسان ہمیشہ فوری چیز کی خواہش کا اسیر ہوتا ہے"
ہجو میں جریر کا ایک شعر ایسا ہے کہ اس نے ایک پورے قبیلے کو اپنا منہ چھپانے اور گمنام ہونے پر مجبور کر دیا ـ:
نگاہیں نیچی کر لے کہ تو بنو نمیر کے قبیلے سے ہے
نہ تو قبیلہ کعب کے مقام کو پہنچ سکا نہ کلاب کو
اس کی تفصیل دلچسپ ہے، قبیلہ بنو نمیر کے ایک شاعر راعی الابل نے جریر کے مقابلے میں فرزدق کی تعریف کر دی حالانکہ جریر ان کے قبیلے کی مدح میں شعر کہہ چکا تھا جبکہ فرزدق نے ان کے خلاف شعر کہے تھے۔ جریر اس بات کا شکوہ کرنے راعی کے گھر گیا تو وہ اور اس کابیٹا جندل بڑی رکھائی کے ساتھ پیش آیا۔ جریر کو بڑی تکلیف ہوئی۔ اس نے فقرہ کہا کہ اے جندل تمہارا قبیلہ تمہارے بارے میں کیا کہے گا جب میرا زہریلا تیر تیرے باپ کے جسم کے پار ہوگا۔
غصے سے بھرا جریر واپس آیا، اپنے بیٹے کو اس نے کہا کہ آج چراغ میں تیل کچھ زیادہ ڈال دینا اور کھجور کی شراب بھی میرے لئے رکھ دینا۔ رات بھر وہ مصروف سخن رہا، آخر نماز فجر تک اس نے اسی(80) شعروں پر مشتمل ایک بڑی کاٹ دار، زہریلی ہجو لکھ ڈالی۔ نظم ختم کی تو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ صبح جریر وہ نظم لے کر سوق مربد آگیا جہاں یہ سب بیٹھا کرتے تھے۔ راعی وہاں موجود تھا اور فرزدق بھی۔ جریر نے راعی کو سلام بھی نہ کیا اور بلند آواز سے اپنی نظم پڑھنے لگ گیا۔
جریر پڑھتا جائے اور راعی اور فرزدق پریشانی اور تشویش سے اسے دیکھ رہے تھے۔ حتیٰ کہ جریر نے وہ مشہور شعر کہا جس کا اوپر ذکر کیا ہے، پس نگاہیں نیچی کر کہ تو قبیلہ نمیر سے ہے،۔ اس پر راعی وہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ زینیں کسو اور جلدی سے چلتے بنو، جریر نے تمہیں ذلیل کر دیا ہے۔ کچھ عرصے بعد راعی واپس اپنے قبیلے بنو نمیر گیا تو سب نے اسی لعنت ملامت کی کہ تیری وجہ سے قبیلہ بدنام ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں بنو نمیر والے اپنے قبیلے کانام بتاتے ہوئے شرماتے تھے کہ ہر کوئی جواب میں جریر کا یہ شعر پڑھ دیتا۔ حتیٰ کہ چند سال بعد بنو نمیر کا نام ونشان تک مٹ گیا۔ یہ تھی عرب معاشرے میں ہجو کی طاقت اور تباہ کاری۔