Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Deeni Madaris, Aisa Musbat Iqdam Jis Ki Pairvi Honi Chahiye

Deeni Madaris, Aisa Musbat Iqdam Jis Ki Pairvi Honi Chahiye

دینی مدارس، ایسا مثبت اقدام جس کی پیروی ہونی چاہیے

سب سے پہلے تو اس اچھے بھلے اور غیر معمولی کام کا ذکر جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور جس کی دیگر جگہوں پر بھی پیروی ہونی چاہیے۔

گزشتہ روز ایک نیوز رپورٹ دیکھی کہ کراچی کے ممتاز دینی مدرسہ اور یونیورسٹی جامعتہ الرشیدنے ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنے سینئر اساتذہ کو ادارے کے قریب ہی ایک بہترین سوسائٹی میں پلاٹس ملکیتی طور پر لے دئیے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ پلاٹس پینسٹھ لاکھ روپے کی مالیت کے ہیں اورجامعہ کے تیس کے قریب سینئرترین اساتذہ کویہ پلاٹس دئیے گئے۔ ان میں بیس سے تیس سال تک جامعہ میں تدریس وغیرہ کی ذمہ داریاں نبھانے والے اساتذہ شامل ہیں۔ تین اساتذہ درجہ حفظ سے بھی لئے گئے جنہیں عام طور سے مدارس میں زیادہ اہمیت یا تنخواہیں نہیں ملتیں، جبکہ دو اساتذہ انگریزی وعصریات کے بھی شامل ہیں۔

سینیارٹی کے حساب سے مفتی عبدالرحیم صاحب کا نمبر ابتدا میں آتا تھا، مگر انہوں نے اپنا حصہ دیگر اساتذہ کے لئے وقف کیا۔ ناظم تعلیمات جامعتہ الرشید مولانا قاسم صاحب نے بھی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری جگہ میرے بعد میرٹ پر آنے والے کو پلاٹ دیا جائے جبکہ وائس چانسلر الغزالی یونیورسٹی مفتی احسان وقار صاحب نے اپنا پلاٹ جامعہ کے مرحوم استاذ مولانا عبداللہ ضیا کی بیوہ کو دینے کی سفارش کی، جس پر عملدرآمد ہوا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جامعہ اس سوسائٹی کے منتظمین کے ساتھ مل کران پلاٹس پر مکان بنائے جانے میں بھی معاونت کرے گی"۔

یہ ایک ایسا دل خوش کن اور مثبت اقدام ہے جسے سراہنا چاہیے۔ عام طور سے مدراس کے اساتذہ کے لئے زیادہ اچھی تنخواہیں میسر نہیں ہوتیں۔ بہت سی جگہوں پر ان کے باقاعدہ پے سکیل بھی نہیں ہوتے اور کسی بھی وقت فارغ کیا جا سکتا ہے۔ تمام زندگی اللہ کے دین کو پڑھانے، سمجھانے والے اساتذہ پیرانہ سالی کے باعث ریٹائر ہوں یا دوران ملازمت انتقال کر جائیں تو ورثا کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے اساتذہ کی کمی نہیں جو چالیس پچاس سال کسی مدرسے میں پڑھانے کے باوجود اپنے بچوں کے لئے سر کی چھت نہیں بنا سکے۔

اس لحاظ سے جامعتہ الرشید نے بہت اچھا قدم اٹھایا کہ اپنے سینئر اساتذہ کے لئے ملکیتی پلاٹس کا معاملہ حل کیا، اللہ کرے کہ وہاں ان کے گھر بھی بن جائیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا اور چلتار ہے۔ دیگر دینی مدارس کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ آسان کام نہیں، لیکن اگر بڑے مدارس اس جانب توجہ دیں تو مختلف نئی سوسائٹیز کے مالکان کے ساتھ مل کر وہ کوئی ایسی صورت نکال سکتے ہیں کہ اساتذہ کے لئے ڈائون پیمنٹ کے بغیرآسان قسطوں پر پلاٹ مل سکیں، قسطوں کا دورانیہ بھی تین سال سے بڑھا کر سات سال تک کیا جا سکتا ہے، جسے مدرسہ اپنے وسائل سے ادا کرتا رہے۔

مجھے معلوم ہوا کہ جامعۃ الرشید نے اساتذہ اور ملازمین کی کم از کم تنخواہ سینتیس ہزار روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خوش آئند ہے کہ وفاق المدارس نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ دیگر وفاق بھی اس کی پیروی کریں گے۔ میں نے جامعۃ الرشید میں کام کرنے والے ایک دوست سے پوچھا کہ وہاں اوسط تنخواہ کس قدر ہے؟ معلوم ہوا کہ کافی سے بھی زیادہ بہتر ہیں، سینئر کیٹیگری میں تو سمجھ لیں کہ سرکار کے سترہ اٹھارہ گریڈ کی تنخواہ سے بھی زیادہ۔ سن کر اچھا لگا۔ دین کا کام کرنے والوں کی زندگیاں آسان بنانی چاہیں۔

جامعتہ الرشید ویسے بھی دیگر دینی اداروں سے مختلف، منفرد اور ممتاز ہے کہ یہاں پر دینی علوم کے ساتھ عصری علوم (یعنی سائنس، کمپیوٹر، انگریزی وغیرہ)کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہاں پر یہ ممکن ہی نہیں درس نظامی کرنے والا کوئی شخص ان عصری علوم کی تعلیم حاصل نہ کرے۔ ہر ایک کو دینی علوم کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ان سائنسی اور سوشل سائنسز کے علوم کو پڑھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔

ہرروز درس نظامی کے پیریڈز کے ساتھ ہی انگریزی، آئی ٹی، سائنس وغیرہ کے پیریڈ ہوتے ہیں جن میں حاضری لازم ہے۔ آٹھ عالمی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں جن میں انگریزی، عربی، چینی، ترکی، فرنچ وغیرہ شامل ہیں۔ طلبہ کے رجحان کے دیکھتے ہوئے اسے ان عالمی زبانوں میں سے کسی ایک میں زیادہ مہارت کے لئے تعاون کیا جاتا ہے۔

ایک مزے کی بات یہ ہے کہ درس نظامی کے طلبہ کو باقاعدہ طور پر آئین پاکستان، انٹرنیشنل لا، پاکستانی پارلیمنٹ کے سسٹم، قانون سازی، ووٹنگ، سیاست اور گورننس کے بنیادی اصولوں وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے انٹرنیشنل لا کے ماہرین کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ریٹائر بیوروکریٹ بھی ہائر کئے گئے ہیں جو گورنمنٹ اور گورننس کے بنیادی فنکشن پر لیکچرز دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ طالب علم جب باہر نکلے تو اسے ان تمام چیزوں کا اچھی طرح سے اندازہ ہو۔

مجھے جامعتہ الرشید کے مفتی کورسز پسند آئے۔ دیگر مدارس میں عام طور سے درس نظامی کے بعد دو سال کا مفتی یا تخصص کورس ہوتا ہے۔ یہ کورس کرنے والا کچھ عرصہ دارالافتا میں گزارنے کے بعد فتویٰ دے سکتا ہے۔ جامعتہ الرشیدکے مفتی یا تخصص کورسز زیادہ جامع اور منفرد نوعیت کے ہیں۔ پانچ قسم کے کورسز ہیں۔ ایک کورس میں مفتی کو اسلامک فنانس میں ایم ایس سی کرنا پڑتی ہے تاکہ اسے کامرس، بزنس، بنکنگ وغیرہ کا اندازہ ہو اور ان امور پر وہ فتویٰ دے سکے۔ مفتی کے ایک الگ کورس میں حلال فوڈ کی تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے، خوراک کے اجزا، فوڈ کلرز وغیرہ کی معلومات، تاکہ حلا ل وحرام کے حوالے سے سائنسی معلومات رکھنے والا مفتی فتویٰ دے۔ ایک کورس میں ایل ایل بی لازمی ہے۔ ایک تخصص کورس عربی سے متعلق ہے، اتنی مہارت ہوجائے کہ ترجمان کے طور پر بھی کام کر سکے۔ پانچواں تخصص حدیث سے متعلق ہے۔

مفتی عبدالرحیم صاحب جو اپنے شاگردوں اور محبت کرنے والے حلقہ میں حضرت جی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، وہ جامعتہ الرشید کے روح رواں ہیں۔ یہ ممتاز عالم دین مولانا رشید احمد لدھیانوی مرحوم کے شاگرد، ساتھی اور جانشین ہیں، انہی کی لیگیسی کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ مفتی عبدالرحیم صاحب سے میری پہلی ملاقات پچھلے سال دسمبر میں ہوئی۔ کراچی کے مشہور کتاب میلہ میں شرکت کے لئے کراچی جانا ہوا۔ وہاں ایک دوست کی معاونت سے جامعتہ الرشید کا وزٹ کیا۔ جمعہ نماز کے بعد مفتی صاحب سے کچھ دیر کے لئے گفتگو کا وقت بھی مل گیا۔ ان کے بارے میں بہت کچھ سن اور پڑھ رکھا تھا، زیادہ تر توصیف میں، مگر کچھ تنقیدی بھی۔

مفتی عبدالرحیم صاحب سے ملاقات ایک نہایت خوشگوار اور نہ بھولنے والا تجربہ رہا۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کا مدرسہ بہت بڑا ہے اور اب انہیں یونیورسٹی کا چارٹر بھی مل چکا ہے جبکہ وہ اہم حلقوں میں بہت جانے پہچانے اور اثرونفوذ کے حامل ہیں۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ اتنا بڑا اور نامور آدمی اس قدر منکسرالمزاج اور سادہ مزاج ہوگا۔ انتہائی سادگی اور انکسار کے ساتھ وہ ملے، تفصیل سے کھل کر گفتگو کی۔ ان کا مستحضر علم اوربیدار مغزی حیران کن تھی۔ اپنے بار ے میں ہر تنقیدی سوال کا مدلل، شافی جواب دیا۔

ہم صحافیوں کی ایک منفی عادت ہے کہ انٹرویو دینے والے کی چہرے کی مسکراہٹ نہیں بھاتی۔ تب ہم اپنے ترکش سے ایسا کٹیلا، تیکھا تیر نکال کر پھینکتے ہیں کہ سامنے والا مضطرب یا مشتعل ہوجائے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ایسے میں وہ اپنا ٹمپر لوز کرکے کچھ ایسا بول جائے گاجس سے خبر نکل سکے یا اگربرہم ہوگیا تو یہ بذات خود ہی ایک خبر ہوگی۔ اپنی بدتعریفی تو نہیں کرنا چاہتا، آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ ایسا تھوڑا بہت ہم نے بھی کر ڈالا ہوگا۔ اپنی طرف سے کئی مشکل اور چبھتے ہوئے سوال کئے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہر سوال کا ہلکی سی نرم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور لفظ چبانے کی کوئی کوشش نہیں۔ ایک دو بار تو میں نے پریشان ہو کر پوچھا، آپ یہ جو کہہ رہے ہیں یہ چھپ جائے توشورمچے گا۔ مسکرا کر بولے کہ میں آف دی ریکارڈ نہیں بولا کرتا، جو ہے بس کہہ ڈالا۔

ملاقات بہت دلچسپ، مزے کی رہی۔ میں نے دانستہ نوٹس لئے اور نہ ہی ریکارڈ کیا۔ چاہتا تھا کہ بے تکلف گفتگو رہے۔ بعض لوگ ریکارڈر یا نوٹس لیتے دیکھ کر محتاط ہوجاتے ہیں۔ ویسے بھی میں انٹرویو نہیں لینا چاہ رہا تھا بس گپ شپ مقصود تھی۔ البتہ توجہ اور غور سے باتیں سنیں اور مینٹل نوٹس مکمل بنائے۔ جب اپنی یاداشت کی بنیاد پر تاثراتی کالم لکھا تو مجھے مفتی صاحب کی جانب سے ایک آڈیو مسیج موصول ہوا۔ انہوں نے محبت آمیز تشکرکے ساتھ دعائیں دیں اور کسی قدر حیرت سے کہا، " آپ نوٹس نہیں لے رہے تھے، پھر بھی حرف بہ حرف درست رپورٹ کیا، ازحد مسرت کا اظہار کیا کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ میں نے جو کہا ہو، وہی چھپے، اس بار مگر سو فی صد وہی چھپا جو کہا تھا"۔

مفتی عبدالرحیم صاحب کا وہ میسج سن کر اچھا لگا کہ میرے پروفیشنل ازم کی داد تھی، اصل خوشی مگر کل ہوئی جب یہ پتہ چلا کہ مفتی صاحب نے اپنے اساتذہ کا اکرام کیا اور ان کے گھر بنانے کے خواب کو پورا کیا۔ اللہ پاک ان سے مزید ایسا کام لے اور دیگر تمام مدارس کے منتظمین کو بھی ایسا کرنے کی توفیق اور وسائل دے، آمین۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin