کرکٹ : گڑھے مردے کیوں اکھاڑے جا رہے ؟
آج کل کرونا کی وجہ سے ہر کوئی گھر پر ہے، کرکٹر حضرات بھی اپنے گھرو ں میں رہ کر ان ڈور ورزش وغیرہ کر رہے ہیں، جم بھی بند ہونے کے باعث بیرونی مصروفیت بہت کم۔ لاک ڈائون چاہے جزوی ہے یا ہفتے میں تین دن، بہرحال اس کی وجہ سے پاکستان اور بیرونی دنیا میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد گھروں میں وقت گزار رہی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بڑی تعداد میں یوٹیوب ویڈیوز بننا شروع ہوگئی ہیں۔ سابق کھلاڑی بھی آج کل پنجابی محاورے کے مطابق "ویلے "پھر رہے ہیں، کمنٹری تک نہیں کر پاتے، ان کا زور بھی ویڈیوز پر چلنے لگا۔ کئی کھلاڑیوں نے باقاعدہ یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں۔ لاکھوں ویوز ملنے پر یوٹیوب سے معقول آمدنی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے۔ شعیب اختر جیسے کرکٹر اپنے شارٹ ٹمپرامنٹ کی وجہ سے کوچنگ میں نہیں چل سکتے، PSL کی ٹیموں نے بھی لفٹ نہیں کرائی تو ایسے میں ویڈیوز نہ بنائیں تو اور کیا کریں؟ شعیب اختر کا تو خیر ویسے نام آ گیا، یہ ویڈیوز ہر کوئی بنا رہا ہے، کیا پاکستانی، کیا انڈین، جسے تھوڑا بہت بولنا آتا ہے، وہ اپنی ویڈیو بنا کریوٹیوب پر ڈال دیتا ہے، اس امید میں کہ یہ وائرل ہوجائے گی۔
یہ آج کل دھندا بن گیا ہے۔ ممبئی والے شاہ رخ خان نے اپنی فلم رئیس میں ایک مزے کا ڈائیلاگ بولا تھا :"امی جان کہتی تھیں، کوئی دھندا چھوٹا بڑا نہیں ہوتااور دھندے کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔"ان کی فلم والی امی جان نے اس ڈائیلاگ کے ذریعے سپوت کو منشیات کی سمگلنگ کا لائسنس دے ڈالا، جسے جی بھر کر استعمال کیاگیا، حتیٰ کہ فلم ڈائریکٹر نے پولیس افسر کے ہاتھوں رئیس بھیا کو نشانہ بنوا ڈالا۔ خیر دھندے کے دھرم سے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، البتہ ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ دھندے کی بھی اخلاقیات ہونی چاہئیں۔
ان ویڈیوز کے گورکھ دھندے سے اچانک ہی میچ فکسنگ کا ایشو نکل کر سامنے آ گیا۔ پاکستانی کرکٹرجن پرماضی میں یہ الزام لگایا گیا اور ایک سزا یافتہ کرکٹر کو کوئی عہدہ دینے کا غلغلہ کھڑا ہو گیا۔ میچ فکسنگ ماڈرن کرکٹ کا بڑا المیہ ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانیوں کے لئے یہ دکھتی رگ کی سی حیثیت رکھتا ہے کہ مختلف ادوار میں ہمارے کئی کرکٹروں پر میچ فکسنگ، سپاٹ فکسنگ کے الزامات لگے۔ چند کرکٹروں پر یہ الزام ثابت ہوگیا اور انہیں سزائیں ملیں۔
میچ فکسنگ کے الزامات کو زیادہ شہرت سترکے عشرے کے اواخر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت پر لگے۔ آصف اقبال جنہیں مین آف کرائسس بھی کہا جاتا تھا، وہ کپتان تھے۔ پاکستان سیریز بری طرح ہار گیا۔ فاسٹ بائولر سرفراز نواز نے الزام لگایا کہ پاکستانی کپتان کے ایک بدنام بھارتی جواری کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ جان بوجھ کر میچ ہارے۔ آصف اقبال اپنا ایک خاص جینٹلمین امیج رکھتے تھے، وہ شکست کے بعد ریٹائر ہوگئے، الزامات کا جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کی۔ سرفراز نواز کی عمومی شہرت ایک منہ پھٹ غیر ذمہ دار شخص کی سی تھی، اس لئے کرکٹ بورڈ نے شائد انکوائری کی زحمت بھی نہ کی۔ کئی سال بعد جب شارجہ کرکٹ کا مرکز بنا تو یہ الزام بار بار سامنے آیا۔ سرفراز تب ریٹائر ہوچکے تھے، مگر انہوں نے جوا کھیلنے کے الزام ہر ایک پر دل کھول کر لگائے۔ شائد ہی کوئی خوش نصیب کپتان یا کرکٹر ہو جسے سرفراز نواز کے زہریلے حملوں سے پناہ مل سکی ہو۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ہتک عزت پر جرمانے کا قانون موثر نہیں۔ دس دس بیس بیس سال کیس چلنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوپاتا۔ اسی لئے یہاں جس کا جی آئے، کسی پر بھی الزام داغ دے۔ الزام ثابت نہیں کرنا پڑتا اور عدالتوں سے سزا ملنے کا امکان نہیں ہوتا۔
مغرب میں ہتک عزت کا قانون بے حد سخت ہے۔ بسا اوقات جرمانے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ غلط الزام لگانے والا دیوالیہ ہوجاتا ہے۔ لائف کسی زمانے میں امریکہ کا مشہور میگزین تھا، اس نے ایک بار نامور اداکار مارلن برانڈو (فلم گاڈ فادر فیم)کے بارے میں سکینڈل شائع کیا۔ مارلن برانڈو عدالت میں گیا اورکیس جیت گیا۔ لائف پر اتنا بڑا جرمانہ ہوا کہ وہ میگزین ہی ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ عمران خان نے ایک زمانے میں کہا کہ بال ٹمپرنگ ہمیشہ ہوتی رہی ہے، ہر فاسٹ بائولر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض برطانوی کرکٹروں کم پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے کرکٹروں سے حسد کرتے ہیں۔ مکمل یاد نہیں، مگر کچھ ایسا ہی بیان تھا۔ بہرحال برطانوی آل رائونڈر بوتھم اور بلے باز ایلن لیمب نے عمران خان پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا۔ پریس نے اس کیس کو خاصی کوریج دی۔ جیف بائیکاٹ نے عمران کی طرف سے گواہی دی۔ عمران خان یہ کیس جیت گئے اورالٹا بوتھم، لیمب پر بڑا بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ لیمب نے اپنی بائیوگرافی میں اعتراف کیا کہ اس کیس کے فیصلے سے میں تقریباً دیوالیہ ہوگیا۔
شارجہ کے کرکٹ میچوں میں جوا کے الزامات میں کسی حد تک صداقت ضرور تھی۔ عمران خان خود اعتراف کر چکے ہیں کہ ایک بار مجھے پتہ چلا کہ میچوں پر جوا لگ رہا ہے تو میں نے ٹیم کو دھمکی دی کہ میں میچ منی کو پاکستانی ٹیم کی جیت پر لگا دوں گا، یعنی اگر پاکستان جیتا تو لڑکوں کومیچ کھیلنے کے پیسے ملیں گے، ورنہ خلاص۔ میچ فکسنگ کے الزامات چند برس بعد نئے زور شور کے ساتھ اٹھے۔ اس بار پاکستانی ٹیم کا کپتان وسیم اکرم ہدف تھا۔ 1996ء ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے تھا، کپتان وسیم اکرم نے آخری لمحات میں میچ نہ کھیلنے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان فٹ ہیں اورپہلے یہ اعلان اس لئے نہیں کیا کہ ٹیم کا مورال ڈائون نہ ہوجائے۔ میچ پاکستان ہار گیا تو الزامات کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ لاہور میں وسیم اکرم کے والدین کے گھر پر پتھرائو بھی کیا گیا۔ ان دنوں یہ افواہ بھی گرم ہوئی کہ وسیم اکرم کے ایک قریبی عزیز میچز پر جوا کراتے یعنی بکی ہیں۔ اس ورلڈ کپ کے بعض لیگ میچز شائقین کو بھی مشکوک لگے تھے۔ مجھے یاد ہے پاکستان کاجنوبی افریقہ کے خلاف میچ تھا۔ ان دنوں اظہر محمود اچھی فارم میں تھے اور نمبر چھ پر آ کر بھرپور ہٹنگ کرتے تھے۔ وسیم اکرم نے نجانے کیوں اظہر محمود کو اپنے نمبر پر نہ بھیجا اور خود ان کی جگہ کھیلنے آ گئے۔ اکرم بھی چھکے مارنے میں مشہور تھے، مگر اس میچ میں وہ اچھی ہٹنگ نہ کر پائے، سنگل، ڈبل ہی لیتے رہے۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کی ٹانگ کا پٹھا چڑھ گیا اورسنگل لینے بھی دوبھر ہوگئے۔ آج کل تو رنر کی اجازت نہیں، ان دنوں نہایت آسانی سے رنر مل جاتا ہے، عام طور پر بلے باز جب تھک جاتے تو امپائر سے ان فٹ ہونے کا بہانہ بنا کر تیز دوڑنے والے تازہ دم کھلاڑی رنر کے طور پر منگوا لیتے۔ وسیم اکرم لنگڑا کر رن بناتے رہے، نجانے کیوں رنر نہ منگوایا۔ ہاسٹل کے کامن روم میں میچ دیکھتے ہم سب لڑکے حیران تھے کہ کپتان کو کیا ہوگیا ہے؟ خیر وہ میچ پاکستان میچ ہار گیا۔ مجھے یاد ہے کہ لڑکوں نے وسیم اکرم کو خوب صلواتیں سنائیں اوران کے لئے ایسی خوفناک سزائیں تجویز کیں جنہیں کالم میں لکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ملک بھر میں ایسا ہی ردعمل آیا، ہم پاکستانی کرکٹ کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔ کوارٹر فائنل میں وسیم اکرم کا نہ کھیلنا بھی میچ فکسنگ کا شاخسانہ سمجھا گیا۔ ویسے تو اس کے برعکس بھی سوچا جا سکتا ہے کیونکہ جس نے میچ ہرانا ہے تو نہ کھیلنے کے بجائے وہ کھیل کر اور بری کپتانی کر کے یہ کام احسن طریقے سے کر سکتا ہے۔ اس میچ میں وقار یونس نے پہلے آٹھ اوورز میں بڑی عمدہ بائولنگ کرائی اور بہت کم رنز دئیے تھے، آخری دو اوورز میں بھارتی کھلاڑی جدیجہ نے ان کی خوب ٹھکائی کی اور چالیس رنز بنائے۔ عاقب جاویدبھی بری طرح پٹے۔
یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بھارتی ٹیم نے خاصا بڑا سکور کیا تھا، نوجوت سدھو نے ترانوے رنز بنائے تھے۔ پاکستان تعاقب کرنے میں ہمیشہ کمزور رہا ہے، اس لئے شکست غیر فطری نہیں تھی۔ سعید انور، عامر سہیل نے اچھا سٹارٹ دیا۔ سعید آئوٹ ہوگئے تو عامر سہیل بھارتی بائولر پرساد کے ساتھ لفظی جھڑپ کے بعد اپنی وکٹ خوا ہ مخواہ گنوا بیٹھے۔ آج انہی عامر سہیل کے وسیم اکرم پر الزامات سن کر ہنسی آتی ہے۔ وہ میچ ہرانے کی ذمہ داری عامر سہیل پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان کے آئوٹ ہونے سے مڈل آرڈر دبائو برداشت نہ کر سکی۔ جاوید میانداد کا کیرئیر ختم ہوچکا تھا، انہیں یہ میچ کھیلنا ہی نہیں چاہیے، وہ وکٹ پر کھڑے سنگل ونگل لیتے رہے، مگربات نہ بنی۔ ان کی بے بسی یاد آتی ہے تو آج بھی دکھ ہوتا ہے۔ راشد لطیف نے چند عمدہ شاٹس کھیلے، کچھ امید دلائی، مگردیر ہوچکی تھی۔ وہ آئوٹ ہوئے، میانداد بھی رن آئوٹ ہوگئے، یوں ہم ہار گئے۔ بھارت کی ٹیم پاکستان سے اچھا کھیلی تھی، مگر پاکستان میں عمومی تاثر یہی لیا گیا کہ میچ جان بوجھ کر ہارا گیا۔ وسیم اکرم پر تین سال بعد ہونے والے ورلڈ کپ فائنل میں بھی میچ فکسنگ کا الزام لگا۔ ویسے تو اس دوران بھی بہت کچھ ہوتا رہا۔ اس پر ان شااللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔