کورونا کہانی نمبر 2
چند ماہ پہلے مجھے اور منجھلے بیٹے کو کورونا ہو ا تو اس پر ایک تفصیلی کالم لکھا، جس میں بتایا کہ کس طرح علاج کرنے کی کوشش کی۔ ساہیوال کے مشہور ہومیو پیتھک ڈاکٹر نیاز احمد کے حوالے سے ایک ہومیوپیتھک دوائی NAJA 1 Mکا ذکر بھی کیا، کورونا کے مریضوں کے لئے اسے تجویز کیا جاتا ہے۔ آج کا کالم بھی کورونا کے متعلق اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس کی زد میں لوگ مسلسل آ رہے ہیں۔ کورونا کے حملے جاری ہیں اور لاہور، کراچی، اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے مکین اپنے آپ کو قطعی محفوظ نہ سمجھیں۔ اگلے چند ماہ اہم ہیں۔ اس وقت کو کسی نہ کسی طرح نکالنا ہے تاکہ ہم سروائیو کر سکیں۔ کورونا نے سروائیول یعنی بقا کے بنیادی اصول ہمیں سیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جو جتنا اس مرض کو جان گیا، بچنے کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے۔
سب سے پہلے تو ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کورونا ہر ایک کو کسی بھی جگہ پر گھیر سکتا ہے۔ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ابتدا میں ماہرین کا خیال تھا کہ جسے ایک بار کورونا ہوجائے، اسے دوبارہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے جسم میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔ اب یہ تاثرغلط ہوچکا ہے۔ کورونا دو سری بار ہوجاتا ہے۔ میرے جاننے والوں میں ایسا ہوچکا ہے۔ ان کی اینٹی باڈیز کارگر ثابت نہ ہوسکیں۔ کورونا کا دوسرا حملہ زیادہ شدید رہا اور انہیں کئی دن تک ہسپتال میں ایڈمٹ رہنا پڑا، خوش قسمتی سے وہ صحت یاب ہوگئے۔ اس لئے یاد رکھیں کہ کورونا ہوگیا ہے، تب بھی اس کا حملہ ہوسکتا ہے۔ اپنی اینٹی باڈیز کے زعم میں نہ رہیں۔ یہ قابل اعتماد نہیں۔ کورونا کا سب سے موثر سدباب ویکسین لینا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس پر متفق ہیں۔ ویکسین سے بھی سو فی صد بچائو ممکن نہیں مگر سترسے نوے فیصد تک بچت کا امکان ہے۔
ویکسین عام آدمی تک پہنچنے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ تب تک اپنا بچائو خود ہی کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا ایس اوپیز پر بالکل ہی عمل نہیں ہو رہا۔ عوامی مقامات پر ماسک پہننے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ ماسک اگر پہن لیا جائے تونہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ احباب زور دے کر ماسک اتارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پچھلے ماہ مجھے ایک عزیز کی شادی پر جانا پڑگیا۔ دانستہ بچوں کو لے کر نہیں گیا، صرف اہلیہ ساتھ گئیں۔ میں نے ماسک پہن رکھا تھا، شادی ہال میں دیکھا تو ایک آدھ بزرگ نے ماسک پہنا تھا، کسی اورنے اسے لفٹ ہی نہیں کرائی حالانکہ شادی ہال کے باہر لکھا تھا کہ ماسک کے بغیر اندر نہیں جانے دیا جائے گا۔ مجھے حیرت ہوئی جب کئی اچھے خاصے پڑھے لکھے عزیزوں نے اصرار کیا کہ ماسک پہننے کی کیا ضرورت ہے، تم تو بڑے وہمی ہو، کورونا ورونا کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ دل تو چاہا کہ کورونا کی ایک شیشی کہیں سے مل سکے تو ان پر چھڑ ک دی جائے تاکہ انہیں کورونا کا یقین آ سکے۔
ہمارے لئے اب واحد آپشن یہی رہی کہ اپنے آپ کو بہترین طبی حالت میں فٹ رکھیں۔ بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مریضوں کاکورونا کے حساب سے رسک فیکٹر زیادہ ہے۔ یہ مریض اپنی ادویات کو باقاعدگی سے استعمال کریں اور کنٹرول رکھنے کے لئے ہر ممکن احتیاط کریں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگلے چند ماہ کے لئے اپنی خوش خوراکی اور بدپرہیزی کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ سادہ کھانا کھائیں، مرغن کھانوں کے بجائے سبزیاں لیں، ساتھ سلاد کا استعمال کریں۔ ممکن ہو تو گندم کے آٹے کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر روٹی کھائیں، اس میں فائبر زیادہ ہے اور یہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر دونوں کے لئے مفید ہے۔ آج کل موسم بہتر ہے۔ صبح یا شام میں جو وقت مناسب لگے، اس میں کم از کم نصف گھنٹہ واک کے لئے نکالیں۔ بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں پر اس کا معجزانہ اثر پڑے گا، دل کے مریض البتہ اپنے ڈاکٹر سے مشاورت کر لیں۔
کورونا بیماری کے دوران قوت مدافعت سب سے اہم ہے۔ اسے مضبوط رکھیں۔ وٹامن سی، وٹامن ڈی اور زنک کا استعمال اس کے لئے مفید ہے، ان کے سپلیمنٹ عام ملتے ہیں۔ سربکس زی ایک مشہور ملٹی وٹامن ہے، وٹامن سی کی چوسنے والی گولیاں ملتی ہیں جبکہ وٹامن ڈی کی چوسنے والی گولیوں کے ساتھ پورے مہینے کی ہیوی ڈوز ایک گولی کے ذریعے بھی لی جا سکتی ہے۔ ابلا ہوا انڈا لیں، اس کی سفیدی میں عمدہ پروٹین ہے۔ دالوں اور لوبیا میں بھی پروٹین ہے۔ ادرک، پودینے، لونگ، دارچینی کا قہوہ بھی دن میں ایک دو بار لے سکتے ہیں۔ اگر صبح شام بھاپ کی عادت ڈال سکیں تو فائدہ ہوگا۔ یاد رکھیں کہ جب تک کورونا کے حملے کا خطرہ ہے، تب تک ایک طرح کی ہنگامی صورتحال ہے۔ روٹین کی سٹینڈرڈ خوراک لیں، زندگی رہی تو ڈائٹ پلان بنتے رہیں گے۔
ایک بہت اہم کام اپنی نیند پوری کرنا ہے۔ بھرپور نیند، صحت مند غذا اور مناسب ورزش کرنے والے شخص کی قوت مدافعت بہت بہتر ہوتی ہے۔ ہومیو پیتھک دوائیوں میں سے ایک قوت مدافعت مضبوط کرنے اور کورونا جیسے وائرس کے بچائو کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ساہیوال کے ڈاکٹر نیاز کی تجویز کردہ ہے، Five Faus 6 X۔ ڈاکٹر نیاز کے مطابق اس کی چار چار گولیاں صبح، دوپہر، شام پندرہ دنوں کے لئے لیں، اس کے بعد ہر روز کسی بھی وقت صرف پانچ گولیاں لیتے رہیں۔ یہ مخصوص ننھی ہومیوپیتھک گولیاں ہیں، نہایت آسانی سے منہ میں ڈال کر چوسی جا سکتی ہیں۔
کوئی اور احتیاط کرے یا نہ کرے، آپ باہر نکلتے وقت ماسک پہن کر خطرے کو خاصا کم کر سکتے ہیں۔ گاڑی میں یا جیب میں سینی ٹائزر کی چھوٹی شیشی رکھیں۔ پانی میسر ہو نے پر بار بار ہاتھ صابن سے دھوتے رہیں، وہ نہ ہو تو سینی ٹائزر استعمال کریں۔ مصافحہ سے صاف انکار کر دیا کریں۔ گلے ملنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر احترام کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ باہر سے گھرواپس آنے پر پہلے اچھی طرح ہاتھ منہ دھوئیں اور اپنے کپڑے تبدیل کریں، پھر گھر والوں کے ساتھ بیٹھیں۔ یہ بات ہر فرد کو سمجھائیں۔ آج کل گھر کے بزرگ افراد سے زیادہ لاڈ پیار نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ گھر کا جو فرد باہرکام کاج کرنے جاتا ہے، اسے بوڑھوں کو بلاوجہ ٹچ نہیں کرنا چاہیے۔
کورونا ہو جائے تو کیا کیا جائے؟ ایک صورت تو یہ ہے کہ کورونا ہو مگر ٹیسٹ نیگیٹو آئے، تاہم علامات جاری رہیں جیسے بخار ہوتا رہے، جسم میں درد وغیرہ رہے۔ ایسے میں اسے کورونا ہی سمجھیں۔ کوروناکا عام ٹیسٹPCRہے، مگر بہت سے کیسز میں یہ نیگیٹو آ رہا ہے، اسے فالس نیگیٹو کہتے ہیں۔ کورونا کی مزید تشخیص کے لئے Ferritin ٹیسٹ اورD-dimer ٹیسٹ بھی کرایا جاتا ہے، ان کی زیادہ مقدار کورونا کے اثرات کو ظاہرکرتی ہے۔ CRP ٹیسٹ کے ذریعے بھی مریض کی کسی شدید انفیکشن میں مبتلا ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس لئے صرف پی سی آر نیگیٹو آنے پر ریلیکس ہو کر نہ بیٹھ جائیں، اگر علامات رہیں تو دیگرٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک چیسٹ ایکسرے بھی ضروری ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ پھیپھڑے تو متاثر نہیں ہوئے، کوئی بھی چیسٹ کا ڈاکٹر (pulmonologist)یہ ایکسرے دیکھ کر تشخیص کر سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ معاملات سنگین ہیں تو پھر ڈاکٹرز عام طور سے سٹی سکین(HRCT)کا کہتے ہیں، اس سے بہت بہتر اندازہ ہوجاتا ہے۔ میرے بھائی صاحب کے تین کورونا ٹیسٹ نیگیٹو آئے، مگر ان کے چیسٹ ایکسرے میں تھوڑی بہت گڑبڑ تھی جبکہ سی ٹی سکین سے معلوم ہوا کہ پھیپھڑے متاثر ہوئے تھے۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹرز خاص کر پروفیسر بلقیس شبیر صاحبہ اور پروفیسر ساجد صاحب نے بڑی دانشمندی سے درست تشخیص کی اور بھائی صاحب الحمد للہ صحت یاب ہوگئے۔
کورونا پازیٹو آجائے تب بھی چیزیں اسی طرح چلیں گی۔ ابتدا ہی میں آکسی میٹر(Oximeter) خرید یا کسی سے عاریتاً مانگ لیناچاہیے۔ یہ ننھا سا آلہ یہ بتاتا ہے کہ جسم میں آکسیجن سیچوریشن کتنی ہے۔ پچانوے سے ستانوے اچھی سمجھی جاتی ہے، ترانوے (93)تک کام چل سکتا ہے، جبکہ اس سے نیچے جانا پریشان کن ہے، نوے سے کم ہونا خطرناک ہے۔ ایسی کسی بھی صورت میں ازحد محتاط رہا جائے۔ اگر گھر میں ہیں تو چند منٹ الٹا پیٹ کے بل لیٹنے سے بھی آکسیجن سیچوریشن بہتر ہوجاتی ہے۔ بہت بار مریض بظاہر سانس ٹھیک لے رہا ہوتا ہے، مگر آکسیجن سیچوریشن ڈراپ ہونے لگتی ہے۔ مریض ایسے میں ہسپتال جانے اور آکسیجن لگوانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانا چاہیے کیونکہ آکسیجن تیزی سے ڈراپ ہوتی ہے، اچانک ہی بازی ہاتھ سے نکل جائے گی۔ آکسیجن سیچوریشن کم ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پھیپھڑے کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور وہ ٹھیک کام نہیں کر رہے۔
یہ اہم نکتہ یاد رکھیں کہ ہومیوپیتھک دوائیاں، قہوہ جات، بھاپ وغیرہ روٹین میں کچھ کام دے سکتے ہیں، اگر پھیپھڑے متاثر ہوچکے ہوں تب مریض کو اچھی اور ہیوی ڈوزادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹرز ہی اس کا درست فیصلہ کر سکتے ہیں، وہ سٹیرائیڈز بھی دے سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہسپتال جانا پریشانی اور دقت کا باعث بنتا ہے، مریض کی ضد بھی تنگ کرتی ہے، مگر اپنے پیاروں کی زندگی سے عزیز کچھ نہیں۔ اگرجان بچانی ہے تو پھر ٹھیک وقت پر درست فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ کورونا زندگی موت کی جنگ ہے۔ معمولی سی کوتاہی یا اسے ایزی لینا جان سے ہاتھ دھو لینے کے برابر ہے۔