چند اچھوتے ذائقے
محکمہ موسمیات والے شدید سردی کی خبردے رہے ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ صرف دو دن بعد ٹھنڈ کی ایک اور شدید لہر پنجاب اور ملک کے بعض دیگر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ ہم لاہوری تو پہلے ہی اس بار معمول سے بہت سرد، خون جما دینے والے دسمبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ سردیوں کے یہی دن نت نئے پکوانوں اور روایتی ڈشز کے ہیں۔ سیاست اور کرنٹ افیئرز کی اس دلدل میں کھانے پکانے کی باتیں شائد اجنبی لگیں، مگر اجنبی کیوں ہوں گی، انسان کی جدوجہد کا ایک مقصد تو لذت کام ودہن ہے۔ اگلے روز دفتر میں ایک کولیگ نے گھر کی بنی ہوئی پنجیری کھلائی۔ پنجیری سے اکثر لوگ واقف ہوں گے۔ ہم سرائیکی اپنی شادیوں میں اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ عام طور سے دلہا والے مختلف میوہ جات کو آٹے وغیرہ میں شامل کر، دیسی گھی سے بھون کر اسے بناتے ہیں، نہایت لذیزاور مقوی سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے دفتر کے ساتھی نے اپنی لائی پنجیری کی ترکیب بھی بتائی کہ آٹے میں بادام، ناریل کی گری، سونف، سفید تل، تھوڑی سی کلونجی اور شکر شامل کر کے خود بنائی۔ انہوں نے تلوں کے خواص، سونف کی کرشمہ سازی، کلونجی دانہ کے مسیحا ہونے اور کیمیکل سے پاک گڑ کی شکر شامل کرنے کی افادیت پرجامع لیکچر دیا۔ خاکسار نے اس ساری گفتگو کو نہایت دلچسپی سے سنا، مگر اپنے کانوں کا سوئچ آف کر کے توجہ پنجیری کے دل موہ لینے والے ذائقہ پر مرکوز رکھی۔ مفید غذائیں کھانی چاہئیں، اس نظریے سے ہمارا اصولی اتفاق ہے، مگر ہم سچے دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ڈش یا چیز لذیذ نہیں تو اس کی افادیت مشکوک ہی گردانی جائے گی۔ ورنہ یار لوگ تو کریلے کے عرق، گریپ فروٹ کے چھلکوں اور معلوم نہیں کس کس چیز میں کیا کیا فائدے گنواتے ہیں۔ اللہ ان سے محفوظ ہی رکھے۔
گزشتہ روز ایک اور کولیگ نے بھی اپنی والدہ کی بنائی پنجیری سے روشناس کرایا۔ اجزائے ترکیبی مختلف تھے، تل کی جگہ خشخاس استعمال ہوئے تھے، خشک میوہ بھی شامل تھا۔ ہم نے اسے بھی بڑی توجہ سے دیکھا۔ مزید بغور معائنہ کے لئے چمچ بھر کر منہ میں ڈالا، ایک دو منٹ تک اچھی طرح چبایا۔ پھر بھی کچھ فیصلہ نہ کر پائے تو دو تین اور چمچ کھاڈالے۔ پھر کہیں جا کر اطمینان قلب اور ذہنی یکسوئی نصیب ہوئی۔ یہ یکسوئی بڑی ضروری ہے۔ لکھنے پڑھنے والے لوگوں کو ویسے بھی پورے فوکس کے ساتھ چیزوں کا فیصلہ کرنا چاہیے، مغرب کے حکما کہتے ہیں Clearity Of Mind بڑا اہم ہے۔ اہل مغرب کی دانش پر بعض تحفظات ضرورہیں، مگر اس طرح کے مشورے ہم آنکھ بند کر کے قبول کر لیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے جلیل القدر شاگرد امام ابویوسفؒ ہارون الرشید کے دور میں قاضی القضاہ تھے۔ ایک باروہ خلیفہ کے پاس بیٹھے تھے، خدام نے اسی دن ناشتہ میں خلیفہ کو خاص شاہی مطبغ سے تیار شدہ پستہ کا حلوہ اور بادام کا حلوہ کھلایا۔ خلیفہ کو پسند آیاتھا۔ خلیفہ نے امام ابویوسف سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پستہ کا حلوہ زیادہ لذیز ہے یا بادام کا۔ امام صاحب خوش طبع آدمی تھے، ترنت بولے قاضی کے طور پر میں دونوں کی شہادت کا معائنہ کئے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ پہلے دونوں حلوہ جات کو پیش کیا جائے، پھر ہی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے ملازم کو اشارہ کیا، فوری طور پر حلوہ کے دو طباق حاضر کئے گئے۔ امام صاحب نے پہلے پستہ کا حلوہ چمچہ بھر کر منہ میں ڈالا، مزے لے کر کھایا، پھر فوری طور پر بادام کا حلوہ چمچ بھر کر کھایا۔ ان کی پیشانی پر تفکر کی سلوٹیں پڑ گئیں۔ اگلے ہی لمحے پستہ کا حلوہ لیا، پھر بادام۔ یوں باری باری کر کے کئی بڑے چمچ بھر کر کھائے، مگر کچھ بولے نہیں۔ خلیفہ دلچسپی سے تماشا دیکھتا رہا۔ آخر امام موصوف نے دونوں حلوہ جات کا خاصا حصہ مزے لے لے کر کھالیا۔ خلیفہ کی طرف متوجہ ہو کر بولے، حقیقت یہ ہے کہ مقابلہ بہت سخت تھا، کبھی پستہ کے حلوہ کا پلڑا جھک جاتا، کبھی بادام کا حلوہ اپنی طرف کھینچتا۔ ایسا سخت مقابلہ کم ہی دیکھنے کو ملا، آخری فیصلہ یہ ہے کہ اپنے اپنے ذائقے کے باوجود لذت میں دونوں برابر پائے گئے، کسی کو دوسرے پر سبقت نہیں مل سکی۔ امام صاحب تو خوش نصیب تھے کہ خلیفہ وقت کا کچن دستیاب تھا۔ کہاں پستہ اور بادام کا مقابلہ اور کہاں ہمارا زمانہ جب کلونجی، سونف کا مقابلہ خشخاس، گری سے کرنا پڑے، خیر مزے دار تو یہ بھی تھے۔ بہرحال منصف مزاجی بھی کوئی چیز ہے۔ ہم نے ہر دوماہرین کو داد دی اور ساتھ ہی مناسب مشورے بھی دئیے کہ اگر ان میں کاجو، پستہ یا اخروٹ کی گری بھی ملا لی جائے تو افادیت دوبالا ہوجائے گی۔
گھروں میں گاجر کا حلوہ بنانے کا بھی رواج ہے۔ بازار میں اچھاگاجر حلوہ مل جاتا ہے، مگر جیسی صفائی، نفاست، عمدہ کوالٹی کا مال اپنے گھر کے تیار حلوہ میں ممکن ہے، بازاری اشیا میں ممکن نہیں۔ چند دن پہلے ہمارے ایک پرانے دوست نے خاص قسم کا بنا سوجی کا حلوہ بھیجا۔ سوجی کا حلوہ چونکہ عام ہے، اس لئے اسے ایزی لیا جاتا ہے۔ جو تحفہ ہمیں ملا، وہ کسی خاص ترکیب سے بنا تھا، لذت بھی کمال کی تھی اور سب سے اہم کہ کھانے کے بعد گرانی کا احساس ہرگز نہیں ہوا۔ والدہ مرحومہ گھر میں دودھ والے گجریلا کا اہتمام کرتی تھیں۔ کئی کلو دودھ اکٹھا کیا جاتا اور پھر رات بھر بڑا دیگچہ گجریلا دھیمی آنچ پر پکتا رہتا۔ اس کے ذائقے کا کیا کہنا۔ ماں کے ہاتھ کی خوشبو، محبت بھرا اصرار۔ صبح صبح اٹھا کر بڑا پیالہ گجریلا جس میں اوپر موٹی بالائی کی تہہ اور کترے بادام، پستہ ہوتے دیا جاتا۔ بعد میں ابلا انڈا لازمی کھلایا جاتا کہ امی کے خیال میں یہ گاجر کی ٹھنڈک کو بیلنس کرے گا۔ بیس بائیس سال پہلے اردو ڈائجسٹ میں کام کرتا تھا، سمن آباد میں دفتر تھا، وہاں مین مارکیٹ میں ایک دودھ والے کے پاس دودھ کا گجریلا ملتا تھا۔ ایک پہلوان دکان پر بیٹھتے تھے۔ نہایت حقارت سے وہ گاجر کے حلوے کا ذکر کرتے اور کہتے کہ ان جاہلوں کو کیا معلوم اصل چیز تو دودھ والا گجریلا ہے۔ اس کے پاس واقعی نہایت لذیذ گجریلا مل جاتا۔ بعد میں گوالمنڈی نسبت چوک پر پرانی فوڈ سٹریٹ کے گیٹ کے پاس دودھ والے سے بھی کمال قسم کی کھیر اور گجریلا ملتا ہے۔ اب تو اس جانب جانا نہیں ہوتا، امید ہے معیار برقرار ہوگا۔
سرائیکی وسیب (خطے)میں سوہن حلوہ مشہور ہے۔ ملتان کو سوہن حلوہ کا مرکز سمجھا جاتا ہے، حافظ کا حلوہ ملک بھر میں مشہور ہے، اگرچہ درجنوں نام کے حافظ میدان میں آ چکے ہیں، اصل کا کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ محلہ قدیر آباد سے اس کا آغاز ہوا۔ اب تو حافظ کے علاوہ ریواڑی والے بھی اپنا نام بنا چکے ہیں۔ ہمارے مہربان دل میں ملتانی سوہن حلوے کے لئے نرم گوشہ موجود ہے، تاہم بہاولپور میں فرید گیٹ کے اندر امام بخش کا حیران کن ذائقے والا سوہن حلوہ ملتا ہے۔ جس نے کھایا، وہ شائد ہی بھول سکے۔ مچھلی بازار میں حاجی رشید کی دکان سے دو تین طرح کا سوہن حلوہ ملتا ہے، کمال ہے۔ ادھر ہی بالی پہلوان کی دکان سے سوہن حلوہ تو نہیں، مگر بہترین ربڑی ضرور ملتی ہے۔ لاہور میں ربڑی کے نام پر ایک بھیانک مذاق کیا جاتا ہے۔ ربڑی بہاولپور اور احمد پور شرقیہ میں کمال ملتی ہے۔ ویسے کراچی میں دلی والوں کی ربڑی، لب شیریں اور دودھ دلاری بڑی مشہور ہے۔ برنس روڈ پر دہلی سویٹ کی ربڑی اخیر قسم کی لذیز ہے۔ حیدرآباد کی ملائی اور ربڑی کی تعریف سنی، مگر کبھی کھانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ بہت سے سرائیکی گھروں میں بھی سوہن حلوہ بنانے کا رواج ہے۔ پچھلے سال ملتان سے ہمارے رشتے کے بڑے بھائی، بزرگ نے سوہن حلوہ بنانے کا خاص اہتمام کیااورکاریگر کو کسی بھی قسم کا کیمیکل نہ ملانے دیا، رات بھر کڑھائو میں بڑا کفگیر ہلا ہلا کر سوہن حلوہ بنوایا، اس کا ذائقہ بھی منفرد قسم کا تھا۔ آرگینگ مٹھائی سمجھ لیں۔ ہر علاقہ کی اپنی مٹھائی، اس کی اپنی شان ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک دوست نے خوشاب کا مشہورڈھوڈا کھلایا۔ مزے دار تھا، ہمارے ہاں لگ بھگ اسی انداز سے بھی بنایا جاتا ہے، اسے ہم بھنا سوہنا حلوہ کہتے ہیں، ہمارے ہاں ڈھوڈا باجرے کی بنی روٹی کو کہتے ہیں، جسے ساگ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ حلوہ جات میں مکھڈی حلوہ اگر کسی نے نہیں کھایاتو اعلیٰ قسم کے ذائقے سے محروم رہا۔
میٹھے ذائقوں کی بات کر رہے ہیں تو چلتے چلتے ایمن آباد کی برفی کا ذکر ہو جائے۔ لاہور سے پسرور جانا ہوا، واپسی پر ستراہ اور دھرم کوٹ سے آئے۔ وہیں پر نظر پڑی، چھوٹی سی دکان تھی، اوپر ایمن آباد کی مشہور برفی لکھا تھا۔ ایک کلو خرید لی۔ گھر آ کر کھائی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ برفی کیا تھی، شاندار قسم کا کھویا ہی تھا۔ حیرت ہوئی کہ ایسا خالص دودھ اور اتنا عمدہ کھویا بھی آج کل دستیاب ہے۔ بعض اوقات معمولی سی دکان پر اتنا اعلیٰ کاریگر مل جاتا ہے کہ آدمی اس کے ہاتھ کی بنی چیز کھا کر مبہوت ہوجاتا ہے۔ وہ برفی ایسی ہی خوش ذائقہ، منہ میں رس گھولنے والی، سب دوسرے ذائقے بھلا دینے والی تھی۔ بے اختیاررب تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اتنے عمدہ، نت نئے ذائقوں سے روشناس کرایا اور ہمیں اتنی مہلت عطا کی کہ اپنی زندگی میں یہ مزے شامل کر سکیں، مزید کی خواہش رکھیں۔