بنیادی مقدمات
کیا پاکستان میں سیاست دم توڑ چکی ہے؟ نظام معاشرت باقی نہیں رہا؟ سیاسی عمل سیاسی اقدار کا پابند نہیں ہے؟ پاکستانی سیاست کے بنیادی مقدمات ہیں جن کی طرف لوٹے بغیر بہتری نہیں آ سکتی؟ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات پر ہمارے دانشور حضرات پریشان ہوتے ہیں، انہیں یہ فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ سیاسی نظام چل رہا ہے، مگرجمہوریت حقیقی شکل میں موجود نہیں۔ ایک محترم قلمکار دوست نے گزشتہ روز انہی نکات پر لکھا، انہوں نے لکھا کہ چند بنیادی مقدمات پر فکری یک سوئی جب تک نہیں ہوگی، سیاست کی فطری ساخت بحال نہیں ہوسکتی۔ چار پانچ نکات گنوائے، ریاست بلاامتیاز اپنے شہریوں کی جان ومال اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرے، ریاست کی مضبوطی سیاسی استحکام سے آتی ہے، ریاست کے سب ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہیں، سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں کے مطابق منظم ہوں، چند بنیادی اقدار جیسے منصفانہ انتخابات، آزاد میڈیااور اہل سیاست کا احتساب وغیرہ پر اتفاق ہو۔
یہ سب معقول نکات ہیں، مضمون نگار نے خود ہی اعتراف کیا کہ ہماری سیاست ان بنیادی مقدمات میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی عملی وابستگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایک اضافہ نکتہ انہوں نے یہ اٹھایا کہ ریاست کے ساتھ سیکولر، اشتراقی، اسلامی وغیرہ کے سابقے لاحقے ابہام پیدا کرتے ہیں۔ یہ دراصل ایک طرح سے سیکولر سوچ ہی بیان کی ہے۔ سیکولروں کا بنیادی مقدمہ ہی یہی ہے کہ ریاست یا ریاستی سٹرکچر کا کوئی مذہب، دین یا نظریہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب یہ ایسی بات ہے جو پاکستان جیسے ملک میں بارہا بحث مباحثوں کے بعد پٹ چکی ہے۔ یہاں پر عوام کی بہت بڑی تعداد اس پر متفق ہے کہ اسے اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ ایسا عادلانہ، منصفانہ اسلامی نظام قائم کیا جائے جس کے فیوض عوام تک پہنچیں۔
ہمارے لوگ چاہتے ہیں کہ اسلامی روایات کے مطابق تیز اور سستا انصاف ملے۔ طاقتوراستحصالی طبقات کو سزا ملے، غریب آدمی کی زندگی آسان ہو اورملک آگے کی طرف بڑھے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ کسی شدت پسند گروپ کی من پسند مذہبی تعبیر کا یہ مطلب نہیں کہ ریاست ہی کو سیکولر بنا دیا جائے۔ شدت پسند گروہ مذہب کا نام استعمال کر کے دہشت گردی کرے تو اسے سخت ترین سزائیں دی جائیں، ان کے سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
واضح رہے کہ عام آدمی اسلامی نظام تو چاہتا ہے، مگر وہ مذہبی جماعتوں کی حکومت نہیں چاہتا اور نہ ہی اس کی خواہش ہے کہ روایتی مولوی صاحبان کو ریاست میں کوئی غالب مقام دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو مذہبی جماعتیں بلکہ ان کا سیاسی اتحادبمشکل دو چار فیصد ووٹ نہ لے پاتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مولوی صاحبان کا اپنے عصر سے ناواقف ہونا ہے۔ اپنی مخصوص طرز تعلیم کی وجہ سے یہ ایک خاص قسم کے محدود سانچے میں رہ کر سوچنے اور جینے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ پوری قوم کو اسی انداز میں رہنااور سوچنا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے والوں پر وہ بے دریغ فتوے لگاتے اور ان کے ایمان کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جوکئی صدیاں قبل تو ممکن تھا، عہد جدید میں مولوی صاحبان یا کسی بھی مذہبی طبقے کو یہ حق نہیں مل سکتا۔ صدیوں قبل تو دنیا میں غلامی کا ادارہ بھی موجود تھا، جنگیں ہارنے پر پوری مفتوح قوم غلام بنا لی جاتی، عورتیں لونڈی بن جاتیں۔ آج کوئی جنگ جیتنے کے بعد ایسا کرنا چاہیے تو اسے پاگل قرار دے کر جیل میں دھکیل دیا جائے گا۔ مذہبی طبقات بھی فتوے کی قوت سے پوری قوم کو ہراساں نہیں کر سکتے، البتہ اپنے منشور کی بنیاد پر وہ الیکشن لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس لئے اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کا مقصد ٹھیٹھ مذہبی طبقات کی بالادستی ہرگز نہیں۔
اسی طرح جمہوریت کے حوالے سے بھی انسانی شعو ر قائل ہوچکا۔ انتقال اقتدار کا یہ فطری اور پرامن طریقہ ہے، جس میں عوام کی شمولیت لازمی ہے۔ پاکستان میں قرارد اد مقاصد کے ذریعے جمہوری اداروں پر یہ قدغن لگا دی گئی ہے کہ وہ شریعت کے منافی کوئی قانون نہیں منظور کر سکتیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاں جمہوریت یا جمہوری نظام پر اب کوئی معقول بحث نہیں ہوسکتی۔ یہ طے شدہ امر ہے۔ سوائے چند ایک شدت پسندوں کے کوئی اس پر سوال نہیں اٹھاتا، ایک فیصدسے بھی بہت کم ایسے مختصر حلقہ کی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں۔ البتہ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کیوں قائم نہیں ہوسکی؟ غنیمت ہے کہ سیاسی عمل جیسے تیسے چل تو رہا ہے، اسے رکنا بالکل نہیں چاہیے۔ اسے بہتر اور مضبوط بنانے پر البتہ غوروفکر کرنا چاہیے۔
میرے نزدیک جمہوریت مستحکم نہ ہونے میں سب سے زیادہ اس طبقے کا ہاتھ ہے جو جمہوریت سے فائدہ اٹھاتا ہے، یعنی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں، اپوزیشن میں ہوں تب بھی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ جمہوریت اور جمہوری کلچر کو مضبوط بنائیں۔ بدقسمتی سے کم وبیش ہماری ہر اہم بڑی جماعت اور لیڈر اس حوالے سے ناکام ہوا ہے۔ یہ لوگ جمہوریت لانے کے خواہش مند بھی نہیں۔
جمہوریت کا پہلا تقاضہ ہے کہ اپنے اوپر اس کے اصول لاگو کئے جائیں، اپنی جماعت میں جمہوریت لائی جائے۔ کہاں ہے ایسی جمہوریت؟ سوائے جماعت اسلامی یا ایک آدھ کسی چھوٹی جماعت کے پیپلزپارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف، اے این پی، جے یوآئی، فنکشنل لیگ، ق لیگ، جمہوری وطن پارٹی، میپ، نیشنل پارٹی وغیرہ میں کہیں بھی جمہوری طریقے سے انتخابات نہیں ہوتے۔ چند گھرانے ہیں جو ان تمام جماعتوں پر مسلط ہیں۔ تحریک انصاف پر عمران خان کی صورت میں ایک فرد حاکم ہے کیونکہ اس نے پاکستان میں شادی نہیں کی اور وہ طبعاً خاندان سے کٹ کر رہنا پسند کرتا ہے، ورنہ عمران خان بھی اپنے فیصلوں میں اتنا ہی غیر جمہوری ہے جتنا کہ میاں نواز شریف یا آصف زرداری۔ ایک مثال دیکھ لیں کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت بنی، اس کا فیصلہ صوبائی جماعت اور صوبائی پارلیمانی پارٹی کو کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے بنی گالہ سے عمران خان صاحب نے حکم صادر کیا کہ فلاں نام کاشخص آپ کا وزیراعلیٰ ہوگا، پچھلے دو برسوں سے وہ اپنی تمام تر نااہلی اور کمزور گورننس کے باوجود وزیراعلیٰ ہے۔ جب تک خان صاحب چاہیں گے، وہ وزیراعلیٰ رہے گا۔ صوبائی پارلیمانی پارٹی یا تحریک انصاف کی صوبائی جماعت کی مجال نہیں کہ اعتراض کر سکے۔
ن لیگ اور پیپلزپارٹی بھی ایسا ہی کرتی تھی۔ نواز شریف صاحب نے شہباز شریف کو وزیراعلیٰ بنایا کہ وہ ان کے قابل اعتماد تھے، لیکن اگر وہ چاہتے تو چیچو کی ملیاں، ڈونگہ بونگا یا کسی بھی علاقے کے غیر معروف ایم پی اے کو وزیراعلیٰ لگا دیتے، کوئی اعتراض نہ کرتا۔ دوست محمد کھوسہ کو تین ماہ کے لئے وزیراعلیٰ بنایا گیا، کسی کو اعتراض ہوا؟ دوست محمد کھوسہ کا ن لیگ کے لئے کیا کنٹری بیوشن تھا؟ ان کے والد کی جدوجہد بیٹے کے لئے دلیل نہیں بن سکتی۔ جمہوریت میں کم از کم ایسا نہیں ہوتا۔ زرداری صاحب بھی جسے چاہیں سندھ میں وزیراعلیٰ بنا دیں۔ جب تک ان کا جی چاہا پچاسی سالہ قائم علی شاہ کووزیراعلیٰ بنائے رکھا، جن کے بیانات پر لوگ ہنسا کرتے۔ جب زرداری صاحب کا دل بھر گیا تو کسی اور کو بنا دیا۔ قائدین اگر اپنی اولاد کو شہزادوں، شہزادیوں کی طرح جماعت پر مسلط کر دیں گے تو پھر جمہوریت کا مذاق ہی بنے گا۔ ایسا کرنے والے سیاسی لیڈر اور کسی ڈکٹیٹر میں کیا فرق ہے؟ دونوں نے عوام کے بجائے اپنی مرضی کو اہمیت دی۔ بھیا جی یہ جمہوریت تو نہیں ہے، اور کچھ بھی کہہ لیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاسی عمل میں مداخلت ہوتی ہے، اپنے من پسند نتائج کے لئے کاوش بھی۔ اسٹیلبشمنٹ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، مگر یہ خلا انہیں سیاستدان ہی مہیا کرتے ہیں۔ اگر سیاستدان پرفارم کریں اور ہائی مورل گرائونڈز پر موجود ہوں تو انہیں دھکیلنا آسان نہیں۔ ہمار ابس اسٹیبلشمنٹ پر نہیں چلتا، انہیں ہم نصیحت ہی کر سکتے ہیں، سیاسی قوتوں سے البتہ مطالبہ اور تقاضا کر سکتے ہیں۔
سیاسی قوتوں کو بلدیاتی اداروں کی اہمیت جاننا ہوگی۔ گراس روٹ لیول پر عوام سے رابطے کا یہ ذریعہ ہے۔ کون سی سیاسی حکومت ہے جس نے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنایا؟ کے پی میں تحریک انصاف نے پچھلی بار لوکل باڈیز کو فنڈز دئیے، مگر اس بار حکومت ملنے پر پنجاب اور کے پی دونوں میں پہلے کے برعکس پالیسی بنائی۔ ڈکٹیٹر ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کراتے اور انہیں طاقتور بنانے کا سوچتے ہیں، سیاستدان ہمیشہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ نتیجہ سامنے ہے۔
سیاسی کارکن کو جب تک سیاسی عمل میں شامل نہ کیا جائے، اسمبلیوں میں لوئر مڈل کلاس اور لوئرکلاس سیاسی کارکنوں کی معقول تعداد نہ بھیجی جائے، تب تک سیاست میں نظریاتی عنصر غالب نہیں آئے گا۔ سیاسی قوتوں نے الیکشن ازحد مہنگا کر کے کارکن تو کیا اچھے بھلے خوشحال سیاسی رہنما کو بھی آئوٹ کر دیا ہے۔ پانچ سات کروڑالیکشن پر لگانے والے کو پارٹی، جمہوریت یا نظریات سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ ان کے لئے جنرل مشرف یا نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان میں کیا فرق؟ انہوں نے پیسے لگا کر اسمبلی میں آنا اور پھر وہ پیسے اوراگلے الیکشن کا ممکنہ خرچ کسی بھی طرح کمانا ہے۔ یہ موقعہ جمہوریت سے ملے یا فوجی حکومت سے، ان پر کیا فرق پڑے گا؟