بھرم
سیاسی منظرنامے میں تبدیلیاں آ رہی ہیں، ضمنی الیکشن پھر سینٹ الیکشن کی صف بندیاں، اب سپریم کورٹ کا فیصلہ جس کے تحت الیکشن حسب سابق خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوگا۔ ان پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑتا ہے۔ ریگولر کالم نگاروں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کرنٹ افیئرز کو نظرانداز کر کے اپنے دھن میں ایران توران کی ہانکتے رہیں۔ دو تین ہفتے قبل میں نے عسکریت پسندی اور ڈینیل پرل/عمر سعید شیخ کے حوالے سے سیریز شروع کی، اس پر توقعات سے کئی گنا زیادہ مثبت ریسپانس آیا۔ معلوم نہیں کہاں کہاں سے ٹیکسٹ میسجز، فیس بک ان باکس پیغامات اور ای میلز آتے رہے۔ یہ خیرمقدمی ردعمل اتنا زیادہ اور وسیع تھا کہ مجھے حیرت ہوئی۔ اندازہ ہوا کہ صرف سیاست پر تحریریں پڑھ پڑھ کر قارئین کا ایک حلقہ اوبھ گیا ہے اور وہ معمول سے ہٹے ہوئے موضوعات کو بھی پڑھنا چاہتا ہے۔ ان شااللہ اس موضوع کے دیگر پہلوئوں پر لکھوں گا۔ آج مگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس اعتبار سے تو واضح ہے کہ انہوں نے جوڈیشل ایکٹوازم کا مظاہرہ نہیں کیا اور ایک طرح سے واضح کر دیا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے وہ آئین میں ترمیم یا ایکٹ وغیرہ کے ذریعے جو اصلاحات کرنا چاہیں کریں، ہمیں اس میں نہ گھسیٹیں۔ یہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی سوچ سے ہٹ کر کلاسیکل پوزیشن لی گئی۔
بنچ میں موجود اختلافی فیصلہ لکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی کی پوزیشن بہت صاف اور کھری سی رہی۔ ان کے خیال میں یہ سب کچھ آئین میں بہت وضاحت سے لکھا ہوا ہے، اس لئے حکومت کو سپریم کورٹ سے یہ سوال پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ انہوں نے سوال سیاسی قرار دیتے ہوئے اس پر رائے دینے کے بجائے اسے مسترد کردینے کا موقف اپنایا۔ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اکثریتی فیصلہ یہ نہیں تھا، ورنہ حکومت کے پاس کچھ باقی نہ رہتا۔ ان کے حصے میں شرمندگی ہی آتی۔ موجودہ فیصلے سے انہیں کچھ نہ کچھ سہارا ملا ہے اور حکومتی وزرا اسے اپنی کامیابی قرار دینے کے دعوے کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت کو شکست ہوئی ہے، کامیابی نہیں ملی۔ وہ سپریم کورٹ میں ایک واضح، متعین سوال لے کر گئے تھے۔ انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کا کا م آئین کی تعبیر وتشریح ہے، آئین میں ترامیم کرنا نہیں۔ جو بات آئینی طور پر واضح ہے، اس میں ابہام موجود نہیں، اس کی تشریح کرانے کی ضرورت ہی نہیں۔ حکومت کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپوزیشن سے بات چیت کرتی، اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد آئینی ترمیم لے آتی یا پھر درمیانی راستہ نکال جاتا جس سے ووٹ بیچنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ پنجاب میں ایسا کیا گیا اور ہر سیاسی جماعت کو اتنی نشستیں ملیں جتنا ان کا حق بنتا تھا۔ ق لیگ کا ایک سینیٹر بنا ہے، ان کی اتنی نشستیں نہیں تھیں، مگر جب تحریک انصاف نے ق لیگی امیدوار کامل آغا کو اپنا امیدوار بنا لیا تو پھر ق لیگ کو یہ سیٹ ملنا ہی تھی۔ پنجاب میں انصاف ہوا۔ ان ارکان اسمبلی کو مایوسی ہوئی جو سینٹ الیکشن میں اپنا ووٹ بیچ کر کروڑوں کھرے کرنے کے چکر میں تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر چاہتی تو یہ کام ملک بھر میں ہوسکتا تھا۔ اس کے لئے مگر حکمران جماعت میں ایسے لوگ ہونے ضروری ہیں جو افہام وتفہیم کے ساتھ سیاسی مخالفوں سے مذاکرات کر سکیں۔ تحریک انصاف کے پاس آگ لگانے والے تو بہت ہیں، بجھانے والا ایک آدھ ہے، وہ بھی کارنر ہوچکا۔
حکومت سپریم کورٹ میں یہ سیاسی سوال لے کراسی لئے گئی تھی کہ اسے معلوم تھا پارلیمنٹ سے وہ ترمیم تو کیا ایکٹ بھی منظور نہیں کرا سکتی۔ حکومتی کوشش کامیاب نہیں رہی۔ سپریم کورٹ نے خفیہ بیلٹ کے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کو بھی مشورہ ہی دیا گیا، اس مشورے سے پہلے ہی الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کرنے کا آئینی اختیار موجود تھا۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا اختیار کردہ قانونی موقف درست ثابت ہوا۔ عمران خان کے کہنے پر پنجاب، کے پی اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے جو موقف اختیار کیا، وہ بے وزن نکلا۔
سندھ حکومت کا موقف بھی بڑی حد تک درست رہا، مگر اصل کامیابی الیکشن کمیشن کی ہے، ان کے قانونی مشیروں کو داد دینی چاہیے۔ ارشاد احمد عارف صاحب ہمارے گروپ ایڈیٹر ہیں، مگر ان کے ساتھ صحافت سے ہٹ کربھی نیازمندی کا دیرینہ تعلق ہے۔ بہت سے معاملات میں گپ شپ چلتی ہے، انکی آرا سے استفادہ کرتے ہیں اور اختلاف ہو تو اپنا موقف بھی کھل کر بیان کرتے ہیں۔ حکومت سپریم کورٹ میں گئی تو ارشاد عارف صاحب نے اسی دن کہہ دیا تھا کہ یہ غلطی ہے، آئینی پوزیشن بڑی واضح ہے، حکومت کو شکست اور سبکی ہوگی، ممکن ہے عدالت کوئی درمیانی راہ نکال کر ان کی شرمندگی کم کرا دے، مگر بیلٹنگ خفیہ ہی ہوگی، آئینی ترمیم کے بعد ہی یہ پروسیجر بدل سکتا ہے۔ وہ صحافی ہیں، قانون دان نہیں مگر اپنے مطالعہ اور حاجی سیف اللہ جیسے ماہرین کے ساتھ وقت گزارنے کے باعث ان کی رائے صاف اور غیر مبہم تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اسے درست ثابت کیا۔ پیر کی سہہ پہر میں نے ارشاد عارف صاحب کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ کاش عمران خان آپ جیسے خیر خواہوں کی رائے ہی لے لیا کریں۔
فیصلے سے اپوزیشن خوش ہوئی ہوگی، مگر ان کا اخلاقی موقف اس معاملے میں بہت کمزوررہا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، خاص کر بلوچستان اور کے پی میں کروڑوں روپے دے کر ووٹ بیچا جاتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں اور ویسے بھی یہ موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اس غلط مشق کو ختم ہونا چاہیے۔ جب ایسا کرنے کا وقت آیا تو صرف حکومتی مخالفت کی وجہ سے اپوزیشن ووٹ بیچنے والوں کی ہمدرد اور سرپرست بن گئی۔ صرف اس لئے کہ ووٹوں کی خریداری کے مبینہ بے تاج بادشاہ زرداری صاحب اپوزیشن کا حصہ ہیں اورپی ڈی ایم کو معلوم ہے کہ وہ اپنے چمتکار سے حکمران جماعت کے ایک دو سینیٹ کی سیٹیں کم کرا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر پی ڈی ایم کی جمہوریت پسندی اور اصول پسندی کہاں چلی گئی؟ سوشل میڈیا کے جدید محاورے کے مطابق تیل لینے چلی گئی یا پھر نیپال جا کر موت کے گھاٹ اتر گئی۔
یہ بات البتہ درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اور بہت سے معاملات کی طرح اس ایشو کو بھی مس ہینڈل کیا۔ وزیراعظم کو الیکشن کمیشن سے پہلے ہی رائے لے لینی چاہیے تھی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کو ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ایک موقف نہیں رکھتے تو عدالت میں کیا کیس لڑیں گے؟ پھر جب عدالت میں چلے گئے تو آرڈی ننس جاری کرنے کا کیا جواز تھا؟ وہ بھی جب پارلیمنٹ کا سیشن جاری ہو۔ اسمبلی کے سیشن میں آرڈی ننس جاری کرنا افسوسناک قسم کی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ آرڈی ننس کو عدالتی فیصلے سے منسلک کرنا ہی تھا تو فیصلے کا انتظار کر لیا جاتا۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ماہرین قانون اپنی اپنی آرا دے رہے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کیمپ سے تعلق رکھنے والوں کی رائے مختلف ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی ہے، وہ اس پرعمل کی پابند ہے۔ دوسرے اسے محض مشورہ قرار دے رہے ہیں۔ بعض قانون دانوں کے خیال میں الیکشن کمیشن زیادہ طاقتور ہوا ہے۔ ان تمام آرا سے قطع نظر یہ بہرحال ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ذمہ دار ادارہ قرار دیا ہے، جس کا کام سینیٹ الیکشن کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایک ڈیڑھ دن میں بیلٹ پیپر پربار کوڈ یا کوئی اور ایسا جدید سائنسی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے؟ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ جو کچھ ہوگا، وہ آئندہ کے لئے ہی ہوسکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں البتہ کسی جماعت کو اپنے حق سے زیادہ نشستیں مل گئیں تو الیکشن کی شفافیت پرسوال اٹھے گا۔ تب انگلی الیکشن کمیشن کی طرف ہی اٹھے گی۔ کے پی، سندھ یا بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی، اسلام آباد کی سیٹوں پر اپ سیٹ ہوا تو الیکشن کمیشن پر ذمہ داری عائد ہوگی۔ حکومت اپنی طرف سے بری الذمہ ہوچکی کہ ہم جو کچھ کر سکتے تھے کر دیا۔ عدالت نے آئینی، قانونی پوزیشن واضح کر دی اور الیکشن کمیشن کی طرف اشارہ کیا کہ تگڑے بنو۔ اپوزیشن تو معصوم سا منہ بنا کر ارکان اسمبلی کے ضمیر کو داد دے گی۔ وہ یہ تو نہیں مانے گی کہ کروڑوں روپے اور دیگر لالچ دے کر ووٹ خریدے گئے۔ اس مفروضہ صورت میں البتہ الیکشن کمیشن کی نااہلی ثابت ہوجائے گی۔ اللہ کرے ایسا نہ ہواور سب اداروں کا بھرم قائم رہے۔