برابری کے وہ دعوے کہا ں گئے؟
الجزائر کی ایک خاتون باکسر ایمان خلیف کے حوالے سے آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا پر بڑا شور ہے۔ اس پر دھڑا دھڑ پوسٹیں کی جا رہی ہیں۔ آج کل پیرس میں اولمپک کھیل ہو رہے ہیں۔ خواتین باکسنگ کے ایک میچ میں الجزائر کی پچیس سالہ خاتون باکسر ایمان خلیف کا مقابلہ اٹلی کی انجیلا کیرنی سے ہوا۔ پہلے ہی منٹ میں بی بی انجیلا کو ایمان خلیف کا ایسا زوردار پنچ منہ پر پڑا کہ ناک کی ہڈی ہل گئی اور ہوش اڑ گئے۔ صرف چھیالیس سکینڈز میں یعنی پہلے ہی منٹ میں اطالوی خاتون باکسر نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دئیے اور شکست تسلیم کر لی۔ ایمان خلیف یوں کوارٹر فائنل میں پہنچ گئی۔ یہ چھیاسٹھ کلوگرام مقابلے کی کیٹیگری تھی۔ شور اس لئے مچا کہ اطالوی باکسر انجیلا کیرنی نے بعد میں یہ تاثر دیا اور بیان دیا کہ ایمان خلیف دراصل مرد ہے، عورت نہیں اور اسے مجبوراً اپنی جان بچانے کے لئے مقابلہ ختم کرنا پڑا۔ یوں یہ تنازع پیدا ہوا۔
ابتدا میں تو یہ تاثر ملا کہ شائد الجزائر کی باکسر ایمان خلیف دراصل ٹرانس جینڈر ہے اور چونکہ پہلے وہ مرد تھا، اس لئے مردانہ مضبوط جسم ہے، اب اس نے اپنی صنف تبدیل کرکے خواتین باکسر کے طور پر مقابلہ لڑا، جو کہ ناانصافی اور زیادتی ہے۔ کئی مشہور عالمی شخصیات نے اس حوالے سے ایمان خلیف کے خلاف بیان داغ دیا۔ ان میں ایکس (ٹوئٹر) کے سربراہ ایلون مسک بھی شامل ہیں۔ مسک صاحب خیر سے کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے۔ ہیری پوٹر سیریز کی مصنفہ جے کے رائولنگ نے بھی اطالوی باکسر کی تائید کی اور کہا کہ کسی مرد کا خواتین مقابلوں میں شریک ہونا ایک طرح سے ناانصافی اور عدم مساوات ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی ایمان خلیف چونکہ عرب اور مسلمان ہے اس لئے مغربی میڈیا سے اسے بھرپور حمایت نہیں مل سکی، ورنہ ایسے ایشوز میں مغربی میڈیا ہمیشہ ٹرانس جینڈ ر کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ اب الجزائری میڈیا نے اس کے بچپن کی تصاویر پیش کی ہیں جن میں وہ لڑکیوں والے لباس ہی میں ملبوس ہے۔ سات آٹھ سال اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی یہ تصاویر ہیں۔ الجزائر کی اولمپک کمیٹی نے بھی ایمان خلیف کی بھرپور حمایت کی اور اس کے خلاف پروپیگنڈے کی مذمت کی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی)نے جو اولمپک مقابلے کا انعقاد کراتی ہے، انہوں نے ایمان خلیف کو سپورٹ کیا ہے۔ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے مطابق، " الجزائر کی باکسر کا جنم ایک خاتون کے طور پر ہوا(یعنی برتھ سرٹیفکیٹ فیمیل کا ہے)، اس کااندراج خاتون کے طور پر ہوا، اس اپنی زندگی خاتون کے طور پر گزاری، پاسپورٹ خاتون کا ہے اور ایسی کوئی خبر یا شواہد نہیں کہ اس نے اپنی زندگی میں خود کو خاتون کے علاوہ کبھی کسی اور جنس سے منسوب کیا ہو۔ یہ ٹرانس جینڈر ہونے کا معاملہ نہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک مرد کا کسی خاتون سے مقابلہ کرایا گیا۔ سائنسی طور پر اور عملی طور پر یہ کسی مرد اور عورت کا مقابلہ نہیں ہے۔ اسی لئے اسے جائز قرار دیا گیا۔ "
اب بتایا جا رہا ہے کہ ایمان خلیف کو ہارمون ڈس آرڈر کا مرض لاحق ہے۔ ان کے جسم میں میں ٹیسٹو سٹیرون ہارمون زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ عام طور سے یہ مردانہ ہارمون ہی سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حمل کے ابتدائی چند ہفتوں میں ٹیسٹو سٹیرون ہارمون ہی صنف کا تعین کرتا ہے یعنی اگر یہ زیادہ ہو تو مردانہ اعضا تولیدی بنتے ہیں، کم ہو تو پھر نسوانی اعضا تولیدتخلیق ہوتے ہیں۔
باکسنگ کے مقابلوں میں ڈوپ ٹیسٹ باقاعدگی سے ہوتے ہیں جن کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ ممنوعہ طاقت بخش ادویات تو استعمال نہیں کی گئیں۔ ٹیسٹو سٹیرون کے ٹیسٹ بھی لئے جاتے ہیں۔ ایمان خلیف اورچند ایک دیگر باکسرز جن میں تائیوان کی ایک باکسر لی یوٹنگ بھی شامل ہیں، انہیں پچھلے سال ٹیسٹو سٹیرون لیول ہائی ہونے پر خواتین باکسنگ کے عالمی مقابلوں سے باہر کر دیا گیا تھا۔ البتہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اس پر اعتراض نہیں کیااور یہ دونوں باکسر پیرس مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اولمپک کمیٹی کے مطابق بعض خواتین کے جسم میں قدرتی طور پر ٹیسٹو سٹیرون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر انہیں خواتین باکسنگ کے مقابلوں سے باہر نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ پیدائشی طور پر خاتون ہی ہیں اور یہ سب کچھ فطری طور پر ہے۔
بات ویسے منطقی ہے۔ اگر کوئی بائیالوجیکل طور پرخاتون ہے، اس نے اپنی جنس تبدیل نہیں کی تو وہ ٹرانس جینڈر نہیں ہے۔ ہارمون ڈس آرڈر تو ایک طبی مسئلہ ہے۔ اگر کسی عورت میں یہ ہارمون بڑھ گیا اور اس کا چہرے کے نقوش یا آواز مردانہ ہے تو وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے اور عورت ہی کہلائے گی۔
خیر یہ بحث تو اپنی جگہ چلے گی، عالمی تنظیمیں اور ڈاکٹر حضرات ہی طے کریں گے جو کرنا ہے۔ میری دلچسپی البتہ اس نکتہ میں ہے کہ اچانک ہی دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ عورت مرد سے جسمانی طور پر کمزور ہے اور اس کا مقابلہ ہی کوئی نہیں اور ایک دبلا پتلا مرد بھی اپنے سے زیادہ (بظاہر)صحت مند جسم والی عورت کو ایک پنچ مار کر اس کے ہوش اڑا سکتا ہے۔ (اطالوی باکسر قد میں ایمان سے چھوٹی تھی، مگر جسمانی طور پر زیادہ فرق نہیں لگا۔)
مجھے یاد نہیں کہ پہلے اتنے اعلانیہ اور کھل کر یہ بات خواتین کی طرف سے کہی گئی، خاص کر فیمنسٹ حلقوں نے کبھی یہ مانا ہو۔ ہمیشہ ہم نے ان کی طرف سے یہ سنا یا پڑھا کہ عورت مردوں سے کم نہیں، وہ بھی اتنی ہی مضبوط، بہادر اور طاقتور ہوسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی وجہ سے جب کوئی لڑکی جہاز چلاتی ہے، کوہ پیما ہے کسی بڑی چوٹی وغیرہ کو سر کرتی ہے تو اس کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں کہ دیکھیں یہ بھی تو عورت ہے، اس نے مردوں جیسا ہی پرفارم کرکے دکھایا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ کسی غیر معمولی عورت کو خواتین کے نمائندے کے طور پر پیش کرنا منطقی طور پر غلط ہے کہ ہمیشہ مجموعی طور پر جائزہ لیا جاتا ہے۔ جیسے سرینا ولیمز اور وینس ولیمز مشہور ویمن ٹینس سٹارز رہی ہیں، اپنے لمبے تڑنگے اور مضبوط جسم کی وجہ سے وہ بہت تیز سروس کراتی تھیں اور پاور فل شاٹس کھیلتی تھیں۔ خواتین ٹینس کی پچانوے ستانوے فیصد کھلاڑی ویسے شاٹس یا تیز سروس نہیں کرا سکتیں۔ سرینا ولیمز ایکسٹراآرڈنری خاتون کھلاڑی تھی، پچاس ہزار یا ایک لاکھ میں سے ایک۔ اسے ویمن ٹینس پلیئرز کی عمومی نمائندہ کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟
میرے جیسے لوگ ہمیشہ سے یہ اعتراض کرتے آئے ہیں کہ مرد اور عورت میں برابری کے یہ دعوے بڑی کمزور بنیاد پر استوار کئے گئے ہیں۔ یہ مان لینا چاہیے کہ عمومی طور پر مرد جسمانی طور پر زیادہ مضبوط ہے اور اسی وجہ سے کچھ پروفیشن یا کام ایسے ہیں جو مرد زیادہ بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔ ہم یہ قطعاً نہیں کہتے کہ خدانخواستہ عورت مرد سے کمتر ہے۔ نہیں ایسا نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کی جسمانی کنڈیشن میں بڑا فرق ہے اور یہ قدرت نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی اہمیت یکساں ہے، مگر کردار مختلف ہوسکتے ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے لئے ہاتھ اور پیر کی حیثیت یکساں اہم ہے کہ ایک سے محرومی جسمانی معذوری سمجھی جائے گی، مگر کرداردونوں کے مختلف ہیں۔ یہی ناک، منہ، آنکھ، کان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔
فیمنسٹ حلقے البتہ بڑے زور شور سے ہمیشہ مرد اور عورت کی برابری کے دعوے کرتے اور یہی بتاتے، سمجھاتے رہے کہ کون سا کام ہے جو مرد کر سکتا ہے اور عورت نہیں کر سکتی؟ ان کے مطابق عورت بھی ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ دلیل کے طور پر پاکستان کی دس بارہ کروڑ خواتین میں سے جو چار پانچ کوہ پیما خواتین ہیں، انہیں مثال کے طور پر پیش کرنا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ قدرت نے مرد کو عمومی طورپرزیادہ جسمانی قوت، مضبوطی اور قوت برداشت دی۔ اسی وجہ سے بھاگ دوڑ، محنت مزدوری اور آوٹ ڈور کاموں میں یہ زیادہ کامیاب اور موثر رہتا ہے۔ خواتین میں بھی ہمت، برداشت اور حوصلہ ہوتا ہے، بچہ پیدا کرنا کون ساآسان کام ہے؟ یہ بات مگر واضح ہے کہ خواتین کا دائرہ کار مختلف ہے اور انہیں اسی حساب سے ٹاسک سونپنے چاہئیں۔
مرد کی نقالی اورزبردستی عورت کو مردانہ کردار میں ڈھالنے کی کوشش ناکام اور فضول ہے۔ فطرت کے لافانی اصولوں نے ہزاروں سال کی معلوم تاریخ میں اسے بار بار ثابت کیا ہے۔ باکسر ایمان خلیف کے تنازع میں مضطرب ومشتعل فیمنسٹ یہ بنیادی بات سمجھ لیں تو مسلسل فکری غلطیوں اور ٹھوکروں سے بچ سکتے ہیں۔