Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Bangladesh Mein Tabdeeli, 6 Aham Pehlu

Bangladesh Mein Tabdeeli, 6 Aham Pehlu

بنگلہ دیش میں تبدیلی، چھ اہم پہلو

بنگلہ دیش میں گزشتہ روز جو کچھ ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ ملک کی نام نہاد آئرن لیڈی مستعفی ہو کرانڈیا فرار ہونے پر مجبور ہوگئیں۔ انہیں الوداعی بھاشن دینے کی بھی اجازت نہیں ملی۔ بظاہر تو یہ بنگلہ دیش آرمی نے کیا، مگر اصل، بنیادی اور مرکزی فیکٹر عوامی احتجاج اورنوجوانوں کی بے پناہ قربانیاں ہیں۔ سینکڑوں جانیں گئیں، ہزاروں زخمی ہوئے، دس ہزار سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ اس صورتحال کے مختلف پہلوہیں، ان میں سے چند ایک پر بات کرتے ہیں۔

بنگلہ دیشی آرمی کا کردار یہ سب سے اہم سوال ہے کہ بنگلہ آرمی کا کیا رول ہوگا؟ آرمی چیف کیا سوچ رہے ہیں اور کیا عبوری سیٹ آپ بنانے کا مقصد فوری دبائو کو کم کرناتو نہیں۔ اس کا حقیقی اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا، مگر بہرحال اس آرمی نے حسینہ واجد کو سیف ایگزٹ دے کر ایک بڑی فیور ہی دی ہے، ورنہ خودساختہ آئرن لیڈی شدید مشکلات کا شکار ہوجاتیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق رومانیہ کے چائو شسکو اور افغانستان کے جنرل نجیب والی خوفناک کہانی دہرائی جا سکتی تھی۔

یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزماں کو وزیراعظم حسینہ واجد ہی نے تعینات کیا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق چیف کے ساتھ ان کی رشتے داری بھی ہے۔ اسی آرمی نے تیرہ جولائی سے ہونے والے زبردست عوامی احتجاج کو روکنے اور کچلنے میں عوامی لیگ حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ صرف دو دن پہلے ڈھاکہ میں سو سے زیادہ اموات ہوئیں اور دوران کرفیو اگر ایسا ہو تو اس کی ذمہ داری ظاہر ہے فوج پر ہی عائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ فوج میں نیچے سے اوپر تک شدید دبائو تھا۔ عوامی احتجاج اس قدر وسیع، زوردار اور طوفانی رہا، اس میں نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد شریک ہوئی اور ان پر اس قدر تشدد اور ظلم کیا گیا کہ فوج کے لئے اپنے ہی بھائی بندوں پر گولیاں چلانا مشکل ہوگیا تھا۔

سوشل میڈیا کو اب بند کر دیا گیا، مگر پہلے وہاں پر بنگلہ فوجی افسروں کے کئی خط گردش کرتے رہے جس میں آرمی چیف سے درخواست کر رہے تھے کہ وہ عوام پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔ پیر کے روز جو کچھ آرمی چیف نے کیا، وہ دراصل پورے انسٹی ٹیوشن، خاص کر نوجوان افسروں کا شدید دبائو تھا۔ آرمی چیف کے سامنے دو ہی راستے تھے، مداخلت کرکے وزیراعظم کو مستعفی ہونے دیں یا پھر اندرونی دبائو کے باعث خود ہٹ جائیں۔ آرمی چیف نے جو راستہ چنا، وہ ہمارے سامنے ہے۔

کیا بنگلہ دیش ماڈل دہرایا جائے گا؟ ایک اور فیکٹر بھی یاد رکھیں کہ بنگلہ دیش میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ وہاں ایک سے زائد مارشل لاآئے اور ایک سویلین حکومت کو ماورائے آئین ہٹا کر نگران سیٹ آپ لانے کا تجربہ پہلے بھی ہوا۔ بنگلہ دیش کے ایک آرمی چیف جنرل معین الدین احمد نے دو ہزار چھ میں وزیراعظم خالدہ ضیا کی حکومت ہٹا کر ایک نگران ٹیکنوکریٹ سیٹ آپ بنایا تھا۔ آرمی نے خالدہ ضیا اور حسینہ واجد دونوں کی جماعتوں کو دو سال کے لئے باہر کر دیا۔ یہی بنگلہ دیش ماڈل ہے، جس کا ذکر پاکستا ن میں بھی کئی بار آیا۔ بعض تجزیہ کاروں کاالزام یہ بھی ہے کہ جنرل معین الدین احمد نے بھارتی ڈیزائن کے مطابق حسینہ واجد کو اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کی اوردو سالہ ٹیکنوکریٹ سیٹ آپ کے بعد ایسا الیکشن کریا جس میں صرف عوامی لیگ ہی جیت سکے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف کتنے عرصے کے لئے عبوری سیٹ آپ لاتے ہیں اور کب الیکشن کراتے؟ متبادل سیاسی قیادت کون سی ہے؟

بنگلہ دیش میں تین عشروں سے دو ہی بڑی جماعتیں رہی ہیں، حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا کی بی این پی جبکہ تیسری اہم پارٹی جماعت اسلامی سمجھی جاتی، ایک چھوٹا دھڑا سابق آمر جنرل حسین ارشاد کی جاتیو پارٹی ہے۔ بیگم خالدہ ضیا ایک سے زائد بار وزیراعظم رہ چکی ہے، وہ پچھلے کئی برسوں سے گھر میں نظربند ہیں، ان کی عمر بھی ستر سال سے زیادہ ہوگی، جوڑوں کے درد سمیت کئی طبی عوارض سے دوچار ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک فعال سیاست کریں گی؟

خالدہ ضیا کا بیٹا طارق رحمن عوامی لیگ حکومت کے جبر کے پیش نظر باہر بھاگ گیا تھا، اب شائد وہ واپس آ جائے، مگر اس پر اپنی والدہ کی حکومت کے زمانے میں کرپشن کے بہت سے الزامات لگے تھے۔ بنگلہ دیش میں موجودہ تبدیلی نوجوان نسل کے احتجاج سے آئی، ان کے لئے مشکل ہے کہ پرانی نسل کی قیادت کو بخوشی قبول کریں۔ ممکن ہے بی این پی میں کچھ تبدیلیاں آئیں یا اگر عبوری سیٹ آپ چھ، آٹھ ماہ یا سال سے زیادہ چلے تو کچھ ٹوٹ پھوٹ اور جوڑتوڑ کے بعد نیا سیاسی اتحاد سامنے آئے۔ بہرحال حسینہ واجد کے لئے سردست واپسی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ عوامی لیگ بھی کئی برسوں کے لئے پس پشت چلی جائے گی۔ جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟

ان مظاہروں کی ذمہ داری حسینہ واجد اور بھارتی میڈیا، حکومتی وزرا وغیرہ نے بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی پر ڈالی ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کیونکہ جماعت اسلامی پر الیکشن لڑنے کی پابندی عائد ہے۔ حسینہ واجد نے اپنے دور اقتدار میں سب سے زیادہ مذہبی قوتوں، خاص کر جماعت اسلامی کو کچلنے کی کوشش کی۔ مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں کی لائبریریوں وغیرہ سے مولانا مودودی کی کتابیں باہر پھینکوا دی گئیں، ان کتابوں کی اشاعت پر بھی پابندی لگ گئی۔ حالیہ مظاہروں میں حسینہ واجد نے جماعت اسلامی اور ان کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترو شِبر (بنگلہ دیش کی اسلامی جمعیت طلبہ)پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ جماعت پر کئی پابندیاں ایسی لگائی گئی ہیں کہ اسے سیاست کرنے کے لئے باقاعدہ نئی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔ جماعت اسلامی ماضی میں خالدہ ضیا کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اب بھی وہ شائد اس جانب ہی جائے۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی قیادت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اس احتجاج کو ہم لیڈ نہیں کر رہے اور نہ ہی اسے ہمارا کریڈٹ کہا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نوجوان سوشل میڈیا پر بڑے ایکسائٹیڈ ہو کر کریڈٹ لے رہے ہیں، تاہم جماعت کی قیادت ایسا نہیں کہہ رہی۔ حافظ نعیم الرحمن نے بڑے محتاط الفاظ میں اس تبدیلی پر ردعمل دیا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس ایجی ٹیشن کو لیڈ نہیں کر رہی تھی، جماعت کے رہنما اس کی پلاننگ وغیرہ نہیں کر رہے تھے، البتہ جماعت اپنی بساط کے مطابق ان مظاہروں میں شامل ضرور تھی، مگر اس کی اتنی کیپیسٹی نہیں کہ اس پر لیڈ کرنے کا الزام یا کریڈٹ دیا جائے۔

جماعت اسلامی کے اہم اورسنجیدہ دانشور سلیم منصور خالد نے اس حوالے سے عمدہ تجزیہ کیا، وہ کہتے ہیں: " جو کریڈٹ بھارت ہمیں دینے کی کوشش کر رہا ہے، اسے سمجھنا چاہیے، کریڈٹ سے زیادہ یہ اس کی سازش ہے۔ وہ بنگلہ دیش کے عظیم الشان عوامی مظاہروں کو جو ہر قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر تھے، انہیں جماعت اسلامی کو منسلک کرکے مشکوک اور متنازع بنانا چاہتا ہے، عین ممکن ہے کہ اس بہانے ہندوستان کی جماعت اسلامی پر مظالم کے مزید پہاڑٹوٹ پڑیں۔ چال یہ ہے کہ مغرب اور مغربی میڈیا بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور پولیٹیکل اسلام سے خوفزدہ ہو کرعوامی احتجاج کی مخالفت کرے۔

بھارت کہاں کھڑا ہے؟ بھارت کو ایک بڑا دھچکا تو لگاہے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم حسینہ واجد کی آوٹ آف دا وے جا کر سپورٹ کی اور عوامی مظاہروں میں اپنے لئے شدید ناپسندیدگی اور بیزاری کے جذبات پیدا کئے۔ عبوری سیٹ آپ اور اس کے بعد آنے والی حکومت اپنا جھکائو کسی حد تک چین کی طرف کرے گی اورحسینہ واجد کی شدید پروانڈیا پالیسی تبدیل ہوگی۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے حامیوں نے پچھلے ایک سال سے بائیکاٹ انڈیا کی اچھی خاصی موثر سوشل کمپین شروع کر رکھی تھی۔ بنگلہ دیش کے بازاروں اور دکانوں میں اسی فیصد کے قریب پراڈکٹس انڈین ہوتی ہیں، اس بائیکاٹ مہم کے باعث بہت سی جگہوں پر لوگوں نے یہ لینے سے انکار کر دیا اور دکاندار بھی متبادل مقامی چیزیں رکھنے لگے۔ اس سب میں تیزی آئے گی، تاہم بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ بہت سے معاہدوں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اگلی حکومتوں سے یوٹرن پالیسی کی توقع نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی یہ بنگلہ دیش کے اپنے مفاد میں ہوگا، البتہ کسی حد تک پرو چین پالیسیاں بننے کے امکانات ہوں گے۔

آگے کیا ہوگا؟ اس وقت تو عبوری سیٹ آپ آنے کی اطلاعات ہیں، یہ شائد خالص ٹیکنو کریٹک سیٹ آپ نہ ہو۔ اس میں عوامی لیگ کو چھوڑ کر دیگر سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہوسکتی ہے۔ عبوری سیٹ آپ کو عوامی لیگ کے خلاف کچھ نہ کچھ اقدامات لینے ہوں گے۔ مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تحقیقات کرنا پڑے گی، مقتولین اور زخمیوں کی تلافی کرنا بھی لازم ہے۔ عوامی لیگ کے بہت سے رہنماپہلے ہی باہر نکل چکے ہیں، ملک میں موجود کچھ لوگ ضرور پھنسیں گے۔ چند ماہ تک یہ سیٹ آپ چل سکتا ہے، اس کے بعد الیکشن ہونے چاہئیں۔ فری اینڈ فیئر الیکشن ہوئے تو امکانات ہیں کہ عوامی لیگ بری طرح شکست کھا جائے گی اور موجودہ اپوزیشن جماعتوں کا کوئی اتحاد سا اقتدار میں آ جائے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf