ارشد ندیم کی کرشمہ گری، کیا سبق سیکھنے چاہئیں
ارشد ندیم نے کل ہم سب کو حیران بھی کر دیا اور ازحد خوش بھی۔ میرے گھر میں پی ٹی سی ایل کا سمارٹ ٹی وی لگا ہوا ہے جو تین گھنٹے پیچھے کی نشریات دکھا سکتا ہے۔ رات ار شد ندیم کا مقابلہ میں نے دفتر میں دیکھا۔ گھر پہنچا تو سب نے دوبارہ سب کچھ دیکھا۔ بچوں نے بار بار دیکھا۔ رات کے تین چار بج گئے مگر ہر کوئی انتہائی خوش تھا۔ مایوسی کی اس دنیا میں یہ ایک ایسی خبر تھی جس نے ہرپاکستانی کا دل نہال کر دیا۔ ایک بار پھر یقین آیا کہ کھیل قوموں کو جوڑ دیتے ہیں۔ کہاں گئے وہ اختلافات، وہ غصہ، وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات؟ چترال سے کراچی اور گوادر سے لاہور تک سب اکھٹے ہو گئے کہ بہرحال ہم سب پاکستانی ہیں، یہ ہمارا ہی جھنڈا ہے۔
انڈیا نے اپنی جمہوریت، بالی وڈ اور کلچر کے نام پر انتہائی متنوع قسم کی قوم کو اکھٹا جوڑ رکھا ہے۔ اب وہ کھیلوں کو بھی ویسے پروموٹ کر رہے ہیں ثانیہ مرزا مسلمان تھی مگر بی جے پی والوں نے بھی اسے دیوی بنا دیا تھا۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ مشترک چیزیں ڈھونڈی جائیں اور آپس میں جڑ جائیں۔
ارشد ندیم نے رات پورے ملک اور قوم کو آپس میں نہ صرف جوڑ دیا بلکہ دل خوشی سے بھر دئیے۔ ثابت ہوا کہ کھیل بھی قوموں کو جوڑ دیتے ہیں اس لئے انہیں سیریس لیا جائے۔ ان کی تنظیموں کی سربراہی انعام میں کسی ریٹائر جرنیل، کسی سیٹھی، اشرف یا محسن کو نہ بخش دی جائے۔
ارشد ندیم کی غیر معمولی محنت نے اسے کندن بنایا، ہر کوئی اس بارے میں اب جانتا ہے۔ وہ موٹیویشن کا ایک ہرا بھرا مہکتا استعارہ بن گیا ہے۔ آپ ہم سب اور حکومت، ان سب کو اس جوہری، اس مقامی کوچ ساقی صاحب کو بھی سراہیں، جس نے میاں چنوں جیسے چھوٹے شہر سے وہ ہیرا ڈھونڈا، اسے تراشا اور دنیا کے آگے لے آیا۔ ارشد ندیم کا انٹرویو سن رہا تھا جس میں اس نے کہا کہ میں کرکٹ کھیلتا تھا، ساقی صاحب نے مجھے جیولن تھرو کی طرف مائل کیا، ٹریننگ دینا شروع کی اور پھر بتدریج میں اس مقام تک پہنچ گیا۔
ارشد ندیم کو تو خیر کوئی بڑا ایوارڈ ملے گاہی، پہلے بھی مل چکا۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس کے پہلے کوچ کو بھی پرائیڈ آف پرفارمنس دیا جائے۔ ان سے ٹیلنٹ ہنٹنگ کاکام لیا جائے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس اس لئے کہ اس کے ساتھ نو دس لاکھ روپے نقد ملتے ہیں۔ ایک بار پھر اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، صرف بروقت تلاش کرنے، اچھی ٹریننگ اور سہولتیں بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، پھر وہ ارشد ندیم کی طرح ملک وقوم کا نام روشن کریں گے۔ ہمیں باکسنگ، ایتھلیٹکس، سوئمنگ وغیرہ میں بھی حقیقی ٹیلنٹ تلاش کرنا چاہیے۔ جیولن تھرو میں بھی ہمیں نئے سٹارز ڈھونڈنے چاہئیں۔ کل فائنل رائونڈ میں فن لینڈ کے تین کھلاڑی تھے۔ پاکستان کے بھی دو تین کھلاڑی وہاں جا سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ گولڈ، سلور اور کانسی تینوں تمغے پاکستانیوں کو ملیں۔ یہ ہوسکتا ہے۔ صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ساقی صاحب جیسے کوچز سے ٹیلنٹ ہنٹنگ کی جائے۔ نئے ستاروں کو اچھی ٹریننگ دیں، جدید سہولتیں فراہم کریں۔ باہر سے بھی ٹریننگ کرائیں اور انشااللہ اگلے اولمپک میں پاکستان کے گولڈ میڈل بھی زیادہ ہوں گے اور دیگر تمغے بھی۔ آزمائش شرط ہے۔
مجھے بہت اچھا لگا کہ ارشد ندیم ندیم بار بار کچھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کر رہا تھا، وہ درود پاک پڑھ رہا ہوگا، اللہ کے نام، کچھ دعائیں یا جو بھی پڑھ رہا تھا اچھا لگا۔ ان کے ہیڈ کوچ کو دکھایا گیا، سیاہ چشمہ لگائے بارعب شخصیت، ان کے بھی ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ اپنے رب کو یاد کر رہے تھے، اپنے شاگرد کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے، ٹی وی چینلز نے دکھایا کہ اس کی ماں مصلے پر بیٹھی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ یہ سب دل خوش کن تھا۔ بعد میں ارشد ندیم نے سجدہ شکر ادا کیا تو یہ بھی اچھا لگا۔ جیت کے لئے صرف دعا نہیں چاہئیے ہوتی۔ قدرت کا قانون ہے کہ بیسٹ پرفارم بھی کیا جائے۔ بے پناہ محنت اور اپنی بہترین پرفارمنس کے بعد دعا کا ساتھ ہو تو کمال ہوجاتا ہے۔ دعا دراصل گڈ لک ہے۔ نتائج تدبیر اور تقدیر کا امتزاج ہوتے ہیں۔ تدبیر یعنی محنت، ٹریننگ اور سرتوڑ کوشش جبکہ تقدیر اپنے رب کی مدد مانگنااور بے لوث دعائیں۔
پیرس اولمپک میں ارشد ندیم کے ساتھ یہی ہوا۔ اسے تو کروڑوں دعاوں کے تحفے مسلسل مل رہے تھے۔ عام لوگ بھی مسلسل دعائیں پڑھ کر نوجوان پر پھونک رہے تھے۔ مجھے تو یوں لگا جیسے پوری قوم کی ان دعاوں نے ہوا کا جھونکا بن کر اس کی بیسٹ تھرو کو تھوڑا مزید اڑا کر تقریباً ترانوے میٹر پر پہنچا دیا۔ اس نتیجے پر ارشد کو خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
مجھے معلوم ہے کہ ہمارے ملحد، متشکک، لبرل اور سیکولر دوست جھنجھلا رہے ہوں گے کہ یہ مذہب اور خدا کا حوالہ کیوں آگیا؟ دانت کچکچا کر وہ دلیلیں تراشیں گے کہ پہلے یہ دعا نہیں کرتاتھا کیا؟ اور جن دوسرے کھیلوں میں لوگوں نے میڈل لئے ہیں وہ بھی دعائیں پڑھ کر پھونک رہے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب عقلی باتیں اپنی جگہ مگر بھیا جی ہمیں تو دعا پر بڑا اعتقاد اور یقین ہے۔ ہمیشہ اسی نے بیڑا پار کرایا، البتہ اس کے ساتھ محنت اور انتہائی کوشش نہ ہو تو پھر کشتی ڈگمگا کر آگے بڑھتی ہے اور کبھی مطلوبہ نتائج نہیں بھی ملتے۔ یار لوگ اسے قدرت کی مدد نہیں کہتے بلکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ آج اس کا دن تھا۔ یہ قسمت کا فیکٹر ہی قدرت کی مدد ہے۔ کبھی یہ حریف کو بے بس کر دیتی ہے۔۔
بعض لوگ دعا کا نام لینے پر اعتراض کرتے ہیں، شائد انہیں مذہب کا حوالہ پسند نہیں آتا یا وہ روحانیت کے تصور ہی سے خائف ہوجاتے ہیں۔ یہ اعتراض بلاوجہ ہے۔ مذہب میرے نزدیک، میرے جیسے بے شمار لوگوں کے نزدیک بہت اہم ہے۔ ہم رب کی مدد، رب کی مہربانی اور اس کی رحمت پر بہت یقین رکھتے ہیں۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ جب ہم "ایاک نعبدو وایاک نستعین" کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ میرے نزدیک قو م کو محنت کرنے، سرتوڑ محنت کرنے، اپنا سب کچھ کھپا دینے والی محنت کے بعد دعا کا کہنا ان کو غلط تلقین کرنا نہیں بلکہ ایک بہترین اور مکمل بات کہنا ہے۔
باقی ہر وقت چیزیں ہمارے حق میں نہیں جاتیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ سیدنا علی نے جناب صدیق اعظم کو کہا تھا کہ جنگ ہنڈولے کی مانند ہے کبھی یہ اوپر جاتا ہے تو کبھی نیچے۔ حالانکہ وہ زمین پر دنیا کے بہترین لوگوں کی جمعیت تھی۔ ایسے لوگ جن سے اللہ راضی ہوگیا تھا۔ اس کے باوجود بھی جناب باب العلم نے توجہ دلائی کہ تقدیر اچھی اور بری ہوسکتی ہے۔ اس لئے اگر ہماری بہترین محنت، کوشش اور دعائوں کے باوجود کبھی نتائج ہمارے من پسند نہ آئیں تو صبر سے کام لیں، اس میں اللہ کی حکمت جانیں اور متبادل پلان بنائیں یا پھر سے کوشش کریں۔
ارشد ندیم اب سپر سٹاربن چکا۔ اس نے اپنی فارم اور محنت جاری رکھی تو ان شااللہ ورلڈ چیمپئن بھی بن جائے گا اور دیگر مقابلے بھی جیتے گا۔ اس نے اپنی پرفارمنس دوسروں سے بہت بہتر کر لی۔ اپنی آخری تھرو اکیانوے میٹر پھینک کر یہ ثابت کر دیا کہ اب وہ نائنٹی پلس تھرو پھینکنے والا کھلاڑی ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ سرخرو رکھے آمین۔