اپنی شرائط پر زندگی جینے والے
پیر کو دفتر پہنچا تو ہمارے میگزین کے پیارے ساتھی محمود الحسن نے اپناروٹین کا ڈائجسٹ صفحہ دکھایا۔ اس میں انتظارحسین صاحب کا زاہد ڈار پر مضمون تھا۔ انتظار حسین اور زاہد ڈار کا بہت گہرا تعلق رہا، انہوں نے ڈار صاحب پر ایک بہت کمال خاکہ "فالتو آدمی" لکھا۔ اردو کے چند بہترین خاکوں میں یہ شمار ہوسکتا ہے۔ محمود الحسن اپنے ڈائجسٹ پیج کے لئے مختلف ادبی، علمی، معلوماتی تحریریں ڈھونڈ نکالتا ہے، نایاب، گم گشتہ خاکے، یاداشتیں وغیرہ۔ ڈائجسٹ پیج کی یہ تحریر معمول کی بھی ہوسکتی تھی، مگر اس کے ساتھ زاہد ڈار کی ایک نظم بھی تھی۔ اسے دیکھ کر ماتھا ٹھنکا۔ معلوم ہوا کہ ڈار صاحب دنیا سے رخصت ہوچکے۔ ویک اینڈ پر نجی مصروفیت زیادہ تھی، ہفتہ کو دفتر نہیں گیا، اخبارتک نہیں دیکھ سکا۔ اسی وجہ سے علم ہی نہیں ہوا۔ افسوس سے سوچا کہ کتابوں کے شائد آخری سچے عاشق، لاہور سے محبت کرنے والے زاہد ڈار بھی چلے گئے۔
زاہد ڈار ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی شرائط پر زندگی گزاری۔ زندگی سے ان کا کوئی مطالبہ تھا نہ ہی وہ اسے یہ اجازت دیتے تھے کہ کسی قسم کی پابندی لگائے۔ مکمل غیر جانبداری والا تعلق، جو کہانیوں، فلموں افسانوں والی بات لگے۔ فلموں کا ویسے ہی کہہ دیا، ورنہ آج کل فلمیں بھی مادیت پرستی کے گرد گھومتی ہیں، کیپیٹل ازم کی طرف بلانے، کھینچنے والی۔ کوئی زمانہ تھا جب دھیمے سروں والی آرٹ فلمیں نظر آ جاتی تھیں۔ ہمارے پڑوس میں شیام بینیگل، ستیہ جیت رائے، بمل رائے، گلزار جیسے ڈائریکٹروں کی بنائی ہوئی فلمیں۔ پی ٹی وی کے پرانے کلاسیک ڈراموں، لانگ پلے بھی ایسے ہی فسوں خیز تھے۔
زاہد ڈار کے بارے میں دو تین تحریریں پڑھیں، فکشن نگارمحترمہ آمنہ مفتی نے لکھا، پیارے حسنین جمال نے اپنی یادیں تازہ کیں، محترمہ فرح ضیاکا دس گیارہ سال پرانا مضمون ایک انگریزی اخبار میں چھپا، اس کا ترجمہ ثقلین شوکت نے کیا۔ زاہد ڈار انٹرویو نہیں دیتے تھے، فرح ضیا کو البتہ ان کے دو انٹرویو کرنے کے موقعہ ملے۔ سیدھی سادی، ڈرامائیت سے عاری زندگی گزارنے والے زاہد ڈار اسی وجہ سے انٹرویو نہیں دیتے تھے کہ میں نے ایسا کیا خاص کیا ہے جس کے بارے میں بولنا پڑے۔ وہ نظم کے عمدہ شاعر تھے، مگر چھپنے اور مشاعروں میں جانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی زندگی کی واحد دلچسپی کتاب پڑھنا تھی۔ اپنی ضرورتیں نہایت محدود کر رکھی تھیں۔ شادی نہیں کی کہ ملازمت کرنے اور کمانے سے دلچسپی نہیں تھی اورکمائی کے بغیر کوئی عورت شادی کے لئے تیار نہ ہوتی۔ زاہد ڈار کا ایک ہی شوق تھا کہ صبح سے شام تک کتاب پڑھی جائے، دوستوں سے گپ شپ، زندہ رہنے کے لئے تھوڑا بہت کھانا پینااور بس۔
زاہد ڈار نے بڑوں کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ علم وادب کے مشاہیر سے ان کا تعلق رہا۔ شاکر علی جیسے لیجنڈری مصوروں کے دوستوں میں سے تھے، ناصر کاظمی سے تعلق رہا، ساری ساری رات ناصر کے ساتھ پیدل چلنے یا آوارہ گردی میں گزار دیتے۔ اپنے دوستوں پر انہوں نے لکھا نہیں۔ ان کی نثری تخلیقات موجود ہی نہیں۔ ایک زمانے میں باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے، پھر فیصلہ کیا کہ زندگی میں کچھ نیا نہیں ہو رہا تو لکھنے کا کیا فائدہ۔ اپنی لکھی ڈائریاں بھی شائع نہیں کرائیں۔ سنا ہے کسی باذوق کو فٹ پاتھ کی پرانی کتابوں سے ان کی چند ڈائریاں ہاتھ آئی ہیں۔ ممکن ہے کسی روز شائع ہوجائیں۔ ڈار صاحب کی انتظار حسین سے قربت رہی، آخری برسوں میں ان کے گھر زیادہ وقت گزارا۔ اس سے قبل پاک ٹی ہائوس ان کا مسکن رہا۔ وہاں ان کی مخصوص میز تھی، انتظار صاحب کے بقول وہ اپنے ناپسندیدہ شخص کو وہاں بیٹھنے نہ دیتے، صاف معذرت کر لیتے۔ کوئی زبردستی بیٹھ جاتے تو اٹھ کر ٹی ہائوس کے باہر چلے جاتے، فٹ پاتھ پر کھڑے رہ کر انتظار کرتے کہ کب وہ ٹلے تو واپس ادھر جا کر بیٹھوں۔ انتظار حسین نے ان کے بارے میں مزے کی بات لکھی ہے کہ اردو شاعری میں بے عمل شاعرصرف زاہد ڈار ہی رہ گیا ہے، ورنہ سب شاعر اور سب ادیب زندگی کی دوڑ میں شامل ہیں۔ انتظار صاحب نے لکھا، زاہد ڈار کہتا ہے بعض ادیب ادب برائے ادب کے قائل ہیں، کچھ ادب برائے زندگی جبکہ میں زندگی برائے شاعری کا قائل ہوں۔ کتاب پڑھنا بھی زندگی برائے شاعری کے ذیل میں ہے۔
فرح ضیا کے مضمون میں زاہد ڈار کے انٹرویوز کے حوالے سے دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ ڈار صاحب کے مذہب، قومیت اور عوام وغیرہ کے حوالے سے خیالات غیر روایتی ہیں۔ اقتباس دانستہ نہیں دے رہا۔ بیٹھے بٹھائے کوئی فتویٰ ہی نہ جڑ دے، ہمارے ہاں سب سے ارزاں یہی چیز ہے۔ ایک مزے کی چیزانہوں نے انٹرویو میں بتائی، " جوانی میں رومان پسند تھا، محبت کے خیال سے محبت کرتا، مگر جب بھی کوئی موقعہ بنتا، لڑکی تان اسی پر ٹوٹتی کہ میں کوئی روزگار تلاش کروں، اس کے بعد ہی وہ شادی کے لئے رضامند ہوگی۔ میں نے تمام زندگی روزی روٹی کی پروا نہیں کی، میرے خیال میں پیار اپنا صلہ خود تھا۔"
میری زاہد ڈار سے کوئی ملاقات نہیں، ملنے ملانے میں طبعاً سست ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ کوئی صاحب مطالعہ شخص اپنے مطالعہ اور علم کے باوجود ہر چیز سے بے نیاز کیسے ہوسکتا ہے؟ دنیاوی ترغیبات، ملازمت وغیرہ کو ناپسند کرنا سمجھ آتا ہے، مگر تخلیق کار کو لکھنے کا کام تو مسلسل کرنا چاہیے۔ اپنے علم سے سماج کو فیض یاب کرنے کی اپنی سی سعی۔ اس کے باوجود میں اس کا قائل اور خواہش مند ہوں کہ سماج میں زاہد ڈار جیسے لوگوں کے لئے گنجائش ہونی چاہیے۔ ایسے لوگ جو اپنی شرائط پر زندگی گزارنا چاہیں۔ جو اپنے مزے، نشاط کی خاطر مطالعہ کریں، کتابوں کو زندگی کا حصہ بنائیں اور جی نہ چاہے تو کچھ بھی اظہار نہ کریں۔ یہ ان کا حق ہے۔ انہیں یہ حق اور تکریم ملنی چاہیے۔ کوئی تو ایسا ہو جو دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے الگ ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ گنجائش بالکل ختم ہوگئی ہے۔
زاہد ڈار ایسے ہی سچے، کھرے اور بے نیاز آدمی تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ لوگ تو اور بھی ہوں گے، مگر کم از کم دو کو میں جانتا ہوں۔ جناب سلیم الرحمان صاحب پچھلے چھ سات عشروں سے تخلیق میں مصروف ہیں۔ وہ سویرا جیسے اعلیٰ پایہ کے ادبی جریدے کے مدیر، کئی اہم کتابوں کے مترجم اور لکھاری ہیں۔ ہومر کی شہرہ آفاق کتاب" اوڈیسس "کا انہوں نے "جہاں گرد کی واپسی" کے نام سے کمال ترجمہ کیا۔ مشاہیر یونان اور جوزف کونریڈ کی کتاب کا ترجمہ ظلمت شب بھی انہی کی تخلیق ہے، ایک دلچسپ شگفتہ ہسپانوی ناولٹ کا ترجمہ بھی کیا۔ نظم کے بہت عمدہ شاعربھی ہیں۔ احمد جاوید صاحب کے بقول سلیم صاحب اکیسویں صدی کے بہت اہم اور بڑے نظم گو شاعر ہیں۔ ان کے کتابوں پر لکھے ریویو اپنی مثال آپ ہیں۔
سلیم الرحمن صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں جن سے میری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، مگر دل میں انکے لئے بے پناہ تکریم اور احترام ہے۔ وجہ وہی کہ انہوں نے اپنی شرائط پر زندگی گزاری۔ تمام عمر علمی، ادبی کاموں میں مشغول رہے۔ اپنی ضروریات اتنی محدود رکھیں کہ علمی مصروفیات میں خلل نہ پڑے۔ چند سال پہلے ان کا نام تمغہ حسن کارکردگی کے لئے تجویز کیا گیا، اس کے ساتھ نو دس لاکھ روپے نقد بھی دئیے جاتے ہیں۔ سلیم الرحمن صاحب نے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصولی موقف ہے کہ ادیب کو کسی بھی قسم کا حکومتی ایوارڈ نہیں لینا چاہیے۔ آج کے دور میں یہ افسانوی بات لگتی ہے کہ کوئی ادیب اپنی اس سچی کمٹمنٹ کی وجہ سے اتنا بڑا ایوارڈ اور ایک ملین کے قریب نقد رقم لینے میں دلچسپی نہ لے۔
سید قاسم محمود بھی ایسے ہی ایک شخص تھے۔ مجھے ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک دوست نے بتایا کہ ایک بار انہوں نے اپنے کالم میں سید قاسم محمود کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے دو تین دن بعد قاسم محمود سے کسی تقریب میں ملاقات ہوئی تو سید صاحب کھنچے کھنچے محسوس ہوئے۔ وہ صاحب حیران تھے، ان کا خیال تھا کہ کالم کی داد ملے گی، یہاں تو الٹ حساب ہوا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ سید قاسم محمود صاحب نے اس بات کا برا منایا۔ وہ بھی ادیب کی علم وادب سے سچی کمٹمنٹ کے قائل تھے اور اس ضمن میں حکومتی ایوارڈز لینے کے حق میں نہیں تھے۔ خوش قسمتی سے صحافیوں میں سے بھی اکا دکا سہی، مگر ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔ حسین نقی لیفٹ کے بڑے سینئر صحافی ہیں، اللہ ان کی صحت میں برکت عطا فرمائے، وہ بھی ایسے ہی کھرے اور اجلے شخص ہیں۔ لاہور پریس کلب کے ہر ممبر کو پنجاب حکومت کی جانب سے صحافی کالونی میں پلاٹ دیاگیا۔ یہ بطور پالیسی لاہور، اسلام آباد، ملتان ہر جگہ دیا گیا۔ اس میں سیاسی رشوت کا پہلو بھی شامل نہیں تھا۔ حسین نقی نے پلاٹ لینے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ذاتی گھر موجود ہے، اس لئے مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ آج کل اس پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ ایم اے نیازی نے بھی ایسا کیا۔ ایسا کرنا کوئی ضروری نہیں تھا، تاہم اگر کوئی یہ موقف اپنائے اور پھر اس کی خاطر اپنا مالی نقصان کرائے تواس کی تکریم بنتی ہے۔