Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Amrici Election, Trump Aur Kamala Harris Maarka Aarai

Amrici Election, Trump Aur Kamala Harris Maarka Aarai

امریکی الیکشن، ٹرمپ اور کملا ہیرس معرکہ آرائی

امریکی الیکشن کے حوالے سے ٹمپو بن رہا ہے اور دنیا بھر میں تجزیہ نگار بھی اس حوالے سے اپنی آرا دے رہے ہیں۔ تازہ ترین پیش رفت دس ستمبر کو ہونے والا کملا ہیرس، ڈونلڈ ٹرمپ پہلا مباحثہ (Debate)ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے باہمی ٹی وی پرمباحثہ کی خاصی طویل تاریخ ہے۔ روایت یہ ہے کہ دونوں امیدواروں سے میزبان سوال پوچھتا ہے اور وہ مختلف موضوعات (اکانومی، ٹیکسز، خارجہ پالیسی، تارکین وطن، اسقاط حمل وغیرہ)کے حوالے سے اپنی آرا یا اپنا پلان شیئر کرتا ہے۔ ان صدارتی مباحثوں کا اپنا ایک خاص تاثر تو بہرحال ہے اور ووٹرز پر بھی یہ کچھ نہ کچھ اثرانداز ہوتے ہیں، مگر ضروری نہیں کہ کسی مباحثہ میں بظاہر برتری لینے والا امیدوار الیکشن بھی جیت سکے۔

امریکہ کے صدارتی انتخابات ہر چار سال کے بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوتے ہیں، اس بار پانچ نومبر کا دن مقرر ہوا۔ امریکہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی ہیں۔ ڈیمو کریٹس نسبتاً زیادہ لبرل، پرو ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بھی (بظاہر)زیادہ حساس سمجھے جاتے ہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی ٹرانس جینڈر، ایل جی بی ٹی کی زیادہ حامی اور ان کے خیال میں خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہونا چاہیے، وہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس پر ٹیکسز کم کرنے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

ری پبلکن پارٹی نسبتاً زیادہ قدامت پسند، قدرے زیادہ مذہبی سمجھی جاتی ہے۔ مذہبی ریاستوں میں اس کا اثر زیادہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے بیشتر صدور فوجی آمروں کے ساتھ کمفرٹیبل رہے ہیں، وہ امیر کلاسز پر ٹیکس کم کرنے کے حامی ہیں، نچلے اور پسماندہ طبقات کے لئے زیادہ رعایات دینے کی عمومی طور پر مخالفت کرتے اور اینٹی امیگرنٹس موقف رکھتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے 2016 سے 2020ء تک صدر رہے ہیں، دو ہزار بیس کا الیکشن ٹرمپ ہار گئے، مگر وہ اس ہار کو دھاندلی قرار دیتے ہیں۔ اس بار بھی وہ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ہیں، یعنی ٹرمپ کا مسلسل یہ تیسرا صدارتی الیکشن ہے۔ یادرہے کہ موجودہ امریکی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص زندگی میں صرف دو بار ہی امریکی صدر بن سکتا ہے۔ ٹرمپ ری پبلکن امیدوار ہونے کے باوجود کوئی روایتی ری پبلکن کارکن یا رہنما نہیں۔ ان کی بہت سی آرکچھ زیادہ جارحانہ ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ امیگرنٹس کے حوالے سے بہت زیادہ سخت موقف رکھتے ہیں، ان کا پلان تھا کہ امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار بنائی جائے تاکہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے آنے والے میکسیکن لوگوں سے امریکہ کو محفوظ رکھا جائے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں تین قدامت پسند ججوں کا تقرر کیا، جو اسقاط حمل کے مخالف رائے رکھتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دو رمیں" سب سے پہلے امریکہ "کا تصور دیا اور کہا کہ امریکہ دوسروں کی جنگیں نہیں لڑے گا، ان کی اسی سوچ کی وجہ سے افغانستان سے امریکی انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔ ٹرمپ نے امریکی معیشت کو بھی بہتر کیا اور ان کی پالیسیوں کو امریکی صنعت کار اور کاروباری لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ ٹرمپ جو خود بھی ایک ارب پتی کاروباری ہیں، وہ بزنس کلاس پر ٹیکس شرح کم کرنے کے حامی ہیں۔

ٹرمپ کی شخصیت ایسی طاقتور، متنازع اور ہلا دینے والی ہے کہ اس نے زبردست حامی اور اتنے ہی زبردست مخالف پیدا کئے ہیں۔ ٹرمپ کی کئی آرا اور طرزعمل کے باعث کئی روایتی ری پبلکن لیڈر اور سابق ری پبلکن صدور تک حمایت سے گریز کر رہے ہیں۔ سابق صدر بش ان کی حمایت نہیں کر رہے جبکہ سابق نائب صدر ڈک چینی کی بیٹی کہہ چکی ہیں کہ ان کے والد ٹرمپ کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ کئی دیگر ری پبلکن سابق عہدے داران بھی ٹرمپ کے خلاف مہم میں شمولیت کا عندیہ دے چکے ہیں۔

ٹرمپ کی خواتین کے حوالے سے آرا اور بعض کمنٹس بھی بہت متنازع اور گھٹیا تصور کئے گئے، انہوں نے بعض خاتون صحافیوں کا بھی تمسخر اڑایا۔ وہ کئی بار نسل پرستانہ کمنٹس بھی دے دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انہیں بلا کا متلون مزاج یعنی گھڑی میں تولہ پل میں ماشہ ٹائپ شخص سمجھا جاتا ہے۔ اپنی حکومت میں کئی اہم عہدے داروں کو انہوں نے بیک جنبش زبان برطرف کر دیا تھا، ان سب لوگوں نے بعد میں ٹرمپ کے خلاف کتابیں لکھیں اور خوب بھڑاس نکالی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اصل طاقت ان کا سفید فام ووٹر ہے۔ انہوں نے امریکی سیاست میں اپنی ایک نئی آڈینس پیدا کی اور اس لوئر مڈل کلا س اور لیبر کلاس سفید فام امریکی آبادی کے اینٹی امیگرنٹس جذبات، سوچ اور تلخی کو آواز دی۔

دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخاب میں تمام بڑے میڈیا اداروں کے سروے اورغیر جانبدار پولز ٹرمپ کے خلاف تھے۔ اندازہ یہی تھا کہ وہ ہار جائیں گے، مگروہ صدر بن گئے۔ تب اس پر لمبی چوڑی بحث ہوئی کہ کہاں غلطی ہوئی اور سی این این جیسے ادارے بھی درست پیش گوئی کرنے میں ناکام ہوگئے۔ پھر یہ تجزیہ کیا گیا کہ ٹرمپ کے ووٹروں میں ایک حلقہ ایسا ہے جو ان بڑے میڈیا ہائوسز کے سروے کو اہمیت نہیں دیتا اور درحقیقت ان کی رسائی سے باہر ہے اور اسی ایکس فیکٹر نے ٹرمپ کو صدر بنوا دیا۔ صدر ٹرمپ نے بعد میں اس طبقے کے لئے خاصا کچھ کیا اور اکانومی بہتر کی، ملازمتیں واپس لے آئے وغیرہ۔

صدر ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ رویے، تلّون اور بغیر سوچے سمجھے عجلت میں فیصلے کرنے کے سٹائل نے سنجیدہ امریکی طبقات اور جمہوری حلقوں کوخاصا پریشان اور مضطرب بھی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ سے خوفزدہ رہتی تھی کہ وہ کسی وقت کچھ بھی ٹوئیٹ کر سکتے ہیں۔ ان کے انتظامیہ کے بعض اہم ذمے داران نے مبینہ طور پربعض امریکی سفیروں اور کچھ دیگر لوگوں کو بالواسطہ یہ پیغام دیا کہ صدر ٹرمپ کے بعض احکامات کو نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے جو احمقانہ لگیں یا امریکی قومی سلامتی کے خلاف ہوں وغیرہ وغیرہ۔ الیکشن کے بعد ٹرمپ کے حامیوں کا کیپٹل ہل پر حملہ امریکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، صدر ٹرمپ پر اس حوالے سے کئی مقدمات بھی چلتے رہے ہیں، ان پر حساس امریکی دستاویزات اپنے ساتھ گھر لے جانے کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ ویسے یہ تمام مقدمات سردست الیکشن تک ہولڈ کر لئے گئے ہیں، یہ رعایت ٹرمپ کو امریکی اعلی عدالتوں سے ملی ہے۔ ٹرمپ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں ٹرمپ حامی ججز ہیں۔

یہ بیک گرائونڈ اس لئے دیا تاکہ آپ کو آگے جا کر سمجھ آسکے گی کہ ٹرمپ اور ہیرس مباحثے کے مرکزی نکات ماضی سے جڑے کیوں تھے؟ یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ انتخابی حکمت عملی کیا ہے اور ایسا کیوں کیا گیا؟

ڈیمو کریٹک امیدوار کملا ہیرس اس وقت امریکہ کی نائب صدر ہیں، وہ صدر جو بائیڈن کے ساتھ دو ہزار بیس کا الیکشن جیتی تھیں۔ کملا ہیرس ہاورڈ یونیورسٹی سے گریجوائٹ ہیں، ان کا تعلق آک لینڈ کیلی فورنیا سے ہے۔ وہ قانون دان اور کیلی فورنیا سے سینیٹر اور پھر اٹارنی جنرل بھی رہی ہیں۔ کملا ہیرس کی والدہ ایک انڈین نژاد بیالوجسٹ، ریسرچ سائنسد ان ہیں جبکہ ان کے والد کا تعلق جمیکا، ویسٹ انڈیز سے تھا، وہ ایک پی ایچ ڈی اکنامکس سکالر ہیں اور پہلے سیاہ فام تھے جنہیں سٹین فورڈ یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھانے کا موقعہ ملا۔ کملا ہیرس سات سال کی تھیں جب دونوں کے والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ کملا ہیرس امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر، پہلی افریقن امریکن نائب صدر، پہلی ایشین امریکن نائب صدر ہیں۔ ان کی والدہ کا انڈیا، ایشیا اور والد کا جمیکا، ویسٹ انڈیز سے تعلق انہیں ایشیائی اور دیگر تارکین وطن کے ساتھ ساتھ امریکہ کی کلرڈ اور افریقن امریکن کمیونٹی کے لئے پرکشش بنا دیتا ہے۔

روایتی طور پر اگر امریکی صدر اپنی دوسری مدت کے لئے الیکشن لڑنا چاہے تو پارٹی اسے سپورٹ کرتی ہے، اس بار بھی موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار بن چکے تھے۔ بائیڈن اپنی زیادہ عمر، خراب صحت اور کسی حد تک یاداشت کے مسائل کی وجہ سے خاصی تنقید کا سامنا کرتے رہے۔ انتخابی مہم میں ٹرمپ اور ان کے کمپین پلانرز نے اسی چیز کو ٹارگٹ کیا، سلیپنگ جو (سویا ہوا جو بائیڈن)کی اصطلاح بنائی گئی، ٹرمپ جو بائیڈن پر سخت تنقید کرتے اور انہیں سست، نااہل قرار دیتے۔ جولائی میں ٹرمپ بائیڈن مباحثہ ہوا جس میں جو بائیڈن بری طرح ایکسپوز ہوگئے، وہ ٹرمپ کے تیز کاٹ دار جملوں کا جواب نہ دے پائے اور ازحد تھکے ہوئے اور سست نظر آئے۔

تب یہ واضح ہوگیا کہ اگر بائیڈن ڈیمو کریٹک امیدوار رہے تو ٹرمپ کے لئے یہ واک اوور ہوگا، وہ آسانی سے جیت جائیں گے۔ پارٹی نے دباو ڈال کر یا منت ترلا کرکے بائیڈ ن کو دستبردار کرایا اور پھراگست میں ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن نے کملا ہیرس کو باقاعدہ صدارتی امیدوار بنا دیا۔ تب سے انتخابی صورتحال تبدیل ہوچکی، اکثر سروے رپورٹس میں کملا ہیرس کوفی الوقت ٹرمپ پر کسی قدر برتری حاصل ہے۔

دس ستمبر کے ٹرمپ، ہیرس مباحثے میں کیا ہوا، کون ہارا، کون جیتا، اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اس پر ان شااللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔

Check Also

Optimism Yani Rijaeat Pasandi

By Maryam Arshad