آل پارٹیز کانفرنس، کس کو کیا ملا؟
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس(اے پی سی)پر چاہے تنقید کی جائے یا اس کی ستائش، اس نے کچھ اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس کی اہمیت سے انکار کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ چار پانچ مختلف پہلو ہیں، ان پر بات کرتے ہیں۔
اے پی سی کا اپوزیشن کو سب سے بڑا فائدہ یہ ملا کہ نیم مردہ، زندگی سے محروم حزب اختلاف میں جان پڑ گئی ہے۔ ان میں زندگی، تحرک کا احساس پیدا ہوا ہے۔ پچھلے دو برسوں میں اپوزیشن قیادت کایہ سب سے نمایاں سیاسی اکٹھ تھا۔ اس بار اپوزیشن کا موڈ زیادہ سنجیدہ، جارحانہ لگا۔ ان کا روڈ میپ بھی واضح ہے اور یہ نظر آ رہا ہے کہ سینٹ کے انتخابات یعنی مارچ سے پہلے پہلے وہ ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا بحران جس کے نتیجے میں اسمبلیاں ٹوٹ جائیں، نئے الیکشن ہوں یا کم از کم حکومت کی موجودہ شکل اور موجودہ چہرے تبدیل ہوجائیں۔ جب ہدف کا اعلان ہوجائے توکارکنوں کے لئے ابہام ختم ہوجاتا ہے۔
اے پی سی بنیادی طور پر مسلم لیگ ن کا شورہا۔ ن لیگ پچھلے دو برسوں میں شدید قسم کے کنفیوژن اور دو عملی کا شکار رہی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف کے مفاہمت فارمولا کے تحت سیاست ہوگی، کبھی مریم نواز شریف درپردہ ڈوریاں ہلاتی نظر آتیں۔ اے پی سی نے یہ کنفیوژن دور کر دیا۔ اب مسلم لیگ ن میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ ہی آگے بڑھے گا۔ میاں نواز شریف خاصے عرصے کے بعد بولے، کھل کر بولے اور انہوں نے اپنے سیاسی کارڈز شو کر دئیے۔ ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام کارڈز ظاہر کر دئیے کہ وہ اپنے کچھ پتے سینے سے لگا کر محفوظ رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اپنا مستقبل قریب کا لائحہ عمل بتا دیا۔ ن لیگ آل آئوٹ وار کی طرف جا رہی ہے۔ گاڈ فادر(God Father) کا لفظ سنتے ہی ن لیگی کارکنوں کے ماتھے پر ناگواری کی شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ انہیں اس لفظ ہی سے نفرت ہوگئی ہے۔ میرا چڑانے کا قطعی ارادہ نہیں، ویسے ہی گاڈ فادر ناول یاد آگیا۔ ماریاپوزوکا یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
گاڈفادر ناول میں ایک مرحلہ پر جب ڈان ویٹو کارلیون شدید زخمی ہو کر کئی مہینے بستر پر رہتا ہے، اس کی غیر موجودگی میں ڈان کے گروہ اور دیگر تنظیموں میں لڑائی چل رہی تھی۔ ڈان کا بیٹا سونی ایک اطالوی اصطلاح استعمال کرتا ہے، گو ٹو دی میٹریسز(go to the mattresses)۔ اس کا سادہ لفظی اور لغوی مطلب ہے کہ اب نان سٹاپ لڑائی ہوگی، جنگجو اپنے گھر بار چھوڑ دیں گے، وہ مختلف خفیہ ٹھکانوں پر میٹریس یعنی زمین پر گدا بچھا کر سو جائیں گے، مگر ہر حال میں جنگ جاری رکھیں گے۔ مسلم لیگ ن نے یہی اعلان کیا ہے، اب ان کے لیڈروں کے عزم، سیاسی قوت، تنظیم اور کارکنوں کے جذبے کا امتحان ہوگا۔ ن لیگی کچھ کر دکھاتے ہیں یا ناکافی کوشش کے بعدچھترول کے حقدار ٹھیرتے ہیں یا پھر گونگلوئوں سے مٹی اتارنے والا تاثر دے کر پرانی تنخواہ پر کام کریں گے؟ تینوں آپشنز میں سے ایک جلد سامنے آ جائیگی۔
شہباز شریف صاحب کودھچکا لگا ہے، ان کی سیاسی اتھارٹی اور گرفت اب بری طرح متاثر ہوگی۔ پچھلے دو برسوں سے وہ اپنا مفاہمت والا فارمولا چلانے کی کوشش کرتے رہے، ان پر تنقید بھی ہوئی۔ شہباز شریف صاحب اپنے انداز سے لگے رہے۔ شہباز شریف سٹائل آف پالیٹکس کی ایک کامیابی تو سب کے سامنے ہے کہ میاں نواز شریف جیل میں مقید ہونے کے باوجود لندن پہنچ گئے۔ ڈیل تھی، نہیں تھی، کس نے کرائی، کس نے سہولت کاری کی، ان تمام باتوں کو رہنے دیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف باہر چلے گئے اور کئی ماہ تک خاموش رہے، ان کی عدم موجودگی میں مریم نواز شریف نے کئی ماہ تک خاموشی کی چادر اوڑھے رکھی۔
بدقسمتی سے شہباز شریف کے کریڈٹ پر کامیابی یہی ایک رہی۔ مفاہمانہ رویے کے باوجود اپنے صاحبزادے کو رہا کرانے میں ناکام رہے۔ مریم نواز بھی باہر نہ جا سکیں۔ نیب کا گھیرا مسلم لیگی لیڈروں کے گرد تنگ ہوتا گیا۔ شہباز شریف عملی طور پر ناکام ٹھیرے۔ اب مسلم لیگ میں شہباز شریف فارمولہ نہیں، نوازشریف صاحب کا بیانیہ اور سیاسی ایجنڈا ہی چلے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹکرائو کی اس سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلانیہ جنگ میں شہباز شریف کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ وہ بادل ِنخواستہ جارحانہ سیاست کا حصہ بنتے ہیں یا پھر آگ کے شعلوں سے بچ کراندر چلے جانے کو ترجیح دیں گے، جہاں ان کا فرزند ارجمند پہلے ہی موجود ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی نے سمجھداری سے اپنے پتے کھیلے۔ اے پی سی کو آرگنائز کیا، مین سٹیج حاصل کیا۔ میاں نواز شریف کو جارحانہ تقریر کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ خود مگر وہی غلطی نہیں کی، زرداری صاحب نہ بھٹو بننے کے خواہشمند بلاول نے آتشی تقریر کی۔ انہوں نے ریڈ لائنز کراس نہیں کیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں پیپلزپارٹی نے اپنی بارگیننگ پاور بہتر کی ہے۔ مقتدر قوتوں کو پیغام دیا کہ دیکھیں ہم انتہا تک نہیں گئے، شہباز شریف کی طرف دیکھنے کے بجائے ہماری طرف دیکھتے تو آپ کو زیادہ فائدہ ہوتا۔ پیپلزپارٹی کے موجودہ سسٹم میں خاصے سٹیکس (Stakes)ہیں۔ ان کے پاس سندھ کی حکومت ہے، سینٹ کے انتخابات سے بھی پیپلزپارٹی کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ پہلے بھی انہیں سندھ اسمبلی ہی سے سیٹیں ملتی تھیں، اس بار بھی کم وبیش اتنی نشستیں مل جائیں گی۔ اندازہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی احتجاجی جلسوں میں جائے گی، مگر سسٹم گرانے میں پیش پیش نہیں ہوگی۔ زرداری صاحب " بات چیت "کے لئے بھی دستیاب رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کی خواہشات تو پوری نہیں ہوئیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اپوزیشن جنگ کے انتہائی شدت والے فیز پر فوراً پہنچ جائے۔ مطالبہ تھا کہ اسمبلیوں سے استعفا دیا جائے۔ یہ بات نہیں مانی گئی۔ مولانا فضل الرحمن واحد شخص ہیں جو پہلے دن سے اس سسٹم کو گرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کا بے لچک شدت پسندانہ موقف کم ہی لوگو ں کو متاثر کر پایا۔ وہ چونکہ خود اسمبلیوں سے باہر ہیں، اس لئے کوشاں رہے کہ باقی سب ان اسمبلیوں سے باہر آ جائیں۔ دو سال مولانا نے نجانے کس کرب میں کاٹے ہیں۔ انہیں البتہ یہ اطمینان ہوگا کہ چلیں دیر سے سہی، مگر اپوزیشن احتجاجی تحریک کی طرف جا رہی ہے۔ ان کی نظریں جنوری کے لانگ مارچ پر ہوں گی۔ یہ الگ بات کہ سرد ترین موسم میں لانگ مارچ اور دھرنادینا کس حد تک عملی تجویز ہے؟
قوم پرست جماعتیں اے پی سی کا حصہ تھیں۔ اختر مینگل کے بارے میں بتایاگیا کہ وہ بوجہ علالت شامل نہیں ہوسکے۔ مینگل صاحب نے لگتا ہے فوری ٹکرائو سے گریز کی کوشش کی۔ محمود اچکزئی صاحب کو بلوچستان میں، اے این پی کو خیبر پختون خوا میں بری طرح شکست ہوئی تھی، وہ الیکشن کے زخم خوردہ ہیں، ویسے بھی وہ میاں نواز شریف کے سیاسی اتحادی تھے۔ اسی صف میں اب شیرپائو صاحب بھی شامل ہیں۔ جماعت اسلامی اپوزیشن میں ہے، مگر اس نے اے پی سی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے حالیہ ایڈونچر سے سبق حاصل کیا اور اب وہ اپنے طریقے سے سیاست کرنا چاہ رہی ہے۔ وہ حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی حکومت گرانے والے اتحاد میں شامل۔ جماعت کے لئے یہ اچھا موقعہ ہے کہ پاورپالیٹیکس سے وقتی دوری میں نظریاتی تشخص پر فوکس کرے، تنظیم سازی کرے اور کارکنوں کی نئی پنیری لگانے کی کوشش کرے۔
تحریک انصاف اے پی سی کا ہدف تھی یا یہ کہہ لیں کہ دو اہداف میں سے ایک۔ اے پی سی کا مقصد ان کی حکومت ختم کرنا ہے، مگر اس اجتماع سے دو فائدے تحریک انصاف کو بھی ملے۔ عمران خان نے ایک بہت اچھی سیاسی چال چلتے ہوئے نواز شریف صاحب کی تقریر کو لائیونشر ہونے دیا۔ یہ خود ن لیگ کے لئے غیر متوقع تھا۔ نواز شریف صاحب کو ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ تقریر براہ راست نشر ہوگی۔ ان کی اس تقریر کے بعد عمران خان اور ان کے سیاسی اور "غیر سیاسی اتحادی " ایک ہی صفحے پر آ گئے۔ اے پی سی اور ان کے احتجاجی تحریک کو ناکام بنانا اب صرف عمران خان کا مسئلہ نہیں رہا۔
وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو البتہ پینک (Panic)ہونے سے گریز کرنا ہوگا۔ تحمل کے ساتھ اپوزیشن کو سیاسی طور پر ناکام بنائیں۔ ایجی ٹیشن کی سیاست کے ہزار نقصان ہیں، ایک فائدہ بھی ہے کہ اندرونی اختلافات ختم ہونے کے ساتھ کارکن چارج ہوجاتے ہیں۔ یہ صرف اپوزیشن کے ساتھ نہیں بلکہ حکومتی جماعت میں بھی ہوگا۔ ایک اور نکتہ حکومت کے حق میں جائے گا کہ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی اتنا جلدی دوبارہ الیکشن لڑنے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ ان کی یہی خواہش ہوگی کہ سسٹم زیادہ نہیں تودو ڈھائی سال مزید چلتا رہے۔ اپوزیشن کی ممکنہ تحریک کا بالواسطہ فائدہ حکومت کو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اپنی گورننس بہتر کرے۔ اپوزیشن مضبوط نہ ہو تو حکومتیں بھی پرفارم نہیں کرتیں۔ معاشی حالات لاکھ خراب سہی، مگر آنے والے دنوں میں وزیراعظم کو عوام کے لئے ریلیف پیکیج کا اہتمام کرنا ہوگا۔ چینی اور آٹا سستا نہیں کرسکتے تو پٹرول کی قیمت ہی کچھ گھٹا دیں، یوٹیلیٹی بلز میں کمی کر دیں۔ ایسا وہ کر گزرے تو اسکے سیاسی ثمرات بھی سمیٹ لیں گے۔