ایک ایرانی لوک کہانی
کہتے ہیں کسی شہر میں ایک بڑے میاں اور ان کی بدمزاج، ناشکری بوڑھی بیوی رہتی تھی۔ غربت کے مارے انہیں ایک پرانی پن چکی میں رہنا پڑا، عمارت خستہ حال تھی، بارش ہوتی یا برف پڑتی تو چھٹ ٹپکنے لگتی۔ اتنے میں اس نے سنا کہ وہی سنہری پرندہ انسانی زبان میں گفتگو کر رہا ہے۔ پرندے نے کہا، "بڑے میاں! مجھے معلوم ہے کہ آپ برسوں سے مجھے پکڑنے کے چکر میں تھے، آج کامیاب ہوگئے، لیکن میرے چھوٹے بچے ہیں، انہیں چوگا کھلاتا ہوں، مہربانی کرکے مجھے چھوڑ دیجئے، آپ کی جو بھی خواہش ہوگی، وہ میں پوری کر دوں گا، میں آپ کو ایک ایسا تحفہ دوں گا، جو چاہیں گے وہ ہوجائے گا"۔
بڑے میاں کی یہ سن کر بانچھیں کھل گئیں، انہوں نے سنہری پرندے کو آزاد کرتے ہوئے کہا، میں اپنی تکلیف دہ زندگی کے مسائل کم کرنا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی پرسکون گھر میں رہوں۔ سنہری پرندے نے کہا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی بیوی کے ساتھ میرے پیچھے آئیے۔ سنہری پرندہ انہیں جنگل میں لے گیا، وہاں درختوں میں گھرا ایک دروازہ دکھائی دیا۔ پرندے نے پروں کے اشارے سے دروازہ کھولا۔
تینوں اندر گئے تو دیکھا کہ اندر ایک بڑا بڑا سجا سجایا حسین کمرا تھا۔ لمبا چوڑا صحن، جس میں پھولوں، پھلوں کے پودے لگے ہوئے تھے۔ بہت اچھا باورچی خانہ اور ایک چھوٹا کمرہ بھی موجود تھا۔ بڑے کمرے میں شکاریوں کا ایک لباس بھی آویزاں تھا، غرض ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود تھی۔ پرندے نے کہا کہ یہ آپ کا نیا گھر ہے، یہاں آرام سے رہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا ایک پر انہیں دیا اور کہا کہ جب بھی مجھ سے کوئی کام ہو، اس پر کو ذرا سا جلا دیجئے، میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا۔ بوڑھے اور بڑھیا نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ پرندہ پھر سے اڑ گیا اور دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی اس خوبصورت گھر میں رہنے لگے۔
ان کی زندگی اب بدل گئی۔ بڑے میاں روزانہ شکاریوں والا دیدہ زیب مخصوص لباس پہن کرشکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی اچھا شکار مل جاتا، گوشت بھون کر کھاتے اور موج کرتے۔ کسی سے انہیں کوئی کام پڑتا نہ ہی کوئی ان کے ہاں آتا۔ دو چار سال یوں گزرے تو بڑھیا آہستہ آہستہ اکتانے لگی۔ ایک دن وہ خاوند پر برس پڑی، "آخر ہم لوگ کب تک اس بیاباں میں رہتے رہیں؟ جنگل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم جنگلی ہوتے جا رہے ہیں، جیسے کوے، طوطے، شیر، چیتے ہمارے دوست، رشتہ دار ہوں"۔
بابا جی نے اسے سمجھایا، بھلی مانس سکون سے زندگی گزر رہی ہے، گزرنے دے، یاد نہیں کہ اس ٹوٹی چھت والی چکی میں کیا گزرتی تھی؟ سارا دن بالٹیاں بھر بھر کے پانی باہر نکالنا پڑتا تھا؟ بڑھیا نے کہا، نہیں نہیں، یہ کوئی بات نہیں، انسان کو بہتر سے بہترین کا سفر کرنا چاہیے۔ تم ابھی سنہری پرندے کو بلاؤ کہ ہمارا کچھ کرے۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر وہ پر نکالا، اسے ذرا سا جلایا، چند ہی لمحوں میں سنہری پرندہ آن پہنچا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔ بابا جی نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیاکہ اس سے پوچھو۔ بڑی بی پھٹ پڑی، کہنے لگی کہ جنگل میں ہم پڑے ہیں، زندگی کا مزا ہی نہیں رہا، ہمیں کسی شہر میں لے جاؤ تاکہ ہم شہری زندگی سے لطف اندوز ہوں۔
سنہری پرندے نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، وہ انہیں ایک شہر میں لے گیا، وہاں پہلے سے زیادہ خوبصورت، سجاسجایا ایک گھر ان کے حوالے کیا۔ گھر میں غلام، کنیزیں، مالی سب موجود تھے۔ ان کی شہری زندگی شروع ہوگئی۔ کچھ عرصہ یوں گزر گیا، دونوں میاں بیوی مزے کرتے رہے۔ پھر بڑی بی کو خیال آیا کہ زندگی میں کچھ مزے مزید لینے چاہیں، اختیارات، طاقت کا مزا بھی چکھنا چاہیے۔ اس نے خاوند پر زور دے کر پرندے کو بلایا اور فرمائش داغ دی کہ ہمیں شہر کا حاکم بنوا دو، ہمارے پاس تمام اختیارات ہوں، سب پر ہمارا حکم چلے۔ سنہری پرندے نے اس بار بھی انکار نہ کیا اور انہیں ایک قلعے میں لے گیا۔ دیکھا کہ بڑا شہر ہے، حاکم کے محل میں پہنچے تو وہاں وزیر، مشیر، درباری سب موجود تھے، انہوں نے بوڑھے جوڑے کا استقبال کیا اور کہا کہ آج سے حکومت آپ کریں گے۔
حکومت تو خیر انہوں نے کیا کرنی تھی۔ وزیر ذمہ داریاں سنبھالتا، جبکہ بڑی بی روزانہ ملازموں، درباریوں پر حکم چلاتی اور اپنی طاقت حاصل کرنے کی حس سے تسکین پاتی۔ ایک روز کنیزوں نے بڑھیا کو پانی کی بجائے خالص دود ھ سے غسل دیا تاکہ اس کی بوڑھی جلدنرم وملائم اور تازہ رہے۔ بڑی بی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھی تھی کہ اچانک ایک بادل دھوپ کی راہ میں حائل ہوگیا۔ تنک مزاج بڑھیا جھنجھلا گئی، اس نے پہلے تو بادلوں کو خوب صلواتیں سنائیں، جنہیں اتنی جرات ہوگئی کہ سورج کی شعاؤں کو اس تک نہ پہنچنے دیں۔ پھر اس نے بڑے میاں پر چڑھائی کی، اسے سخت سست کہا اور مطالبہ کیا کہ فوری طور پر سنہری پرندے کو بلایا جائے، وہ مزید طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کم بخت بادلوں کو اتنی جرات نہ ہوسکے۔
بڑے میاں نے پریشان ہو کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ طاقت کی ہوس ٹھیک نہیں، غیر مشروط، لامحدود اختیارات اور قوت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو میسر ہے، اس پر گزارہ کرو، یہ کم نہیں ہیں، ان سے لطف لو، مزید آگے بڑھنے کی خواہش نقصان نہ دے۔ بڑی بی کی تیوریاں چڑھ گئیں، تیکھی نظروں سے اس نے خاوند کو دیکھا اور کہا کہ نہیں مجھے تو مزید طاقت اور اختیارات چاہئیں۔ میں سنہری پرندے کو بلوا کر زمین وآسمان کے اختیارات اپنے ہاتھ میں کرنا چاہتی ہوں تاکہ ہر جگہ میرا حکم چلے۔ بڈھے کھوسٹ، فوراً پرندے کو بلاؤ۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر پرجلایا اور سنہری پرندے کو بلایا۔ اس کے آنے پر بڑھیا نے فرمائش کی کہ بادل نے آ کر میری دھوپ کا راستہ روکا، میں چاہتی ہوں کہ زمین وآسمان کی ہر چیز پر میرا حکم چلے۔
سنہری پرندے نے کہا، ٹھیک ہے، آپ میرے پیچھے پیچھے آئیے۔ دونوں چل پڑے۔ اچانک آندھیاں چلنے لگیں، اندھیرا چھا گیا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ خاصی دیر ہوگئی تھی۔ پرندے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بڑے میاں اور بی بڑھیا کی آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ دوبارہ سے اپنی پرانی، خستہ حال پن چکی میں پہنچ چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہوگیا کہ معاملہ بگڑ گیا ہے اور ایسا بگڑا کہ اب ٹھیک بھی نہیں ہوسکتا۔ بڑے میاں نے طنزیہ انداز میں بیوی کو کہا، لو بھئی، اصل اختیارات مبارک ہوں۔ اب ذرا جلدی سے بالٹی اٹھاؤ اور کچھ پانی باہر پھینکو تاکہ ہمارے بیٹھنے کی جگہ تو بنے۔
(یہ ایک خوبصورت ایرانی لوک کہانی ہے جس کا حوالہ چند برس پہلے بھی اپنے کالم میں دیا۔ معین نظامی صاحب نے ایرانی لوک کہانیوں کی اس کتاب کا ترجمہ کیاہے۔ اس میں کہانی سنہری پرندہ مجھے ہمارے آج کل کے حالات کے حوالے سے بہت دلچسپ اور متعلق (Relevent) لگی۔ ضروری نہیں کہ اسے سیاسی تناظر میں لیا جائے، اس کا غیر سیاسی استعمال بھی خوب ہے۔ ہم لوگ اپنی زندگیوں میں کبھی کچھ مل جانے پر اکتفا نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں پچھلا بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔)