Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Afghan Taliban, Chand Mughalte, Mubalghe

Afghan Taliban, Chand Mughalte, Mubalghe

افغان طالبان، چند مغالطے، مبالغے

افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ ہونے کے فوراً بعد ہی افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے آنے والے منفی ردعمل نے کئی اہم سوالات پیدا کئے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ اس امن معاہدہ سے افغانستان میں امن پیدا ہونے کی جو خواہش پیدا ہوئی تھی، وہ اتنا جلد شائد پورا نہ ہو، ابھی کچھ مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معاہدہ بنیادی طور پر امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہوا اور طالبان صرف امریکی فوجوں پر حملہ نہ کرنے کے پابند ہیں، جبکہ افغان حکومت اور دیگر اہم دھڑے مستقبل کے افغان سیٹ اپ میں اپناشیئر لینے کے لئے ہاتھ پائوں ماریں گے۔ اپنی بارگیننگ پاور بہتر بنانے کے لئے بھی کچھ سخت رویہ اپنایا جاتا ہے، اس لئے کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ افغانوں کا اپنا خاص مزاج ہے، وہ اپنے جھگڑے اپنے سٹائل سے نمٹاتے ہیں۔ یہ کام انہیں ہی کرنے دینا چاہیے۔ امن معاہدہ کے بعد افغان طالبان کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے جارہے ہیں، دیرینہ فکری مغالطے بھی ایک بار پھر نمایاں ہو گئے۔ ان پر بات کرتے ہیں۔

طالبان کی فتح کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ ہمارے ہاں ایک حلقے کا اعتراض یہ ہے کہ امن معاہدہ تو چلو ہوگیا، مگر اس میں طالبان کی فتح کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟ انہیں ہیرو بنانے، گلوریفائی کرنے، سحر انگیز قصے بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حلقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر افغان طالبان کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ کوئی مسلکی بنیاد پر طالبان کا مخالف ہے تو کسی کو ان کا مذہبی یا مولوی ہونا پسند نہیں، بہت سے لوگ ماضی میں طالبان حکومت کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے ان کے مخالف ہیں، امریکہ کے خلاف طالبان کی دو عشروں پر محیط جدوجہد بھی انہیں نرم نہ کر سکی۔ ہمارے انگریزی پریس میں لکھنے والے ایک خاص لبرل/سیکولر سوچ کے زیراثر لکھتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، ہر ایک کو اپنی پسند کے نظریے کے تحت لکھنے کا حق ہے، مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمارے لبرلز، سیکولرسٹ پاکستان کے حوالے سے چند فکری مغالطوں کا شکار ہیں، اپنی اسی عینک سے جب وہ افغان / طالبان ایشو کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی انہیں دھندلا نظر آتا ہے۔ وہ مغالطہ آمیز اور مبالغہ آمیز نتائج ہی اخذ کر پاتے ہیں، نامکمل، ادھورے، تشنہ، گاہے یکسر غلط۔

یہ حلقہ افغان طالبان کی پچھلے بیس برسوں سے مخالفت کرتا آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہرگز افغان طالبان سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ طالبان مخالف حلقہ مسلسل یہ لکھتا، کہتا رہا کہ افغان طالبان کبھی امریکہ سے نہیں جیت سکتے۔ اب جبکہ افغان طالبان کامیاب ہوگئے، امریکی انہیں شکست دینے میں ناکام رہے اور باہر نکلنے کے لئے مجبوراً یہ امن معاہدہ کیا۔ اس حقیقت نے طالبان مخالف حلقے کو ایسی ہزیمت، ندامت سے دوچار کیا ہے کہ وہ فوری طور پر کوئی نیا بیانیہ تخلیق کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ طالبان کی فتح یا کامیابی کی بات کہنا اسی لئے انہیں ناگواراور تکلیف دہ لگتا ہے۔ حقیقت مگر بدل تو نہیں سکتی۔ یہ آج کا سچ ہے کہ امریکہ افغان طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ مورخ اس جنگ کا تجزیہ کریں گے توافغان طالبان کو فاتح ہی قرار دیں گے۔ یہ درست کہ افغان طالبان امریکہ کو ویسی شکست نہ دے سکے جیسی انہیں ویت نام میں ہوئی۔ طالبان مگر آخری تجزیے میں فاتح ہی ٹھیرے۔ نامور امریکی ماہر خارجہ امور ڈاکٹر ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ریگولر آرمی اگر کسی گوریلا تحریک کا خاتمہ نہ کر سکے تو گوریلا جنگجوئوں کے وجود کا باقی رہ جانا درحقیقت ریگولر آرمی کی شکست ہے۔ اس پیمانے پر پرکھا جائے توہمیں جواب مل جائے گا۔

طالبان کی فتح کیوں اہم ہے؟ طالبان مخالف حلقے کا مسئلہ تو طالبان اور ان کے نظریات ہیں، تاہم یہ صرف ایک تنظیم یا تحریک کا معاملہ نہیں۔ یہ صرف طالبان بمقابلہ امریکہ کا ایشو نہیں۔ یہ اپنے عہد کی سب سے بڑی فوجی، معاشی سپرپاور کے سامنے ناکافی وسائل رکھنے والے ایک گروہ کی کامیابی ہے، جس کے پاس ٹیکنالوجی تھی نہ ہی اسے دیگر عالمی قوتوں کی سپورٹ حاصل تھی۔ اپنے جذبے اور اچھی حکمت عملی کے ساتھ یہ کامیاب گوریلا جنگ لڑی گئی۔ پاکستان کی( درپردہ) مدد کے سوا دنیا بھر میں کہیں سے طالبان کو باقاعدہ مدد نہیں ملی۔ اسی کے عشرے میں سوویت یونین کو افغان مجاہدین نے امریکہ، مغربی دنیا، عرب بلاک اور پاکستانی ریاست کی اعلانیہ حمایت کے ساتھ شکست دی۔ ویت نام میں امریکی شکست کے پیچھے ویت نام گوریلوں کو روس اور چین کی بھرپور مالی، عسکری مدد کارفرما تھی۔ اس لحاظ سے افغان طالبان کی کامیابی منفرد ہے اوریہ دنیا بھر میں سامراج کے خلاف مزاحمت کرنے والے بے وسیلہ فریڈم فائٹرز کے لئے تقویت کا باعث بنے گی۔ طالبان کی سوچ، ان کے فہم دین، ان کے قبائلی مزاج، طرز حکومت سے مجھے، آپ کو، کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ ملک پر قابض غیر ملکی افواج کے خلاف کامیاب مزاحمت بہرحال ان کا ایسا کریڈٹ ہے، جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔

ایک اور بہت اہم بات جس کا ہمارے ہاں تذکرہ نہیں ہوتا، وہ افغانستان کے دوسرے نسلی گروہوں تاجک، ازبک، ہزارہ وغیرہ کا امریکی قبضے کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے آگے سرنڈر ہوجانا ہے۔ روس کے خلاف تحریک مزاحمت میں افغانستان کے تمام نسلی گروہوں نے مزاحمت کی اور قربانیاں دیں۔ اس بار یہ قربانیاں صرف افغان طالبان نے دیں جو بنیادی طور پر پشتون ہیں، اگرچہ پچھلے چند برسوں میں انہوں نے شمالی افغانستان کے قندوز جیسے صوبوں میں اپنا اثرونفوذ بڑھایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ افغانوں نے نہیں جیتی، یہ صرف افغان طالبان نے جیتی۔ جب طالبان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے، تب افغانستان کے ازبک، تاجک، ہزارہ نوجوان کابل اور دیگر شہروں میں نیٹو افواج کے سیٹ اپ میں ہزاروں ڈالر کے عوض نوکریاں کر رہے تھے۔ ایسی بے حمیتی کا مظاہرہ افغان تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ افغان طالبان نے افغانوں کی عظیم تاریخ اور غیرت کی مِتھ برقرار رکھی، ورنہ اس بار کہانی الٹ ہوجاتی۔

امن معاہدہ سے مسائل حل نہیں ہوجائیں گے؟ یہ بات طنزیہ انداز میں کئی حلقوں کی جانب سے کہی جا رہی ہے۔ بات اپنی جگہ درست ہے۔ افغانستان ایک پیچیدہ ملک ہے اور جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا، اس بار کئی اہم نسلی گروہ امریکیوں کی تابعداری کرتے ہوئے اقتدار میں شامل تھے۔ ان سب کے لئے پیچھے ہٹنا اور دو عشروں سے معتوب افغان طالبان کو اقتدار میں بڑا حصہ دینا آسان نہیں۔ اشرف غنی جیسے لوگ مستقبل کے سیٹ اپ میں صفر ہوچکے ہیں، ان کی کوئی سپورٹ موجود نہیں۔ کوئی گروپ ان کے ساتھ ہے نہ ہی وہ عوام میں مقبول ہیں۔ اشرف غنی کی جانب سے سردمہری، امن معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں قابل فہم ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ، مگر یہ یاد رکھا جائے کہ اس سے طالبان کی امریکہ کے خلاف کامیابی کی اہمیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ وہ الگ معاملہ ہے، افغانستان میں داخلی استحکام ا ور اگلے سیٹ اپ کی طرف بڑھ جانا ایک الگ معاملہ۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ خانہ جنگی سے افغانستان کو بچانا صرف طالبان کی ذمہ داری نہیں۔ موجودہ افغان حکومتی سیٹ اپ، عبداللہ عبداللہ، صلاح الدین ربانی جیسے تاجکوں کے نمائندہ لیڈروں، جنرل رشید دوستم، ہزارہ لیڈروں اورگلبدین حکمت یار جیسے لوگوں پر بھی ملک میں امن قائم رکھنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ امریکیوں کو بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے مستحکم افغان سیٹ اپ چھوڑ کر جانا چاہیے۔

آگے کیا ہوگا؟ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ مختلف فریق اپنے سودی بازی کی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ افغان طالبان کوشش کریں گے کہ امن معاہدہ قائم رہے، اس کے لئے وہ امریکیوں کو ہدف بنانے سے گریز کریں گے۔ اگلے سوا چار ماہ میں کئی ہزار امریکی فوجی چلے جائیں گے، تب تک طالبان زیادہ محتاط رہیں گے۔ چودہ ماہ میں مکمل امریکی فوج کا انخلا ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغان طالبان کی کوشش ہو گی کہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ قائم رہے جبکہ باقی افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا جائے۔ افغان فوج کے ہزاروں لوگوں کے معافی نامے طالبان کو موصول ہوچکے ہیں، یہ رفتار بڑھے گی۔ نصف کے قریب افغان فوج شائد طالبان سے مل جائے۔ موجودہ حکومت میں شامل عناصر بھی اب طالبان سے گٹھ جوڑ کرنا چاہیں گے کہ انہیں مستقبل کی حکمران قوت کا اندازہ ہوچکا ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ طالبان اس بار سولو فلائیٹ کے بجائے دیگر گروپوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہ رہے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں سے انہوں نے خاصا کچھ سیکھا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ نیک خواہشات اور دعائوں سے سب کچھ نہیں ہوتا۔ افغانستان میں کئی حلقے طالبان کو نمایاں ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے، یہ لوگ خانہ جنگی کی پوری کوشش کریں گے۔ افغان طالبان اور دیگر اہم افغان گروپوں کا یہ امتحان ہے کہ وہ اس چیلنج سے کس طرح نمٹتے ہیں؟ افغان عوام کو ریلیف دینا اور جنگ زدہ خطے میں امن قائم کرنا سب سے پہلے خود افغانوں کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اسی نکتے پر مستقبل کی عمارت تعمیر ہوگی، اسی میں فلاح مضمر ہے۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez