اب راج کرے گی خلق خدا
فیض کی شاعری میں ایسی انقلابی رومانویت رچی بسی ہے کہ مزاحمت کرنے والے رائٹ کے لوگ ہوں، لیفٹسٹ ہوں یا کیپیٹل از م کو نئے نئے پیارے ہوئے سابق لیفٹ کے انقلابی?، کسی نہ کسی سطح پر ہر ایک کو فیض کا سہارالینا پڑتا ہے۔ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ سوشل میڈیا کی طاقت پکڑنے سے خلق خدا راج کرنے لگے گی، پاکستان جیسے ممالک میں اشرافیہ اتنی طاقتور اور مختلف قسم کے مافیاز کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ انہیں اکھاڑنا آسان نہیں۔
ایک امید مگر سوشل میڈیا نے پیدا کی ہے۔ ایک خاص سطح پر فیس بک ہو یا ٹوئٹر عوام کی ترجمانی اور ان کی آواز تو بلند ہوتی ہے۔ اگرچہ ابھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق شہری علاقوں اور مڈل کلاس سے ہے۔ یہ رجحان مگر تیزی سے پڑھے لکھنے نچلے طبقات کی طرف بھی منتقل ہو رہا ہے۔ اینڈرائیڈ سمارٹ فون سستے ہوجانے سے مدارس کے نوجوان، دکان دار اور درمیانے سے کچھ کم طرز زندگی کے لوگ بھی اس طرف آ رہے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جائے گا اور لوگوں کی ذہنی تربیت ہوجانے سے ان کا ابلاغ بھی بہتر ہوگا۔ سوشل میڈیا کے نقصانات کم نہیں۔ سطحی مکالمے کو یہ فروغ دے رہا ہے، لوگوں کا پڑھنے کا سٹیمنا کم ہوا ہے، چند سطری تحریر سے زیادہ بڑی پوسٹ کو فوری نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کھل کر اظہار کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی تو اس کا بے لگام، بے محابہ اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ بدتمیزی اور الزام تراشی کے مظاہر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کی طرح کی بریکنگ نیوز کلچر ادھر بھی آ گیا ہے، ہر شام ایک نیا موضوع چاہیے۔ لائیکس اور کمنٹس کی چاہ میں اختلافی موضوعات جی بھر کر چھیڑے جاتے ہیں، چاہے ان سے مسلکی آگ بھڑک اٹھے یا قومی یک جہتی کو نقصان پہنچے۔ اس سب کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ عام آدمی کی رائے اسی فورم سے بہتر طریقے سے سنی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز دو تین واقعات ہوئے۔
تحریک انصاف میں شامل ہونے والے ایک صاحب کو بری طرح بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا۔ ان کے ماضی کے سیاہ واقعات ان کے لئے مصیبت بن گئے، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے وہ طوفان اٹھایا کہ عمران خان بھی اس لہر کے آگے نہ ٹھہرسکے۔ دوسری طرف نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے یکے بعد دیگرے مختلف نام دینے سے تحریک انصاف کی خوب بھد بھی اڑی۔ ان کے اپنے کارکنوں نے بھی کوئی رعایت نہیں کی اور یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف کی قیادت سوشل میڈیا سے کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہوگئی ہے۔
ایک خوبصورت جملہ کہیں پڑھا کہ چیف جسٹس صاحب براہ کرم سو موٹو نوٹس لے کر ملک میں دو دن کے لئے انٹرنیٹ بند کر دیں تاکہ تحریک انصاف نگران وزیراعلیٰ کا امیدوار منتخب کر سکے۔ سوشل میڈیا ہی پر لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کے تاریخی فیصلے نے رات سے تہلکہ مچا دیا۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے اس فیصلے کو خوب سراہا اور اراکین پارلیمنٹ کے لتے لئے، جنہوں نے ملی بھگت کر کے امیدواروں کے نامزدگی فارم میں یہ ترامیم کی تھیں۔
رانا اظہر کمال معروف سوشل میڈیا بلاگر ہیں، جین سارتر کے نام سے وہ بلاگ لکھتے ہیں، انہوں نے ایک خوبصورت پوسٹ تحریر کی، لکھتے ہیں :اخلاقی بنیادالیکشن کے لیے نامزدگی فارم میں امیدواروں کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی شقیں ختم کیے جانے پر لاہور ہائیکورٹ نے نیا نامزدگی فارم کالعدم قرار دے دیا ہے۔
نئے فارم میں جو تبدیلیاں کی گئی تھیں، وہ یہ ہیں :موجودہ اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہدوہری شہریت نہ ہونے کا حلف نامہ حذفتعلیمی قابلیت اور ڈگری ظاہر کرنے کی پابندی ختمانکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس کی معلومات فراہم کرنے کی شق کا خاتمہبچوں اور دیگر افراد خانہ کے لئے "زیر کفالت" کے الفاظ کی تبدیلیبیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہبینکوں یا دیگر مالیاتی اداروں سے معاف کرائے گئے قرضوں کو ظاہر کرنے کی شق ختمتھانوں اور عدالتوں کا کریمنل ریکارڈ ظاہر کرنے کی شق کا خاتمہگزشتہ تین برس کے دوران غیر ملکی دوروں کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابندی کا خاتمہغلط معلومات فراہم کرنے کی صورت میں اسمبلی کی رکنیت سے محرومی کا حلف نامہ حذف۔ (یہ قانونی نکات ہیں۔ ان میں کمی بیشی کی صورت میں کوئی قانون دان اگر رہنمائی کرنا چاہیں تو ضرور ارشاد فرمائیں )انتخابات کے نامزدگی فارم سے یہ شقیں کیوں اور کیسے ختم ہوئیں؟
یہ حکمران جماعت کی "سازش" ہے یا تمام جماعتوں کی "ملی بھگت"؟ ان سوالوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف یہ سوچیے کہ ان کی موجودگی سے ہمارے رہنماؤں کو کیا تکلیف لاحق ہے؟ اور اب عدالت سے ان شقوں کے بغیر بنائے گئے نہایت "معصومانہ" نامزدگی فارم کو کالعدم قرار دئیے جانے پر انہیں اسہال کا عارضہ کیوں لاحق ہو رہا ہے؟ پیپلز پارٹی کے عمر رسیدہ رہنما اعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ نامزدگی فارم کالعدم قرار دینا ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں، یہ صرف پارلیمنٹ کا کام ہے۔ ممکن ہے وہ درست کہتے ہوں لیکن اتنا تو وہ بھی جانتے ہوں گے کہ قانون کی بنیاد اخلاقیات ہے۔
اگر کل کلاں کوئی پارلیمنٹ چوری، ڈکیتی اور قتل کو قانونی عمل قرار دے دے تو کیا یہ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار ہوگا؟ نہیں حضور۔۔۔۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ان کے نمائندے کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ اثاثے کیا ہیں اور ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ دنیا بھر میں قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ حکومتوں کی کارکردگی شفاف ہو اور ووٹرز اپنے نمائندوں کی کارکردگی پر نظر رکھ سکیں لیکن ہمارے ہاں قانون سازی اس لیے کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ معاملات ووٹرز کی نظروں سے پوشیدہ رکھے جائیں۔
بہر طور اگر آپ ایسے قوانین بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیے لیکن یاد رکھیے کہ اس اخلاقی بنیاد کو کھود ڈالنے کا نتیجہ آپ ہی کے لیے بھیانک ہوگا۔۔۔۔ عوام تو کالانعام ہیں۔۔۔۔۔ انہیں پارلیمنٹ کے کھونٹے سے باندھ دیجیے یا آمریت کے کِلے سے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔"یاد رہے کہ یہ ترامیم الیکشن کمیشن کی سخت مخالفت کے باوجود کی گئی تھیں۔ اطلاعات کے مطابق وفاق نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
یہ وفاق کا حق ہے، مگر لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اس فیصلے کے ذریعے سیاستدانوں کو اپنی غلطی سنوارنے کا موقعہ فراہم کیا ہے، انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جسٹس عائشہ ملک کا فیصلہ میں نے بھی پڑھا ہے، یہ ایک شاندار، مبسوط فیصلہ ہے۔ عوام کا حق ہے کہ انہیں اپنے امیدواروں کے بارے میں جاننے کا موقعہ ملا۔ رہا یہ معاملہ کہ الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے تو نامزدگی فارم میں ترمیم کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں۔ نئے فارم کو ویب سائیٹ پر ڈال دیا جائے، امیدوار آسانی سے اسے ڈائون لوڈ کر کے استعمال کر لیں گے۔ اس میں چند دن بھی نہیں لگیں گے۔
اس فیصلے کو سپورٹ کرنا چاہیے کہ اس کا تمام تر فائدہ عوام کوپہنچے گا۔ سردست تو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی خلق خدا اسے سپورٹ کر رہی ہے۔ کاش یہ جدوجہد نتیجہ خیز ثابت ہو اور الیکشن نظام میں فلٹر لگانے کا ایک طریقہ الیکشن کمیشن کو دستیاب ہو۔