Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Aakhri Round

Aakhri Round

آخری رائونڈ

کورونا سے جنگ کا اہم ترین رائونڈ شروع ہو گیا ہے۔ اسے فائنل رائونڈ اس لئے کہا کہ اب کورونا کی ویکسین آ گئی ہے اور سب سے بہتر اور محفوظ طریقہ ویکسین لگا کر خطرے کی شدت کو اسی نوے فیصد کم کر دینا ہی ہے۔ ویکسین کے ساتھ احتیاط جاری رکھی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ کچھ عرصے میں یہ موذی بیماری ختم نہ سہی تو کم از کم اس کا زور ٹوٹ جائے گا۔

یہ آخری فیز بہت اہم اور خطرناک نوعیت کا ہے۔ اسے کورونا کی تیسری لہر کا نام دیا جا رہا ہے اور حقیقت ہے کہ سابقہ دونوں لہروں سے یہ والا وائرس زیادہ شدید اور تیزی سے پھیلنے والا ہے۔ اس بار اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ہردوسرے تیسرے روز کسی کے بیمارہونے کی خبر مل رہی ہے۔ اموات کی شرح بھی خاصی بڑھ گئی۔ تشویشناک خبریہ ہے کہ اب بچے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔

اس کا حل سہہ جہتی ہے، تین طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔ سب سے اہم احتیاط ہے۔ اپنی مصروفیات کو جس حد تک محدود کیا جا سکتا ہے، کر لیں۔ عوامی اجتماعات پر پابندی ہے، اگر کہیں کچھ ایسا ہو بھی رہا ہے تو گریز کی کوشش کریں۔ آج کل کے حالات میں شادی بیاہ کو انتہائی محدود کرنا چاہیے، صرف دو چار لوگ جائیں اور کسی تکلفات سے عاری مختصر تقریب کے بعد رخصتی ہوجائے۔ ویسے بھی درست طریقہ یہی ہے۔ کرنے والے تو پہلے بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے، میری ممانی صاحبہ کے ایک بھانجے کی شادی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی بھتیجی سے ہوئی۔ لڑکے کے والد ڈاکٹر صاحب کے مداح اور ان کی جماعت کے ذمہ داران میں سے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق صرف دولہا کے والدین اور بھائی بہن گئے اور نہایت مختصر گھریلو تقریب میں نکاح ہوا۔ انہیں چائے پلائی گئی اور پھر رخصتی ہوگئی۔ دلہا کے والدین نے اصرار کیا کہ گاڑی میں رکھا مٹھا ئی کا ڈبہ تو منگوا لینے دیں، ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص شائستہ مگر مضبوط لہجے میں معذرت کر لی۔ گھنٹے دو میں تقریب ختم اور دلہن خیر سے سسرال آ گئیں۔ ایسا آج کیوں نہیں ہوسکتا؟ کورونا نے اس کا عذر فراہم کر دیا ہے۔ شادیوں کو منسوخ یا ملتوی کرنے کے بجائے نہایت سادہ انداز میں کرنے کا رجحان ڈالنا چاہیے۔

دوسرا وہی نسخہ ہے جس کا ڈاکٹر حضرات ہمیں ابتدا ہی سے مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنی قوت مدافعت کو مضبوط کریں۔ پچھلے ایک سال سے کورونا سے متعلق لٹریچراور مواد پڑھ رہا ہوں۔ دو تین باتیں سمجھ آئی ہیں۔ اپنے آپ کو فٹ رکھیں، اچھی بھرپور نیند لیں، صحت مند غذا لیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔ کسی کوبیماری کی وجہ سے ڈاکٹر نے منع کیا ہو تو وہ الگ بات ہے ورنہ پیدل چلنے سے بہتر ورزش کوئی نہیں۔ جو لوگ مستقل نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہیں جیسے بلڈ پریشر، شوگر، دل کاعارضہ وغیرہ، انہیں آج کل خاص طور سے احتیاط کرنی چاہیے۔ اپنی دوائی باقاعدگی سے لیں، بدپرہیزی نہ کریں اور واک باقاعدہ کریں تاکہ بیماریاں کنٹرول میں رہیں۔ وٹامن سی، زنک کا استعمال کرتے رہیں، وٹامن ڈی کی کمی بھی نہ ہونے دیں۔ پروٹین قوت مدافعت کے لئے ضروری چیز ہے، انڈے، گوشت، یخنی، دالوں، لوبیہ وغیرہ میں اس کی اچھی مقدار ہے۔

بعض دیسی قہوہ جات جیسے ادرک، پودینہ، دارچینی، لونگ وغیرہ کا قہوہ بھی سانس اور کئی امراض کے لئے مفید ہے۔ غذا میں ہلدی، لہسن وغیرہ کا استعمال بڑھائیں۔ معروف مصنف، سماجی کارکن اور" دوا غذا اور شفا "جیسی مقبول کتاب کے مصنف ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ہیپا کول کورونا پلس کے نام سے ہربل سیرپ تیار کرایا ہے، اس میں ہلدی، دارچینی، پودینہ، زیتون کا تیل، شہدوغیرہ کا امتزاج ہے۔ اس کے بہت اچھے اثرات ہیں۔ کورونا کی قوت مدافعت کے علاوہ سانس کی بیماریوں کے مریض بھی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگلے روز ایک ساتھی صحافی نے مجھے آکر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ میں حیران ہوا کہ ایسی کون سی بھلائی مجھ سے سرزد ہوگئی، معلوم ہوا کہ انہیں کچھ عرصہ قبل میں نے ڈاکٹر آصف جاہ کا بنایا ہوا یہی سیرپ تحفے میں دیا تھا کہ اپنی قوت مدافعت بڑھانے کے لئے استعمال کریں۔ ان کی چھ سالہ بچی شدید کھانسی میں مبتلا تھی، رات رات بھر کھانستی رہتی، ان کی اہلیہ نے اسی سیرپ کا ایک چمچ رات کو، دوسرا چمچ صبح کو دیا۔ بچی الحمد للہ بالکل ٹھیک ہوگئی۔ وہ اسی کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔ میں نے ڈاکٹرآصف جاہ کو فون کر کے شکریہ کی رسید پہنچائی۔ وہ کہنے لگے کہ اس سیرپ میں ہلدی کی مناسب مقدار موجود ہے جو قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ inflammation وغیرہ کے لئے مفید ہے۔ ہمارے ایک حکیم دوست حبیب کاظمی صاحب نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ نیم گرم دود ھ میں ایک چمچ شہد، ایک چمچ اولیو آئل(ایکسٹرا ورجن)اور آدھا چمچ ہلدی پائوڈر ملا کر استعمال کریں۔ مجھے اور میری اہلیہ کو یہ نسخہ پسند آیا، ہمارا چھوٹا صاحبزادہ اسے گولڈن مِلک کہتا ہے، ذائقہ دار اور ہر اعتبار سے مفید۔ کمر میں درد اور تھکن ہو تو زیتون کا تیل وہ دور کر دیتا ہے۔ اپنے ذوق کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر لیں، مگر تواتر سے کریں۔

تیسرا اور اہم ترین طریقہ ویکسین کا ہے۔ کورونا ویکسین پرائیویٹ سطح پر ملنا شروع ہوگئی ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ حکومت ویکسین کے عمل کو اتنا سست کیوں رکھے ہوئے ہے؟ جس رفتار سے ویکسین لگ رہی ہے، اس طرح تو کئی سال لگ جائیں گے۔ پاکستان کی آبادی زیادہ ہے، کورونا سے بچانے کے لئے سب کو ویکسین لگانا پڑے گی۔ یہ البتہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ویکسین لگانے کے انتظامات بہت اچھے کئے گئے ہیں۔ پراسیس کو البتہ تیز کرنا پڑے گا۔

میرا خیال ہے کہ حکومت نے شائد مالی مجبوریوں کی وجہ سے ویکسین خریدنے کے عمل میں تاخیر کی اور عالمی امداد کا انتظار کر تے رہے۔ اس ضمن میں کچھ تاخیر عالمی امدادی اداروں کی جانب سے ہوگئی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، اس کی ذمہ داری کسی نہ کسی انداز میں حکومت پر ہی عائد ہوگی۔ امید ہے کہ ہے اپریل میں کئی ملین مزید ویکسین دستیاب ہوجائے گی۔ اسے جلد سے جلد لوگوں تک پہنچانا ہی اہم مرحلہ ہے۔ رفتار کو تیز کرنا پڑے گا، ورنہ کورونا وائرس کی شدت دیکھ کر لگتا ہے کہ تاخیر کی گئی تو بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ ویکسین کے عمل میں الخدمت جیسی تنظیموں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ الخدمت کے پاس ملک بھر میں چالیس سے زیادہ ہیلتھ سنٹر ہیں، لاہور میں ان کے دو معقول قسم کے ہسپتال موجود ہیں۔ آج کے دور میں مریضوں کا ڈیٹار کھنا کون سا مشکل کام ہے، چند لاکھ لوگوں کو الخدمت کے ذریعے ویکسین فراہم کرنے میں کیا برائی ہے؟ حکومت پچاس سال سے زیادہ عمر کی رجسٹریشن کر ا رہی ہے، پینتالیس سے پچاس کی رجسٹریشن بھی کریں اور الخدمت کے ہیلتھ سنٹرز کو ویکسینیشن کے لئے استعمال کرائیں۔ کوئی اور معروف سماجی ہیلتھ این جی او ہو تو اس سے بھی استفادہ کریں۔ کراچی میں انڈس ہسپتال کو بھی ویکسینیشن میں شامل رکھنا چاہیے۔

صحافی تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ میڈیا ورکرز بھی فرنٹ لائن پر موجود ہیں، کورونا کی کوریج کرنے انہیں ہرجگہ جانا ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ پیمرانے بھی حکومت کی توجہ اس جانب دلائی ہے۔ ان کے اس مطالبے میں وزن ہے۔ میڈیا آرگنائزیشن اور پریس کلبوں کے ذریعے صحافیوں کو بھی ویکسین لگائیں۔

حکومت ترجیحی پالیسی بنائے کہ جن شہروں میں کورونا کی شرح زیادہ ہے، وہاں سب سے پہلے ویکسین لگے۔ لاہور، اسلام آباد، پنڈی، گوجرانوالہ، ملتان جیسے شہروں پر فوکس کرنا چاہیے، یہاں تیزی سے لوگ شکار ہورہے ہیں۔ لاہور کی شرح پنجاب میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں اگر کورونا کنٹرول ہو گیا تو ان شااللہ اس کے اثرات پنجاب بھر میں پڑیں گے۔ حکومت نے کورونا کے سدباب کے لئے کچھ اچھے کام کئے تو بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔ یہ آخری رائونڈ اگر اچھے طریقے سے لڑا گیا تو ان شااللہ اس مہلک وائرس کے خلاف جیت ہماری ہوگی۔

Check Also

Aftab Iqbal Aur Sohail Ahmed Azizi Ka Mamla

By Ali Akbar Natiq