Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Ali Ahmad Dhillon
  3. Police Ka Miyar Kon Buland Kare Ga?

Police Ka Miyar Kon Buland Kare Ga?

پولیس کا معیار کون بلند کرے گا؟

پاکستان میں پولیس کا ڈیڑھ صدی پرانا برطانوی نظام چل رہا ہے، جس میں 2002 میں چند ایک اصلاحات کی گئیں لیکن پولیس سسٹم میں بڑی تبدیلی نہ آسکی۔ حالانکہ برطانیہ میں بھی پولیس کا نظام پونے دو سو سال پرانا ہے لیکن وہاں کا پولیس نظام دنیا کا بہتر ین نظام ہے۔

آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ کی پولیس دنیا میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے، پاکستان اس فہرست میں کہیں شمار نہیں کیا جاتا۔ جب کہ بہترین پولیس میں دوسرے نمبر پر کینیڈین پولیس، تیسرے نمبر پر ہالینڈ کی پولیس، چوتھے نمبر پر فرانس کی پولیس، پانچویں پر جاپانی پولیس، چھٹے پر امریکی، ساتویں پر آسٹریلین، آٹھویں پر جرمن، نویں پر چائینز پولیس اور دسویں نمبر پر اٹالین پولیس آتی ہے۔

جب کہ کرپٹ ترین پولیس فورسز کی فہرست میں پاکستان کا آٹھواں نمبر آتا ہے، اگر ہم پہلے نمبروں کی بات کریں اس فہرست میں پہلے نمبر پر کینیا پولیس، دوسرے نمبر پر برمی پولیس، تیسرے پر عراقی پولیس، چوتھے نمبر پر صومالین پولیس، پانچویں پر افغانی پولیس، چھٹے پر سوڈانی پولیس، ساتویں پر روسی پولیس، نویں پر ہیٹی اور دسویں نمبر پر میکسیکو پولیس آتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پولیس نظام برطانیہ نے اپنے لیے بنایا، وہاں کامیاب رہا اور جو نظام اُس نے متحدہ ہندوستان کے لیے بنایا وہ نوآبادیاتی لحاظ سے تو کامیاب رہا لیکن انصاف کے اعتبار سے ناکام رہا ہے؟ برطانیہ نے اپنے پولیس نظام کے لیے جو اصول طے کیے تھے وہ ہندوستانی پولیس کے لیے پیش نظر نہ رکھے گئے کیونکہ برطانیہ ایک آزاد ملک تھا جب کہ ہندستان ایک غلام ملک تھا۔

لہٰذا دونوں ملکوں کے پولیس نظام میں واضح فرق تھا، برطانیہ کی پولیس عوام دوست تھی جب کہ ہندوستان کی پولیس عوام کو غلام اور محکوم رکھنے کے لیے تھی۔ سر رابرٹ پیل نے 1829 میں لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کے لیے جو بنیادی اصول طے کیے وہ آج بھی وہاں قابل عمل ہیں۔

سررابرٹ پیل کہا کرتے تھے کہ پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے، پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں، پولیس جب آئین اور قانون پر بلاتفریق بلاامتیاز عمل کرتی ہے تو اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے اور یہ عوامی اعتماد ہی پولیس کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے۔ لیکن پولیس جب عوام پر ڈنڈے کی طاقت استعمال کرتی ہے تو اس کے اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں لہٰذا لازم ہے کہ پولیس تشدد کرنے سے گریز کرے اور عوام کو قائل کرنے پر زور دے۔ اور مشہور کہاوت ہے کہ مار سے زیادہ ڈر زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔

قصہ مختصر کہ پولیس کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ کرائم ریٹ کنٹرول میں رہے اور امن وامان قائم رہے، یہ تھے وہ بنیادی اصول جن کی بنیاد پر لندن میٹروپولیٹن پولیس تشکیل دی گئی جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا کی مثالی اور معیاری پولیس فورس ہے۔

لیکن جب کوئی بھی ریاست ان بنیادی اصولوں کو فراموش یا نظرانداز کر دیتی ہے تو پولیس کا نظام ناکام بن کر رہ جاتا ہے اور عوام کا اعتماد ہی پولیس فورس سے اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے اور جرائم پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے حالیہ واقعات کی مثال لے لیں، کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو روکنے کے لیے جب پولیس کا فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنا پڑا تو 300اہلکار زخمی اور 6شہید ہوگئے۔ پچھلی بار جب اسی قسم کا احتجاج ہوا تھا تب بھی یہی حالات تھے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال اسی قسم کے حالات کا فرانس کو بھی سامنا رہا، فرانسیسی پولیس مہنگائی اور دیگر نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے مظاہرین سے لڑتے لڑتے تھک چکی تھی، انھیں مسلسل چھ ماہ سے احتجاج کا سامنا تھا، جب کہ پولیس کو مورال گزشتہ چھ ماہ سے ہی بلند تھا، مگر ایک وقت آیا کہ پولیس کے خلاف نفرتیں بڑھنے لگیں اور عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے بھی بڑھنے لگے، ایسے میں وہاں کی حکومت نے پولیس کا بھرپور ساتھ دیا، انھیں اسپیشل الاؤنس کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کے لیے ایسے قوانین بنائے کہ پولیس کے اختیار میں مزید اضافہ ہوگیا اور کسی بھی پولیس اہلکار کی قومی اخبار، چینل یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تصاویر شایع کرنے سے روک دیا۔

ان قوانین کے بعد احتجاج میں شدت آگئی اور عام عوام نے اسے آزادی اظہار رائے میں رکاوٹ قرار دیا لیکن ایسا کرنے سے پولیس کا مورال بلند ہوگیا اور انھوں نے ان مظاہرین کو بھرپور قوت سے روکا اور احتجاج اگلے چند روز میں لپیٹ دیا۔ یعنی عوام پیچھے ہٹ گئے اور فرانسیسی صدر "جیت" گئے۔

لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر واقعہ کے محرکات تلاش کرنے اور اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ہے۔ دنیاکا سب سے بڑا واقعہ نائن الیون کا ہوا۔ سیکڑوں لوگ مارے گئے دنیا کی طاقتور ایٹمی طاقت پٹ کر رہ گئی۔ لیکن اس میں ایک سپاہی بھی معطل نہیں ہوا۔ طیارے امریکا کے تمام سیکیورٹی حصار توڑتے ہوئے ٹارگٹ تک پہنچ گئے لیکن انتظامیہ پر کریک ڈاون کے بجائے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام ہوا۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا۔؟

مثبت اور منفی پہلووں کو کھنگالا گیا اور اس کے لیے نئے ایس او پیز بنائے گئے۔ اور مستقبل میں اس جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے تھینک ٹینک نے کام کیا اور سسٹم میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا گیا۔ لیکن قابل غور امر یہ کہ کیا ہمارے ملک میں بھی کبھی ایسا ہوا؟ جوڈیشل کمیشن، فیکٹ فائیڈنگ رپورٹ، انکوائری کمیٹی بننے سے کیا عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری پولیس جرائم سے لڑنے کے بجائے میدان سے بھاگ رہی ہے۔

جب بھی کوئی سیکیورٹی کابڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو ہر برائی کا ذمے دار پولیس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ لہٰذاپولیس کا مضبوط کرنے سے ریاست مضبوط ہوگی، پولیس میں کرپشن ختم کرکے عام پولیس اہلکار کے مسائل حل کرنے سے پولیس مضبوط ہوگی، انھیں سی ایم ایچ قسم کی میڈیکل سہولیات دینے سے اُن کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر پولیس کا مورال بلند ہوگا جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam