Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Ali Ahmad Dhillon
  3. Civilian Shuhada

Civilian Shuhada

سویلین شہداء

ہمارا ملک بھی کیسا ملک ہے، نہ کوئی سسٹم، نہ کوئی ڈسپلن، نہ کوئی قانون۔ یہاں کرائے کے "ماہرین" معیشت چلا رہے ہیں، سڑک پر لگا ٹریفک سگنل توڑنے سے لے کر کسی کا حق مارنے تک ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

عدالتوں میں چلے جائیں، وکلاء حضرات خود بتا رہے ہوتے ہیں کہ آپ کیسے کیس کو التواء میں ڈال سکتے ہیں، پھر کوئی سرکاری ٹھیکہ آپ کے ہاتھ لگ جائے تو خود حکومتی اہلکار آپ کو بتاتے ہیں کہ اس میں ناقص میٹریل کیسے استعمال کرناہے۔ پھر ڈالر ایک آدھ روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو بڑے بڑے حاجیوں کا مال گوداموں میں پڑا پڑا مہنگا ہو جاتا ہے۔

پھر آپ ٹیکس چوری میں پکڑے جائیں تو ایف بی آر کا نمایندہ آپ کا سب سے بڑا خیر خواہ بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب ایسے نہیں … ایسے بچا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ کسی کا قتل کرکے جیل میں چلے جائیں تو تفتیشی بتا رہا ہوتا ہے کہ اتنے پیسے لائو، مدعی پارٹی سے صلح نامہ کرانا میرا کام ہے۔ اور پھر سارا نظام اسی طرح چل رہا ہے۔

شاید اس موضوع پر کسی نے لکھنے کی جسارت نہ کی ہو کہ لاہور میں تین پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں، لکھنا تو دور کی بات مرحومین کے گھر جا کر کسی اعلی پولیس افسر، وزیر یاسیاستدان نے تعزیت بھی نہیں کی ہوگی۔ چلیں ہم تو ٹھہرے ایرے غیرے لوگ! حد تو یہ ہے کہ ان شہداء کے اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان کی شہادت کو صحیح انداز میں پیش نہیں کیا۔ کیسے کرتے؟

بے حسی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کسی محکمے کی جانب سے اپنے شہداء کے ساتھ اس سے ز یادہ بد سلوکی کی کوئی مثال اگر موجود ہو تو میرے لیے یہ بریکنگ نیو ز ہو گی۔ ترجمان کی چشم خوباں کی بے نیازیاں دیکھیے، جناب نے کس آسانی سے کہہ دیا، تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ایک پولیس اہلکار فرض کی ادائیگی میں جان سے گزر گیا اور اس کے بارے میں کہا جائے کہ مرنے والے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اسے کیا نام دیا جائے۔

جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے قدم رکھا ہے، راقم تب سے یعنی دو دہائیوں سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ سویلین شہداء کے خاندانوں کا ریکارڈ ہی اکٹھا کر لیں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان میں سے کون سی فیملی بہتر انداز میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ لیکن کہیں کوئی سسٹم ہوتا یا کہیں کوئی قانون کا پاسدار ہوتا تو شاید یہ خاندان بھی جنھیں دنیا سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتی ہے، پاکستان میں بھی اُن کی اہمیت ہوتی۔ لیکن یہاں تو سسٹم نام کی چیز ہی نہیں، آپ گھر سے باہر نکل جائیں۔

یہاں انسانی زندگی کی کسی کو پرواہ اس لیے نہیں کہ یہاں سسٹم نہیں! اگر سسٹم ہوتا تو معاملات کچھ اور ہوتے۔ برطانیہ، امریکا، یورپ جیسے ممالک کیوں ترقی یافتہ ہیں، صرف اس لیے کہ وہاں انسانی جان کی ایک قیمت ہوتی ہے، ایک جان کے ضیاع پر سالوں تک کیس چلتے ہیں، ذمے داران کو سزا ہوتی ہے، برازیلین صدر کے قافلے کی زد میں آکر ایک شخص جاں بحق ہو جائے تو عدالتیں قافلے میں شامل اُس گاڑی چلانے والے کو جب تک سزا نہیں دیتیں چین سے نہیں بیٹھتیں!

لیکن یہاں آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہوگی کہ گزشتہ 20سالوں میں 28ہزار سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ جب کہ جنوری 2004 سے دسمبر 2016 تک صرف خیبر پختونخوا میں 16000کے لگ بھگ پولیس، خاصہ دار اور لیویز فورس کے اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ کراچی میں بلا ناغہ پولیس والے مارے جاتے ہیں، 2013ء سے لے کر اب تک 33سو اہلکار جان سے گئے۔ بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں مرنے والے سویلینز کی تعداد 20سالوں میں ایک لاکھ سے زائد ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی سسٹم بن سکتا ہے کہ ان شہداء کے ذمے داروں کا بھی تعین کیا جائے اور ان کے خاندانوں کا بھی سہارا بنا جائے جو حکومت کی غفلت کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra