زندگی کا مقصد کیا ہے ؟
ہاورڈ بزنس اسکول کے پروفیسرکرسٹنن کا شمار ایسے اساتذہ میں ہوتاہے جو اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ طلبہ کوکامیاب اوربھرپور زندگی گزارنے کا فن بھی سکھانا جانتے ہیں۔ منیجمنٹ کے مفکرین کی عالمی درجہ بندی"Thinkers 50" کی طرف سے اسے بزنس کی دنیا کا سب سے موثر مفکرقرار دیا گیا یہ اعزاز منیجمنٹ کی دنیا کا آسکر سمجھا جاتا ہے۔
سو چ بچارکے طویل عرصے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانی ذہن محدود ہوتا ہے اور اس کے فیصلے بھی اس حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں جب کہ خدا لامحدود ہے کسی انسان کی کامیابی کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کتنے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کی۔ انسان اپنی کامیابی اسے سمجھتا ہے کہ وہ کتنے لوگوں کا سربراہ رہا ہے وہ اپنے شعبے کے کتنے بڑے عہدے تک پہنچ سکا۔
کرسٹنن سمجھ چکا تھا کہ جب اس کا سامنا اپنے خدا سے ہوگا تو اس سوال کا سرے سے کوئی ذکر تک نہ ہوگا کہ وہ ہاورڈ کا پروفیسر تھا یا نہیں، بلکہ اس سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں یہ صلاحیت دی گئی تھی، تم نے اس سے کتنے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنائیں۔ کتنے لوگوں کی خود توقیری کو مضبوط کیا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کی صلاحیتوں کو تم نے نکھارا، کتنے لوگ ایسے ہیں جن کی تکلیفوں کو تم نے دورکیا، اس سوال کا کہ زندگی میں کیسے خوش رہا جاسکتا ہے۔
اس کا جواب کرسٹنن عظیم ماہر نفسیات فریڈرک ہر زبرگ کی تعلیم میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے جس کاکہناہے کہ جب دولت کمانا ہی واحد مقصد ہو تو زندگی میں خوشی اور اطمینان ملنا مشکل ہوجاتا ہے ہم اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمیں سیکھنے کے مواقع ملیں ہمارے پاس ذمے داریاں ہوں ہم دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لاسکیں اور ہمیں کامیابیوں کے لیے سراہا جا رہا ہو۔ کرسٹنن کے خیال میں یونیورسٹی کے زمانے میں طالب علموں کو اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں واضح ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد زندگی کی مصروفیات بڑھنے لگتی ہیں خود اس کے نزدیک زندگی میں ایک واضح مقصد کا ہونا بہت اہم حقیقت رہا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے کیسے واقف ہوا؟
اس کے لیے اسے طویل عرصے تک سوچنا پڑا۔ جب وہ آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اسے پڑھائی کے ایک سخت مرحلے کا سامنا تھا وہ ہر روز ایک گھنٹہ پڑھنے، سوچنے اور خدا سے دعا مانگنے میں گزارتا کہ خدا نے اسے دنیا میں کیوں بھیجا ہے اس معمول پر عمل کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ وہ دوسال کی پڑھائی ایک سال میں مکمل کررہا تھا لیکن اپنے وقت میں سے ایک گھنٹہ نکالنے کے معمول سے اس نے اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ لیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ یہ گھنٹہ بھی اپنے مضمون کو سمجھنے میں صرف کرتا تو اس کی زندگی برباد ہوگئی ہوتی۔
زندگی کا مقصد کیا؟ زندگی میں کیا اہم ہے؟ اس سوال کا سامنا اسے ہر روزکرنا پڑتا۔ جب وہ کینسرکی بیماری سے لڑرہا تھا تو ایک دفعہ پھر وہ اس سوال پر سوچ رہا تھا کہ خدا کے نزدیک کامیابی کیا ہے؟ اس کی تحقیق سے کمپنیوں نے بے شمار دولت کمائی لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ کامیابی کا معیار ڈالر نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوئے وہ ہر روز خدا سے مدد مانگتا کہ وہ کوئی ایسا شخص تلا ش کرسکے جس کی زندگی وہ آسان بنا سکے یا جسے بہتر انسان بننے میں مدد دے سکے۔
زندگی کا مقصد کیا ہے اور بہتر زندگی کسے کہتے ہیں۔ یہ سوال اتنے ہی قدیم ہیں جتنا کہ انسان۔ ان دونوں سوالوں کے جواب کی جستجو آپ کو قبل از مسیح کے دانشور اور فلسفیوں سے لے کر جدید دور تک آپ کو انسانی تاریخ میں باربار نظر آئے گی، لیکن ان سوالات کا جواب جوکرسٹنن نے ڈھونڈنے کی کوشش کی اس سے بہتر جواب شاید ملنا ممکن نہیں۔
آپ چاہیں جتنے جواب تلاش کرلیں لیکن بات آخر میں وہیں آکر رکے گی۔ اس سے آگے بات کا جانا ممکن نہیں۔ اس لیے اگرکوئی انسان ان جوابات کے علاوہ اپنی زندگی گذارنے کی کو شش کرتا ہے تو وہ زندگی جھوٹی، مصنوعی اور دو غلی کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوگی۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کو جھوٹی، مصنوعی اور دوغلی زندگی گذارنے کی عادت پڑگئی ہے۔ آپ اورکچھ نہ کریں بس اپنے ہی ملک میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا تقریباً ہر شخص جھوٹی، مصنوعی اور دوغلی زندگی کو اصل زندگی سمجھ کرگذار رہا ہے۔
یہ تو عام لوگوں کی بات ہوئی اگر ہم خاص یا انتہائی خاص لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو وہ جھوٹی، مصنوعی اور دوغلی زندگی کو نہایت فخر اور غروروتکبرکے ساتھ گذار رہے ہیں وہ چیزوں کی محبت میں تمام اصل محبتوں کو فضول لچر، دھوکا اور فراڈ مانے ہوئے ہیں حالانکہ انسانی تجربہ گاہ میں یہ بات ہر ہر دور میں پیدا ہوئی اور پھلی پھولی ہے کہ سب کچھ مایا ہے نظرکا فریب ہے سب جھوٹ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان کیوں بار بار چیزوں کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے سب کچھ جانتے ہوئے اور سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی۔