نجومیوں کی طرف بھاگتے انسان
کیا آپ نے کبھی جنگل میں کسی طاقتور یا کمزورجانورکو اپنے حال و مستقبل کی معلومات کی خاطر کسی نجومی کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ آپ کا جواب نہ میں ہوگا اور ساتھ ہی آپ یہ بھی کہیں گے کہ جانوروں میں عقل وشعورکب ہوتا ہے، اس لیے جنگلوں میں نجومی نہیں ہوتے ہیں چونکہ انسانوں میں عقل وشعور اور علم ہوتا ہے اس لیے نجومی انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔
نجومی انسانوں میں اس لیے بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ انسان ناقابل بھروسہ، ڈرپوک اورخوفزدہ جانور ہے جو بظاہر تو طاقتور، بہادر، نڈر نظر آنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ بالکل کھوکھلا اور ڈرپوک ہوتا ہے، آپ کسی بھی بظاہر طاقتور، بہادر انسان کو بے خیالی میں ڈرا کو دیکھ لیں تو اس کی بہادری، نڈرپن کا پول اسی وقت کھل جائے گا یا پھر اس قسم کے انسان کی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد آپ اس کی عیادت کرکے دیکھ لیں، جب آپ اس کی عیادت کررہے ہونگے تو وہ صاحب آپ کا ہاتھ پکڑکرآپ سے خود کے لیے بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ دعائیں کرنے کی التجا کررہے ہونگے اورآپ باربار ان سے کہہ رہے ہونگے کہ محترم ہمت اور حوصلہ رکھیں، خدا آپ کو جلد ہی صحت مند کردے گا۔
آپ باہر نکل کر اپنے آپ سے یہ ہی کہہ رہے ہونگے کہ انسان کمزور ترین مخلوق ہے اور آپ کو یہ بھی احساس ہو جائے گا کہ یہ غروروتکبر، بڑھکیں، شان وشوکت نازونخرے سب کے سب جھوٹے ہوتے ہیں، دیمک زدہ ہوتے ہیں، کھوکھلے ہوتے ہیں دھوکا اورفراڈ ہوتے ہیں جو انسان اپنے آپ کو دیتا آرہا ہوتا ہے انسان اس قدرڈرپوک اورکمزور واقع ہوا ہے کہ وہ اپنے حال و مستقبل کے لیے ہروقت خوفزدہ اورڈرا ڈرا رہتا ہے اس کے لیے ہر وقت فکر مند رہتا ہے جو لوگ محفلوں میں نجومیوں کو فراڈ اوردھوکے باز قرار دے رہے ہوتے ہیں وہ ہی نجومیوں کے ہجروں کے سب سے زیادہ چکر لگارہے ہوتے ہیں۔
اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں، ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے حال اور مستقبل کے لیے ہروقت خوفزدہ ہر وقت فکر مند۔ یہ حال صرف ہم جیسے عام انسانوں کا ہی نہیں ہے، دنیا کے طاقتور ترین انسانوں کا حال بھی ہم سے مختلف نہیں ہے۔
آئیں! دنیا کے طاقتور ترین شخص سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن کی کہانی پڑھتے ہیں۔ 1990 میں جون کونگلی کی کتاب What Does Joan say? شائع ہوئی تھی، جس میں اس خاتون نے دنیاکو چو نکا دینے والا یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایسی جوتشی ہے جو امریکا کے مشہور سابق صدر رونالڈ ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن کو مشورے دیاکرتی تھی۔ کونگلی نے لکھاہے کہ "نینسی ریگن کے وسیلے سے میرا صدر ریگن سے براہ راست رابطہ تھا۔
صدرکی تمام پریس کانفرنسوں، اکثر تقریروں، قوم کے نام سرکاری خطاب اور صدارتی طیارے کے اڑنے اور اترنے کے اوقات کا تعین میرے حوالے سے ہوتا تھا۔ یہ میں ہی تھی جس نے صدارتی انتخاب کی مہم کے زمانے میں صدارت کے ایک امیدوار جمی کارٹر کے ساتھ ایک اور صدارت کے ایک اور امیدوار واٹر مونڈیل کے ساتھ ریگن کے دو مباحثوں کا وقت طے کیا تھا۔ صدرکے تمام طویل اور مختصر غیر ملکی دوروں کے اوقات کا تعین بھی میرے مشورے سے ہوتا تھا۔
تمام سربراہ کانفرنسوں کے لیے بریفنگ کا وقت بھی میں متعین کرتی تھی، تاہم ماسکو میں سوویت یونین کے سربراہ کے ساتھ وقت کا تعین میرے مشورے سے نہ ہوا تھا۔ البتہ صدرکے ماسکو دورے کا وقت میں نے ہی طے کیا تھا۔ کونگلی کا دعویٰ ہے کہ وہ سیکنڈ تک کا تعین بھی کرتی تھی۔ اس کی مثال اس نے یہ دی ہے کہ گیارہ نومبر1987 کو صدر ریگن کو اخباری نمائندوں کے سامنے سپریم کورٹ کے جج انتھونی کینیڈی کے تقرر کا اعلان کرنا تھا۔
کونگلی نے اس اعلان کے لیے10:32 کے 25 سیکنڈ بعد کا وقت مقررکیا۔ اس پر اسٹاپ واچ دے کر ایک آدمی کو مقررہ لمحے کا اشارہ دینے کا فرض سونپا گیا۔ جونہی لمحہ آیا صدر صاحب نے متعلقہ شخص کے اشارے پر جج کی تقرری کا اعلان کردیا۔
علم نجوم میں مہارت کا دعویٰ کرنے والی جون کونگلی نے یہ بھی لکھا ہے کہ1985 میں جب صدر ریگن کا کینسرکے سلسلے میں آپریشن ہوا تھا تو انھوں نے نینسی ریگن کو تین روز تک یہ آپریشن ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ کونگلی کاکہنا ہے کہ سرکاری امور پر بھی وہ نینسی ریگن پر اثر انداز ہواکرتی تھی اور اس نے سابق سوویت صدرگوربا چوف کے بارے میں صدرریگن کی رائے بدلنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔
یہاں تک کہ اس نے گوربا چوف کا زائچہ بھی تیارکیا تھا۔ اس زائچے سے معلوم ہوا تھا کہ گوربا چوف اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روسی نژاد ہونے اور روسی تربیت کے باوجود گورباچوف میں انسان نوازی کی جبلت موجود تھی۔
امریکی صدر ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن نے بھی ایک کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان "میری باری" ہے۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ نجوم دان کونگلی مدد گار ومعاون تھیں۔ ایک قسم کی معالج، تاہم ان کا اثر ورسوخ صرف تعین اوقات تک محدود تھا۔"
ظاہر ہے کہ خاتون اول کی اس شہادت کے بعد اس امرکی تصدیق ہوجاتی ہے کہ کونگلی صاحبہ کو صدر ریگن کے کام کے کم ازکم بعض پہلوئوں پر اثرورسوخ حاصل تھا، جب سابق امریکی صدر اور ان کی اہلیہ کا یہ حال تھا تو پھر ہمارے ملک کے چھوٹے چھوٹے سے طاقتور اور با اختیار اگرنجومیوں کے ہجروں کے چکرکاٹتے پھرتے ہیں تو پھر اس میں حیران ہونے اور پریشان ہونے کی کیا بات ہے، کیونکہ آخر وہ بھی انسان ہی تو ہیں۔
خوفزدہ، ڈرپوک، کھوکھلے انسان۔ اپنے سائے سے ڈرنے والے لیکن جب وہ جلسوں، میٹنگوں یا محفلوں میں سلطان راہی بن کر بڑی بڑی بڑھکیں مار رہے ہوتے ہیں یا دیمک زدہ پروٹوکول کے لیے عام لوگوں کو ذلیل وخوارکررہے ہوتے ہیں، تو اس وقت اپنے قہقہوں کو قابومیں رکھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں ہے۔