جانور نہیں سوچتے
آئیں ! اس بات کا سراغ لگاتے ہیں کہ ملک میں تہتر سالوں سے اعلیٰ عہدوں اور منصبوں پر قابض افراد، ملک کے عام بائیس کروڑ پاکستانیوں کو آیا انسان مانتے بھی ہیں یا انھیں جانور تسلیم کیے بیٹھے ہیں۔ ماضی کے بہت سے معاشرے عوامی بحث کو اچھے فیصلوں تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے رہے ہیں اور اسے بہت زیادہ اہمیت و وقعت دیتے رہے ہیں۔
قدیم ایتھنز ہمیشہ اختلاف اور بحث و مباحثے کا اکھاڑا بنا رہتا تھا۔ بدھ اورجین روایتیں عوامی بحث مباحثے کی حوصلہ افزائی کے لیے مشہور تھیں اور رسمی حاکمیت کو زیادہ محترم نہ جانتی تھیں۔ اشوک نے ایک لاٹھ پرکنندہ کروایا تھا کہ اپنے مسلک کی بڑائی اور دوسرے مسلکوں کی تذلیل نہ ہونی چاہیے۔
نیلسن منڈیلا نے اپنی خود نوشت سوانح میں عوامی بحث مباحثے کی ان افریقی روایات کا ذکر کیا ہے جن کا مشاہدہ اسے بچپن میں اپنے علاقے کے ریجنٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں ہوا کرتا تھا " وہ ہر شخص جو بولنا چاہتا تھا بو لتا تھا " وہ لکھتا ہے اور " خود انتظامی کی بنیاد یہ تھی کہ تمام لوگ اپنی آرا کے اظہار میں آزاد ہیں اور شہریوں کی حیثیت سے سب کی قدر ایک سی تھی۔
قدیم عہد کے چین میں ماہانہ اجلاس کا رواج شروع کیا گیا تھا جن میں کھانے پینے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا لوگ ان اجلاسوں میں رویوں، انعامات اور اخلاقیا ت کوزیر بحث لاتے تھے اور یہ بحثیں اکثر شاہی فرمانوں کے رد عمل میں واقع ہوتی تھیں۔ مکالمے کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ ہم فریقین کے درمیان یہ فیصلہ کریں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم سوچتے کیسے ہیں۔ سقراط ایک بات بار بار کہتا تھا کہ " سوچو" کیونکہ انسان صرف اس وقت تک انسان ہے جب تک وہ سوچتا ہے جب وہ سوچنا بند کر دیتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں جانور بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ جانور سوچتے نہیں ہیں۔
آج پاکستان میں چند ہزار اعلیٰ ترین طاقتور لوگ اس حق کے دعویدار بنے پھرتے ہیں کہ صرف انھیں ہی ملک میں سوچنے اور بولنے کا حق حاصل ہے صرف وہی سوچیں گے، بولیں گے اور فیصلے صادر کریں گے باقی بیس کروڑ انسان نہ تو سوچیں گے اور نہ ہی بولیں گے بلکہ چپ چاپ ہمارے فیصلوں کو جوں کا توں نہ صرف یہ کہ مانیں گے بلکہ ان پر عمل بھی کریں گے۔
یہ بائیس کروڑ انسانوں کے خود ساختہ ٹھیکیدار اس حد تک اپنی من مانی اور زور زبردستی کررہے ہیں کہ جو انسان ان کے خلا ف بغاوت کردیتے ہیں تو وہ انھیں زندیق اور جمہوریت دشمن کا فرمان جاری کردیتے ہیں اور ان کے پیچھے اپنے زر خرید لوگوں کو لگا دیتے ہیں جو ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں پھر مجبور ہوکر یا تو وہ ملک چھوڑ جاتے ہیں یا پھر تو بہ کرکے گوشہ نشین ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اپنی زبان بندی کر لیتے ہیں، ان کے نزدیک صرف وہ ہی انسان ہیں، باقی سب لوگ جانور ہیں اور جانور نہ تو سوچتے ہیں اور نہ ہی بولتے ہیں اور بحث ومباحثے تو ان کے نزدیک کفر کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی سوچ کار فرما ہے کہ ایک خاص طبقہ ہی تمام معاملات کو اپنے قابو میں رکھے اور عوام کو اس سے لا تعلق رکھا جائے جو ان سے کہا جائے بس وہیں تک ان کی سوچ اور کردار محدود رہے طاقتور طبقات کیا کر رہے ہیں عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ اگر عوام میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تو طاقتور طبقات کمزور پڑ جائیں گے۔
جب معاشروں کو انسانوں کی طرح قیدکر لیا جاتا ہے انھیں یرغمال بنالیا جاتا ہے تو پھر ایسے معاشروں میں لوگ بموں کے ساتھ پھٹتے ہیں، لوگ بے کفن دفنائے جاتے ہیں لوگ اپنے آپ کو مارتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی مار لیتے ہیں۔ ایسے معاشرے ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل ہوجاتے ہیں جہاں صرف جیلر اور اس کے ساتھی انسان تسلیم کیے جاتے ہیں باقی سب کا رتبہ صرف قیدی جانور کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بات ہم سب بائیس کروڑ کو اچھی طرح سے ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہم سب آہستہ آہستہ زہر کھا کر بتدریج موت کی طرف جارہے ہیں۔
اجتماعی موت کی طرف، ایک ایسی موت کی طرف جو بے وقت ہے ایسی موت کی طرف جو تمام موتوں سے زیادہ تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ ہم سب ایسے انسان ہیں جنھیں چند ہزار لوگوں نے جانور بنا کے رکھ دیا ہے دنیا بھر میں جانوروں کے بھی حقوق ہیں کچھ تو ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں جانوروں کو حد سے زیادہ حقوق حاصل ہیں جب کہ ہم تو ان جانوروں سے بھی گئے گذرے ہیں جنھیں تو ان جانور جتنے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔
ایک بات تو جیلر اور ان کے ساتھیوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینی ہوگی کہ انسانوں کو بہت زیادہ دیر تک جانور بنا کے نہیں رکھا جاسکتا ہے انھیں دیر تک گونگا اور بھوکا نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ صرف آپ بول رہے ہوں اور آپ کے قید ی ہونٹ سیئے رہیں آپ کھا رہے ہوں اور باقی سب بھوکے آپ کو کھاتا دیکھ رہے ہوں اس صورتحال میں ایک نہ ایک روز بھوکے اور گونگے آپ پر حملہ کر ہی دیں گے جتنے زیادہ بھوکے اور گونگے ہونگے اتنی ہی زیادہ شدت سے حملہ آور ہوں گے۔ یہ بات امریکا، چین، یورپ، برطانیہ نے فرانس اور روس کے بھوکوں اور گونگوں سے صدیاں پہلے سیکھ لی تھی اس لیے وہاں اب ڈھونڈے سے بھی بھوکے اور گونگے نہیں ملتے۔
یاد رکھو، تم نے اتنے خوفناک حالات ملک میں پیدا کر دیے ہیں اب سب ہی کو سب ہی سے خطرہ ہے۔ آسٹریلوی فلسفی پیٹرسنگر نے کہا ہے تکلیف اور اذیت میں حیوان ہمارے برابر ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے، چاہے یہ مجھے ہو آپ کو ہو یا کسی اور کو ہو۔