جب لوگ خواب دیکھنا بند کردیتے ہیں
عظیم منصف بین اوکری کے ناول بھوکی سڑک میں دو کردار ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔"کیا تم سمجھتے ہوکہ چوہے کیا کہہ رہے ہیں۔۔ نہیں " کیا تم ان سے باتیں کرسکتے ہو۔۔ نہیں، مگر میں ان کو مارسکتا ہوں۔۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، وہ برے سیاست دانوں اور سامراجیوں اور امیر لوگوں کی طرح ہوتے ہیں۔۔ کیسے" وہ لوگوں کی چیزیں کھا جاتے ہیں، ان کے سامنے جوکچھ آتا ہے اسے ہڑپ کر جاتے ہیں اور ایک دن جب وہ بہت بھوکے ہوں گے تو ہم کو بھی کھا جائیں گے۔۔ میں چپ ہوگیا۔"
آج پاکستان ایک مکمل Elite Capture ریاست میں تبدیل ہوکے رہ گیا ہے جہاں بڑے اور طاقتور لوگوں نے ریاست کے سب وسائل پر قبضہ کرلیا ہے اور باقی طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ جہاں یہ لوگ ملک کی ہر چیزکوکھا رہے ہیں، ان کی بھوک "بھوکی سڑک" میں تبدیل ہوچکی ہے۔
اب بس باری ہماری رہ گئی ہے جو بس آنے کو ہی ہے یہ لوگ ایک نہ ایک دن ہم سب کو بھی کھا جائیں گے اور ملک کی شاہرائوں، گلیوں میں ہماری ہڈیاں چاروں طرف بکھری پڑی ہوئی ہونگی، اس لیے کہ وہ کھائی نہیں جاسکتی ہیں ورنہ یہ لوگ اس کو بھی کھا جائیں۔ آج بھی ہم اگر غور سے شاہرائوں اور گلیوں کو دیکھیں تو ان میں کروڑوں خواب، کروڑوں خواہشیں، تمنائیں کچلی ہوئیں، روندی ہوئی آپ کو باآسانی دکھائی دے دیں گی۔ انسان تین طریقوں سے سوچتا ہے (1) دل سے (2) دماغ سے (3) پیٹ سے۔
ہم ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے ہیں جو صرف پیٹ سے سوچتے ہیں اور جنھیں اپنے سوا اورکوئی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ شکیسپیئرنے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے Merchant of Venice میں ایک یہودی تاجر شائی لاک کا بھیانک کردار پیش کیا ہے جو تاجر کے ذہن کی تصویرکشی کرتا ہے، ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ تاجر کس طرح انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے اور اپنے قرض خواہ کے جسم کا گوشت کا ٹکڑا لینے پر بضد نظرآتا ہے۔
دوسری طرف فاوسٹ دنیاوی آسائشوں اور عیاشیوں کے لیے اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیتا ہے یہ کہانی جتنی پرانی ہے اتنی ہی سچی ہے جو زندگی میں بار بار دہرائی جاتی ہے اور اب ہمارے ملک میں دہرائی جارہی ہے۔ آج پاکستان میں انسان مکمل طورپر ہارچکا ہے اور انسان دشمن ذہنیت کی مکمل طورپر جیت ہوچکی ہے اس لیے ہمارے ملک کے صاحب اقتدار و اختیار اور روساء اور امیروں کو مبارک ہو کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہو۔
اب پاکستان کے لوگ کھو کھلے، مردہ، بے بس اور بے حس ہوچکے ہیں اب وہ اپنی بیچارگی، ذلت، بھوک، بیماریوں اورگالیوں کو اپنا نصیب اور مقدر مان چکے ہیں۔ اب ان کا مقصد اور جدوجہد صرف اور صرف اپنی سانسیں برقرار رکھنا ہوچکا ہے، اسی لیے آ پ کو پورے ملک میں چار سو خاموشی ہی خاموشی نظرآتی ہے کیونکہ مردے کبھی نہیں بولتے اور چلاتے ہیں۔
کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ انسانی تاریخ میں قومیں کیوں ناکام ہوئی ہیں وہ اس لیے ناکام ہوئیں جب ان کے لوگ ناامید ہوگئے انھوں نے خواب دیکھنا بند کردیے اور جب سماجی ناانصافی کے عدم وجود کے بھوت نے ان کے سماجوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور یہ بھی کہ پر امن تبدیلی کے تمام راستے بند ہوگئے اور ریاست کے تمام وسائل، دولت، طاقت اور اختیار چند ہزار لوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ناکام قوموں کی فہرست میں اب ہمارا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔
کسی بھی ریاست کے جوازکا سب سے بڑا جواز عوام کی بہبود ہوتا ہے یعنی خوشحالی، آزادی کو فروغ دینا انھیں طاقتور اور با اختیار بنانا اور ان کی غیر ضروری تکلیفوں میں کمی کی کوشش کرنا۔ ارکے بادشاہ ارنمو نے جس نے لگ بھگ 2100 قبل از مسیح میں حکومت کی اپنی رعایا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سرزمین پر انصاف قائم کرے گا اور دکھ، تکلیف اور تشدد کا خاتمہ کرے گا۔ اس کے ہزاروں سال بعد عہد جدید میں بھی مغربی حکومتیں اپنے لوگوں سے تحفظ، خوشحالی، فلاح و بہبود، انصاف، سائنس اور تعلیم کی صورت میں علم فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں، انتخابی معرکے اکثر و بیشتر تحفظ کے تقدم اور بہبود کے تقدم کے حق میں بحث و مباحثوں میں بدل جاتے ہیں۔
یہ تمام اصول ہر ریاست کی کامیابی، خوشحالی، ترقی اور استحکام کا باعث بنتے ہیں، جب کہ ہماری سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ ہم نے ایک مربوط زاویہ نگاہ کھو دیا ہے زندگی ہمارے لیے اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے کہ ہم اس کی وحدت اور اہمیت کی تاب نہیں لاسکتے۔ ہم ایسے مقاصد سے محروم ہیں جو ہمیں موت سے آگے کوئی بات سمجھا سکیں۔ ہم ایسے دور سے گذر رہے ہیں جو گذر ہی نہیں پارہا ہے ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔ زندگی کے ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنی ہوکے رہ گئی ہے۔ البرٹ شوائٹزر نے نوبیل انعام وصول کرتے وقت اپنے خطبے میں کہا تھا " ایک دن امن اور خوشحالی کا راج ضرور ہوگا۔" یہ الفاظ دسویں صدی قبل مسیح کے Amos نامی نیک آدمی کے الفاظ میں پہلی بار ملے تھے اور یہودی اور عیسائی مذاہب میں یہ خدا کی سلطنت پر یقین کے معنوں میں لیا جاتا رہا ہے۔
یہ چھٹی صدی قبل مسیح کے عظیم چینی مفکرین کنفیوشس اور لا وتسے، پانچویں صدی قبل مسیح کے مائی تسے اور چوتھی صدی قبل مسیح کے منگ تسے کے نظریے میں پایا جاتا ہے۔ ٹولسٹوئے اور دوسرے ہم عصر مفکرین میں یہ دوبارہ نمودار ہوتا ہے لوگوں نے اس کو یوٹوپیا بھی کہا ہے مگر آج کے حالات ایسے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس کو حقیقت بننا چاہیے ورنہ انسانیت مکمل طور نیست ونابود ہوجائے گی۔
نوبیل انعام یافتہ پروفیسر رالف بنش اپنے بچپن کے بارے میں لکھتے ہیں جب ان کی نانی جسے وہ نانا کہتے تھے اور اس کی چار بالغ اولاد، اپنے اہل خاندان کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہا کرتے تھے یہ ایک باہم گتھا ہوا مادر سری خاندان تھا جس میں نانی غالب شخصیت تھیں ایک عورت جو غلامی میں پیدا ہوئی تھی حقیقی معنوں میں ایک غیر معمولی شخصیت رہی ہوگی اس نے ہم سب کو سکھایا تھا اڑجانا اپنے حق کے لیے، ذلت کی قبولیت سے انکار کردینا مگر کسی سے عداوت نہ رکھنا کہ یہ ہماری شخصیتوں میں بگاڑ پیدا کردیتی ہے، وہ فلسفہ جو نانی نے ہمیں سکھایا تھا میں نے اپنے بچوں تک پہنچا دیا ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ برابری کی بنیاد پر سلوک ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کبھی کسی کو اور طرح کے سلوک کی اجازت نہ دینا۔
ہمارے سامنے بڑی اور بہت بڑی رکاوٹیں آئیں گی اور زندگی اسی طرح چلتی ہے مگر رکاوٹوں کے مقابل صرف وہ ہی ہتھیار ڈالتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں راست باز رہو اور اپنے آپ سے اور ہمیشہ دنیا سے صاف گوئی کرو۔ جس کو تم صحیح سمجھتے ہو اس پر کبھی مصالحت نہ کرو۔ خود کبھی لڑائی مول نہ لو مگر جب تمہارے اصول دائو پر لگ جائیں تو فرار اختیار نہ کرو۔
دنیا میں سر اونچا کرکے چلو اور اس کو ہمیشہ اونچا ہی رکھو" دنیا میں سر اونچا کرکے داخل ہو حق کے لیے لڑو، ایک آدمی کے لیے یہ کتنے قیمتی الفاظ ہوتے ہیں اس بات کو وہ ہی انسان سمجھ سکتے ہیں جنھیں اپنے انسان ہونے پر فخر ہوتا ہے۔ یاد رکھو میرے ہم وطنو! تم بھی پہاڑ جیسی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہو تم میں بھی اتنی ہی صلاحیتیں اور قابلیتیں ہیں جو دوسروں میں ہیں۔ اس لیے ذرا خود کو پہچانو اپنے آپ کی عزت کرو۔ اپنے آپ سے محبت کرو، اپنا سر اونچا کرکے جیو۔ برابری کی بنیاد پر سلوک تمہارا پیدائشی حق ہے اپنے حق کے لیے لڑو۔