ایران ‘آذربائیجان میں تناؤ
ایران اور آذربائیجان کے تعلقات میں تناؤ چل رہا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک میں ایک دوسرے کے بارے میں شدید بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ باکُو سمجھتا ہے کہ اسکے مخالف ہمسایہ ملک آرمینیا کو ایران سے فوجی امداد مل رہی ہے جبکہ تہران کے حکمرانوں کاخیال ہے کہ آذربائیجان میں اسرائیل کے جاسوسی مراکز قائم ہیں جو ایران کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ایران اور آذربائیجان دونوں مسلم ممالک ہیں۔ دونوں کی اکثریتی آبادی ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ نسلی رشتے بھی ہیں۔ ثقافتی مماثلت بہت زیادہ ہے۔ اسکے باوجود انکے قومی مفادات ہم آہنگ نہیں۔ مغربی فکر سے مستعار قومی ریاست کے تصّور نے مذہبی، ثقافتی رشتوں کو کمزور کردیا ہے۔
گزشتہ جمعہ کے روزا یران نے شمال مغرب میں آذربائیجان کی سرحد پر پُل دشت اور جلفہ کے علاقوں میں فوجی مشقیں کیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ان مشقوں میں توپ خانہ اور پیدل افواج نے حصّہ لیا جبکہ ہیلی کاپٹر اور ڈرون کا استعمال بھی کیا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایران عراق جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی فوجی نقل و حرکت ہے۔ جب کوئی ملک ہمسایہ ملک کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے نہیں۔ مشقیں کرنے والا ملک دوسرے ملک کو متنبہہ کرنا چاہتا ہے۔ ایران کے عوام میں بھی آذربائیجان کے خلاف ایک عمومی فضا بنی ہوئی ہے جس سے کشیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ باکو نے بھی ایران کی سرحد کے ساتھ فوجی ساز و سامان پہنچا دیا ہے تاکہ اگر حملہ ہو تو اپنا دفاع کرسکے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علی ایف نے ایران کی عسکری مشقوں پر حیرانی کا اظہار کیا۔ اسکے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہ نے کہا کہ اپنی علاقائی حدود میں مشقیں کرنا کسی بھی خودمختار ملک کا حق ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران اپنی قومی سلامتی کے خلاف صیہونی کاروائیوں کو برداشت نہیں کرے گا اور جو کاروائی ضروری ہوئی وہ انجام دے گا۔ انکا واضح اشارہ ایران کی سرحد کے ساتھ اسرائیلی اہلکاروں کی موجودگی اور کچھ مسلح شدت پسند گروہوں کی طرف تھا۔
باکُو کے حکمرانوں کا موقف ہے کہ انکے ملک کے اسرائیل سے تعلقات کاروباری نوعیت کے ہیں اور انکی پالیسی اسرائیل کی مدد کرنے کی نہیں ہے۔ تاہم، باکوُ(آذربائیجان کا دارالحکومت) کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ایران الزام لگاتاہے کہ یہاں اسرائیل نے اپنا جاسوسی مرکز بنایا ہوا ہے جس کی مددسے ایران کے اندر کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ایران کئی مرتبہ آذربائیجان اور اسرائیل کے فوجی تعلقات کے خلاف آواز اٹھا چکا ہے کیونکہ وہ انہیں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ باکُو اسرائیل سے فوجی اسلحہ خریدتا ہے۔ ہتھیاروں سے متعلق اعداد و شمار جاری کرنے والے مستند عالمی ادارہ سِپری، کے مطابق اسرائیل نے آذربائیجان کو گزشتہ تیرہ برسوں میں پچاسی کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ ایران کی افواج کے ٹوئیٹر اکاونٹ پر گزشتہ دنوں یہ سخت پیغام نشر کیا گیا کہ ایرانی فوج ملک کی سرحدوں پر جیوسیاسی، تبدیلیاں برداشت نہیں کرے گی اور دشمنوں کے مقاصد کی سخت مزاحمت کرے گی۔ حالیہ کشیدگی کی ایک وجہ آذربائیجان سے گزرنے والا ایران کا اہم زمینی تجارتی راستہ بھی ہے۔
گزشتہ سال آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی ڈیڑھ ماہ کی جنگ میں نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقہ کے ایک بڑے حصہ کو آرمینیا کے قبضہ سے چھڑواکر اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ اب یہاں باکُو کی عملداری ہوگئی ہے۔ ایران اس لڑائی میں خفیہ طور پر آرمینیا کی مدد کرتا رہا ہے کیونکہ وہ مغربی ایشیا کے ممالک اور رُوس سے زمینی تجارت کیلیے کاراباخ کا راستہ استعمال کرتا تھا اور کوئی راہداری یا کسٹم ٹیکس ادا نہیں کرتا تھا۔ جب یہ علاقے آذربائیجان کے زیرانتظام آگئے توآذری حکام نے ایرانی ٹرکوں کو پکڑنا شروع کردیا اور ان سے راہداری وصول کرنا شروع کردی۔ آذری حکام کو یہ بھی شبہہ رہتا ہے کہ ایرانی ٹرک آرمینیا کیلیے اسلحہ لیکر جاتے ہیں۔ اسلیے وہ انکی چیکنگ کرتے ہیں۔ ایران اس جانچ پڑتال اور راہداری کو اپنی تجارت کے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ایرانی میڈیا میں شائع ہونیوالے مضامین سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں آذربائیجان اور آرمینیا میں جنگ ہوئی تو ایران کھل کر آرمینیا کا ساتھ دے گا۔
ایران کے اندر آذری یا ترک نسل کی آبادی خاصی تعداد میں موجود ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا چالیس فیصد۔ خاص طور سے اسکے چار شمالی صوبوں میں۔ آذربائیجان کے لوگ ایران کے اس حصہ کو جنوبی آذربائیجان کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایران کا شہر تبریز آذری آبادی کا بڑا مرکز ہے۔ ایرانی حکمرانوں کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی آبادی کو تہران کے خلاف بغاوت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور گریٹر آذربائیجان کی تحریک کو ہوا دے سکتے ہیں۔ آذربائیجان کے لوگ مسلک کے اعتبار سے شیعہ لیکن نسلی طور پر ترک نسل ہیں۔ تاہم نسلی رشتہ مسلکی تعلق پر غالب ہے۔ ایرانی دانشوروں کوخدشہ ہے کہ ایک وسیع تر ترک قوم کے تصور کی آبیاری کی جارہی ہے جس کی زد میں ایران کا بڑا علاقہ آتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں ترکی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے جسے ایران اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
ایران خود بھی علاقائی سیاست میں ملوث ہے۔ پاکستان کی ترکی اور آذربائیجان سے گہری دوستی ہے۔ حالیہ عرصہ میں آذربائیجان، ترکی اور پاکستان کے مابین فوجی اشتراک بڑھ گیا ہے اورگزشتہ ماہ ستمبر میں تینوں ملکوں نے آذربائیجان میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں جنہیں تہران میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ پہلے ہی ہمارے ایران سے تعلقات افغانستان سمیت کئی امور پر مسائل کا شکار ہیں۔ آذربائیجان اور ایران کی کشیدگی کے اثرات ہمارے ملک پر بھی مرتب ہوں گے۔ مغربی اور وسط ایشیا خطہ میں استحکام کیلیے ایک بڑے کثیر ملکی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تاکہ یہ تمام ملک ایک دوسرے کو انکی علاقائی حدود اور خود مختاری کے احتر ام کا یقین دلائیں اور ان کے مابین اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔