Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Tera Ilaj Nazar Ke Siwa Kuch Aur Nahi

Tera Ilaj Nazar Ke Siwa Kuch Aur Nahi

تِرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

اب تو مساجد بھی اس غلطی سے مامون نہیں رہیں۔ جمعے کے خطبات، دروسِ قرآن، دروسِ حدیث اور ہرتبلیغی بیان میں یہ غلطی دُہرائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل بھی توجہ دلائی جا چکی ہے۔ مگر بات ایسی ہے کہ بار بار متوجہ کرنا ضروری ہے۔ یہ منہ چڑھی غلطی عوام ہی نہیں، خواص کی زبانوں پر بھی چڑھی جا رہی ہے۔ خواص کو غلطی پردیکھ کر جو حالت ہوتی ہے اُس کی تصویر شاید شہزادی زیبؔ النساء نے کھینچ لی تھی:

انگشتِ حیرت دَر دَہاں
نیمے دَروں، نیمے بِروں

حیرت والی اُنگلی منہ کے اندر، آدھی منہ میں آدھی باہر۔ صاحبو! علما فضلا بھی اب علاوہ اور سِوا، میں فرق نہیں کر پاتے۔ روز مرہ گفتگو اورعوامی تقاریر میں تو خیر، علمی خطبات اور تدریسی تحاریر میں بھی استثنا کے لیے علاوہ، کے سِوا انھیں کوئی لفظ نظر ہی نہیں آتا۔ بعض سکہ بند اہلِ زبان بھی اس غلطی کو بار بار دُہراتے پائے گئے ہیں۔ بلکہ نوبت تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سِوا، کے معنوں میں علاوہ، لکھنے کے حق میں دلائل بھی دیے جانے لگے ہیں اور ستم تو یہ ہے کہ ان دلائل کو تقویت پہنچانے کے لیے اکابر کی تحریروں سے مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔

زبان و بیان کی بہت سی دوسری غلطیوں کی طرح شاید یہ غلطی بھی گوارا کر لی جاتی۔ غلط العام، کہہ کر فصیح البیان، قرار دے ڈالی جاتی۔ مگر چوں کہ اس غلطی کے اثرات ہمارے بنیادی عقیدے اور کلمۂ توحید کے ترجمے پر بھی پڑتے ہیں، چناں چہ لازم ہے کہ اس باب میں سختی سے احتیاط کی جائے۔ اصلاح کی خاطر، جہاں تک بات پہنچائی جا سکے، پہنچا دی جائے۔ بھائیو! تم ہی کہو کہ غلطی سے اجتناب کرنا بہتر ہے یا غلطی پر اصرار کرنا اور جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس پر اَڑے رہنا؟ غلطی ابلیس نے بھی کی اور آدمؑ سے بھی ہوئی۔ رویہ کس کااچھا تھا؟

علاوہ، کے لغوی معنی ہیں "وہ چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ دی جائے"۔ عربی لغت میں علاوہ، کا مطلب "مَا زَادَ عَلَیہ" بتایا گیا ہے۔ یعنی جو اس پر زیادہ ہو۔ جیسے کہا جائے کہ مزدوری کے علاوہ کھانا بھی دیا جائے گا۔ گویاعلاوہ، کہہ کررقم اور کھانا دونوں چیزیں مزدوروں کی اُجرت میں شامل، کر دی گئیں۔ پس علاوہ کا مفہوم شمولیت اور شرکت ہے۔ مثلاً احمد کے علاوہ تقریب میں حامد اور محمود شریک ہوئے۔ یہ تین افراد کا ذکر ہوا۔ علاوہ کی جگہ اردو میں سمیت، بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگرکہا جائے کہ احمد کے علاوہ حامد، محمود، حماد اور حمید آج غیر حاضر ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ احمد سمیت سب غیر حاضر ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک، یعنی اچھے دن جو گزرے ہیں اُن دنوں میں، کتب و رسائل کے اشتہارات تلے اس طرح کا فقرہ لکھا ہوا نظر آتا تھا: "قیمت 10 روپے، علاوہ محصول ڈاک"۔

بظاہر لفظ علاوہ، یہاں دو چیزوں کو جدا جدا کرتا نظر آ رہا ہے، لیکن در اصل یہاں بھی شمولیت ہی ظاہرہو رہی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ خریدار کی جان صرف10 روپے ادا کرکے چھوٹ نہیں جائے گی۔ دس روپے کے علاوہ ڈاک کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے۔ گویا علاوہ، لکھ کر قیمت میں ڈاک خرچ شامل، کیا گیا ہے۔ پس اگر کسی محفل میں آپ یہ دعویٰ فرمانا چاہتے ہوں کہ"یہاں میرے علاوہ سب جاہل ہیں"۔ توذرا سوچ سمجھ کر دعویٰ فرمائیے گا۔ علاوہ اورسوا، کے فرق کا علم رکھنے والے فوراً اتفاق کر لیں گے۔ کیوں کہ میرے علاوہ، کا مطلب ہوگامجھ سمیت۔

حرفِ استثنا علاوہ، نہیں ہے حرفِ استثنا سِوا، ہے۔ سِوا، شرکت و شمولیت کے لیے کبھی نہیں آتا۔ علیٰحدگی، اخراج اور نفی کے لیے آتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ "اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں" تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ معبود صرف اللہ ہے، باقی کوئی بھی ہو، وہ معبود نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ "اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں"۔ تو علاوہ، کہہ دینے سے اس فقرے کا مفہوم یہ بنا کہ اللہ سمیت کوئی معبود نہیں۔ چلیے چھٹی ہوگئی۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ "کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری سے شفا ہے" تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ کلونجی میں موت سمیت ہر بیماری سے شفا ہے۔ جب کہ حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ "موت کے سوا" ہر بیماری سے شفا ہے۔ یعنی موت کا کوئی علاج نہیں، موت، مستثنیٰ ہے، باقی ہر بیماری کا علاج کلونجی سے ہو سکتا ہے۔ بس طریقۂ علاج معلوم کرلینا چاہیے، ایم بی بی ایس ڈاکٹر خالد غزنوی کی کتاب "طب نبویﷺ اور جدید سائنس" سے، جو دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ ناشران "الفیصل" اُردو بازار، لاہور۔

علاوہ اور سوا ایک دوسرے کے مترادف الفاظ نہیں، متضاد ہیں۔ سِوا، ہی کے معنوں میں عربی کی طرح اردو میں بھی ماسوا، بجز، اِلّا، اورغیر، وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ رحمٰن کیانی سرورِ کائناتﷺ کے حضور اُمتِ موجود کے حالاتِ زبوں پیش کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں

ماسواللہ زمانے میں، شہِ ہر دو سرا!
یہ کسی کے بھی نہیں، کوئی نہیں ہے ان کا

بجز، کا استعمال فیضؔ کے اس مشہور مصرعے میں دیکھیے "ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت"۔ یعنی دل پر ہر طرح کا داغ ثبت ہے سوائے ندامت کے داغ کے۔ مراد یہ کہ بس ندامت کا داغ نہیں ہے۔ اب اِلّا، کی مثال بھی لے لیجیے۔ میرؔ صاحب فرماتے ہیں:

آج ہمارے گھر آیا، تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
اِلّا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

مطلب یہ کہ اپنا کمینہ پن دکھانے کے سوا شاعر کے گھر میں کھانے یا دکھانے کو کچھ نہیں۔ پیزا، فرنچ فرائیز، کولڈ ڈرنک، کچھ نہیں۔

عام بول چال میں بھی اِلّا، کا استعمال عام ہے۔ مثلا:

"میں اب اُس کو اپنے گھر میں کبھی گھسنے نہیں دوں گا، اِلّا یہ کہ وہ اپنے فعل پرنادم ہو اور اپنی بہن سے معافی مانگ لے"۔

سوا، کے معنوں میں لفظ غیر، کا استعمال کرتے ہوئے مرزا غالبؔ کی خوشی ملاحظہ فرمائیے:

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حُسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

نگاہ، کی جگہنکاح، ہوتا تو اچھا تھا۔ غیر، کے بعد از، لگانے کا رواج اب کم ہوگیا ہے۔ عام بول چال میں غیر، سے پہلے ب، لگا کر سِوا، کے معنی لے لیے جاتے ہیں، مثلاً "بغیر اجازت اندر آنا منع ہے"۔ یعنی اندر آنے کی سب کو ممانعت ہے، بجز اس کے، سوائے اس کے یا اِلّا یہ کہ کوئی شخص اندر آنے کی اجازت لے لے۔ حضرت امیرؔ مینائی اپنے ضرب المَثَل شعر میں لفظ سِوا، استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ساری دُنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

(اس شعرکے علاوہ اسی غزل کے کئی اشعار صرب المثل ہوئے۔ لگے ہاتھوں ایک اورضرب المثل شعر سے لطف لے لیجے)

وصل کا دن اور اتنا مختصر؟
دن گنے جاتے تھے اِس دن کے لیے؟

یاد رکھو اے صاحبو کہ سوا، حرفِ استثنا ہے اور علاوہ، حرفِ شمولیت جو 'Moreover'کا مفہوم ادا کرتاہے، غلطی سے بچنابہتر ہے۔ اقبالؔ نے ایک غزل میں سِوا، کو ردیف کا حصہ بنایا ہے، یہ غزل پڑھنے سے، سوا کامفہوم واضح ہوگا، علاوہ ازیں نظر کاعلاج بھی ہو جائے گا:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali