ممکن نہیں اجتماعِ ضِدَّین

لوگوں کی روش سے ہمیں ہوتا ہے یہ معلوم، کہ ضمیر جعفری نے ٹھیک ہی کہا تھا:
کبھی اِک سال میں ہم مجلسِ اقبالؔ، کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
سو، اس سال بھی 9 نومبر کو ملک بھر میں جا بہ جا مجلسِ اقبالؔ، کا انعقاد ہوا۔ ایسی ہی ایک مجلس میں ماہرین کے ساتھ ساتھ اس مبتدی کو بھی بلا لیا گیا۔ تقریب کا موضوع تھا "اقبالؔ کا نظریۂ قومیت"۔ اہم موضوع تھا، کیوں کہ یہی وہ نظریہ ہے جسے ہم "نظریۂ پاکستان"قرار دیتے ہیں۔ خطبات شروع ہوئے تو ایک استادِ محترم نے کہ ماہرِ اقبالیات بھی تھے، اپنے خطبے میں اقبالؔ کا یہ مشہور قطعہ پڑھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیﷺ
اُن کی جمعیت کا ہے مُلک و نَسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں؟
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
اس قطعے کے آخری دو اشعار میں لفظ جمعیت، چار بار آیا ہے۔ ہر بار اُستادِ گرامی نے اس کا تلفظ "جمی عَت" کیا۔ بڑی کوفت ہوئی۔ تلفظ بگڑا سو بگڑا، دونوں اشعار کا وزن بھی بگڑ گیا۔ گویہی تلفظ بہت سے عام لوگ بھی کرتے ہیں، حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت سے کارکنان بھی اپنی تنظیم کو "جمی عَت" ہی کہا کرتے ہیں۔ مگر عام لوگوں کا تلفظ بگڑنے پر اتنی کوفت نہیں ہوتی جتنی اساتذہ کا تلفظ بگڑا دیکھ کر ہوتی ہے۔ اگر یہی مکتب اور ایسے ہی مُلّا ہوں گے تو ہمارے بچوں کا کام تو تمام ہوجائے گا۔ اُردو کے اساتذہ سند مانے جاتے ہیں۔ اُن کی مثال دی جاتی ہے۔ اُنھیں درست تلفظ ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جامعات کے اساتذہ کی تنخواہیں بھی کچھ کم نہیں ہوتیں کہ عذر کرسکیں:
"صاحب! اتنے پیسوں میں تو یہی تلفظ ادا کیا جائے گا"۔
پھر کیا مجبوری ہے؟
صاحبو! ایک لفظ ہے جمع۔ اس میں میم ساکن ہے۔ مگر لوگوں میں سکون کہاں؟ لوگ جمع، کے میم کو بھی متحرک کرکے یعنی زبر لگا کر بولا کرتے ہیں۔ دیکھنا ہو تولفظ جمع، کادرست تلفظ غالبؔ کے اس شعر میں دیکھیے:
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
جمع، کا مطلب ہے کُل، تمام، جملہ، سب، سارا، اکٹھا اور یکجا وغیرہ۔ اس لفظ سے جہاں اور الفاظ بنتے ہیں، وہیں جمعیّت، کا لفظ بھی بنا ہے۔ اس کا درست تلفظ "جم عِی یّت" ہے۔ جمعِیَّت، کا مطلب ہے جمع ہونا، یکجا ہونا یا اکٹھا ہونا۔ اصطلاحاً یہ لفظ گروہ، انبوہ، جمگھٹے، تنظیم اور پارٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمعیّت، کا ایک مفہوم طمانیت، اطمینان، تسکین اور تسلّی بھی ہے۔ طبیعت کی تسلّی کو جمعیتِ خاطر، کہتے ہیں۔ "شکوہ" میں اقبالؔ نے امت کی طرف سے دنیا بھر میں توحید کا پیغام پہنچانے کی تگ و دَوکا ذکر کرتے ہوئے کہا:
ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ اُمت ترے محبوبﷺ کی دیوانی تھی؟
جمع، سے بننے والے الفاظ میں سب سے اہم تو آج کا دن ہے، یعنی جمعہ۔ اُردو میں جمعہ سے مراد جمعے کا دن بھی لیا جاتا ہے اور جمعے کی نماز بھی۔ جمعہ کا دن مسلمانوں کے ایک جگہ جمع ہونے کا دن ہے، مگر مسلک اور مکتب فکر کا تفرقہ پڑ جانے کے باعث پوچھنا پڑتا ہے:
"تم جمعہ کہاں پڑھو گے؟"
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب صرف ایسی مساجد کو جامع مسجد، کہا جاتا تھا جہاں آبادی کے سب مسلمان جمع ہو کر جمعہ پڑھتے تھے۔ مگر اب یہ زمانہ آلگا ہے کہ ہر گلی کی ہر مسجد جامع مسجد، ہے۔ پس ہر گلی کا مسلمان اپنی اپنی مسجد میں جمعہ پڑھتا ہے۔ محلے کے سب مسلمان کسی ایک جگہ جمع ہوکر جمعہ نہیں پڑھتے۔ خیر، کوئی کہیں بھی جمعہ پڑھے، مگر یاد رہے کہ درست املا جامع مسجد، ہے، اسے جامعہ مسجد، لکھنا غلط ہے۔
جمع ہونے کی جگہ کو مجمع، کہا جاتا ہے۔ مگر اُردو میں اس لفظ کا استعمال بھیڑ بھاڑ، انبوہ یا ہجوم کے لیے زیادہ ہوتا ہے۔ عربوں کے ہاں علمی و تحقیقی اداروں یا اکادمی وغیرہ کے لیے بھی مجمع، کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم بھی چاہیں تو استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر چاہیں کیوں؟
"یونی ورسٹی" میں مختلف علوم کے شعبے یکجاجمع کردیے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس تعلیمی ادارے کو جامعہ کہا جاتا ہے، مثلاً جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور جامعہ اسلامیہ بہاول پور۔ اب شاید جامعات کے نام اُردو میں لینے کو ہتک سمجھا جاتا ہے۔ کس کی ہتک بھئی؟
جس کتاب، مضمون، تحریر یا تقریر میں موضوع سے متعلق تمام باتیں جمع کرکے بیان کردی گئی ہوں اُسے جامع، قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے دین میں چوں کہ انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے ہر معاملے سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے لہٰذا ہم فخر سے کہتے ہیں کہ "اسلام ایک جامع دین ہے، دنیا کے کسی مذہب میں ایسی جامعیت نہیں پائی جاتی"۔
اسلام میں جماعت، کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ دو آدمی بھی ہوں توجماعت ہو جاتی ہے۔ جماعت کے لفظی معنی تو غول، ٹولی، مجلس وغیرہ ہیں، مگر اصطلاحی معنوں میں ایک تو یہ لفظ اک ساتھ نماز ادا کرنے والے گروہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ امیرؔ مینائی نے کیا:
دے جلد جام ساقی، ٹوٹے خمار میرا
تیار ہے جماعت، ہے انتظار میرا
دوسرے یہی لفظ تعلیمی اداروں کے مختلف درجوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جماعت اوّل تا دہم۔ اچھے زمانوں میں یہ لفظ اُن معنوں میں بھی بولا جاتا تھا، جن معنوں میں اب پارٹی، بولا جاتا ہے۔ آج بھی جماعتِ اسلامی، تبلیغی جماعت اور جماعت المسلمین جیسے جماعتی نام سننے کو مل جاتے ہیں، الحمدللہ۔
بھائیو! ورق تمام ہوا اور "جمع" باقی ہے۔ من حیث المجموع ابھی جمعدار، جمعداری، مجموعہ، مجموعی، جمیع، اجماع، مجامعت اور جماع جیسے بہت سے الفاظ کا اِس کالم میں اجتماع نہیں ہوسکا ہے۔ کالم کی اشاعت کے بعد ہمارے محبتی اور مخلص قارئین بھی بہت سے بچھڑے ہوئے الفاظ ہمیں ارسال کرتے رہیں گے۔ ہاں آج کل جماعت اسلامی کے "اجتماعِ عام" کا بڑا چرچا ہے۔ شکر ہے کہ کنونشنوں اور کانفرنسوں کے اس دور میں ہماری یہ پیاری اصطلاح ابھی باقی و برقرار ہے۔ اجتماع، کے لفطی معنی تو جمع ہونا اور یکجا ہونا، ہی ہیں۔ مگر بالعموم اس سے مراد جلسہ، نشست اورلوگوں کا اکٹھا ہونا لیا جاتا ہے۔ اکٹھا ہونے اور ملاپ کے معنوں میں یہ لفظ ستاروں کے یکجا ہوجانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دو مخالف نوع کی چیزوں کے جمع ہوجانے کے لیے بھی۔ مخالف اور متضاد چیزوں کے یکجا ہوجانے کو اجتماعِ ضِدَّین، کہا جاتا ہے۔ پہلوانِ سخن امام بخش ناسخؔ نے محبوب کے ملاپ سے مایوس ہوکرعشق کے اکھاڑے میں چت ہو جانے کا اعلان یوں کیا تھا:
ممکن نہیں اجتماعِ ضِدَّین
تُو بت ہے، میں بندۂ خدا ہوں

