Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Mashhoor Nasariyati Idare Ke Maroof Mezban

Mashhoor Nasariyati Idare Ke Maroof Mezban

مشہور نشریاتی ادارے کے معروف میزبان

کراچی سے ہمارے محترم دوست پروفیسر علی اکبر نے ایک دلچسپ اور دل شکن واقعہ ارسال فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں: "نشریاتی اداروں نے جس طرح اُردو کے ساتھ انگریزی کو خلط ملط کیا ہے، اس سے وہ تمام افراد دل گرفتہ ہیں جو اُردو سے محبت کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک تقریب میں ایک مشہور نشریاتی ادارے کے معروف میزبان سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں اُردو کے استیصال کا ذکر ہوا تو موصوف نے کہا کہ خبروں میں تو اب بھی اچھی اُردو استعمال کی جاتی ہے۔ اس پر میں نے ایک خبر میں پانچ بار لفظ "تاہم" کی تکرار کی طرف توجہ دلائی کہ اس کی جگہ چناں چہ، اِس لیے اور لہٰذا، کے الفاظ استعمال ہوسکتے تھے۔ موصوف نے برملا فرمایا کہ ہمارا کام عوام تک خبر پہنچانا ہے، اُردو سکھانا ہمارا منشا نہیں۔ افسوس کہ رفتہ رفتہ سیکھنے سکھانے کو ہم محض کتاب، قلم، اُستاد اور تعلیمی اداروں تک محدودکرتے جارہے ہیں"۔

پروفیسر صاحب کو مزید افسوس ہوگا یہ جان کر، کہ کتاب، قلم، اُستاد اور تعلیمی اداروں سے بھی اب کچھ سیکھا جارہا ہے، نہ وہاں سکھایا جارہا ہے۔ غیر ملکی زبان کو ذریعۂ تعلیم بناکر بچوں کی فطری ذہانت کچل دی گئی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے طلبہ ہی کو نہیں، اساتذہ کو بھی نقل و چسپاں کرنے کی لت لگا دی ہے۔ تعلیم ایک تماشا بن گئی ہے۔ ننھے منے بچے تعلیمی اداروں سے گال پر ستارہ لے آتے ہیں۔ امتحان میں ناقابلِ یقین حد تک نمبر حاصل کرلیتے ہیں۔ سالانہ تقاریب سے ایوارڈ، کے نام پر کچھ لمبے، کچھ چپٹے، کچھ گول قسم کے بے مصرف کھلونے لے آتے ہیں۔ اسناد حاصل کرلیتے ہیں، ڈگریاں لے لیتے ہیں اور طلائی تمغے (یا تغمے) بھی زیبِ گُلو کرلیتے ہیں۔ مگر کچھ سیکھ سکتے ہیں نہ کسی کو کچھ سکھا سکتے ہیں۔ بیرونِ ملک تعلیم یاترا کرنے جائیں تو وہاں سے بھی میرتقی میرؔ ہی بن کر واپس آتے ہیں (بہ شرطے کہ واپس آجائیں)

مکے گیا، مدینے گیا، کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا

اس نظامِ تعلیم سے اگر کچھ علمیت، کچھ قابلیت حاصل ہوئی ہوتی، کچھ سیکھا ہوتا، کچھ سکھایا گیا ہوتا تو پچھلے اٹھہتر برسوں کے اندر اندر مادّی ترقی میں ہمارا وطن پاکستان، اہنے ہم عصر ممالک چین، جاپان اور کوریا سے آگے نہیں توکم ازکم ان ممالک کے ہم پلّا تو ہو ہی گیا ہوتا۔ واضح رہے کہ چینی، جاپانی اور کوریائی قوم کے بچے اپنی اپنی قومی زبان میں تعلیم پاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں، سوچتے ہیں اور ایجادات کرتے ہیں۔

رہا یہ معاملہ کہ ذرائع ابلاغ کا کام خبر پہنچانا ہے، اُردو سکھانا نہیں۔ تو مشہور نشریاتی ادارے کے معروف میزبان نے اس معاملے میں بھی غلط خبر رسانی کی۔ اب ہمارے نشریاتی اداروں کا واحد کام محض پیسا کمانا رہ گیا ہے۔ انھیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔ جب کتاب، قلم، اُستاد اور تعلیمی اداروں سے سیکھنے کا زمانہ تھا، تو نشریاتی اداروں سمیت تمام ذرائع ابلاغ کے تین اہم کام بہ زبانِ اُردو و انگریزی یوں بیان کیے جاتے تھے کہ ریاست کے چوتھے ستون یعنی ذرائع ابلاغ کے ذمے تین اہم وظائف ہیں:

1۔ اطلاعات (Information)

2۔ تعلیمات (Education)

3۔ تفریحات (Recreatio)

نمبر شمار 2 سے برملا انکار نے ہمارے تمام ذرائع ابلاغ کا علمی معیار گرا دیا ہے۔ نمبر ایک پر بھی اُن کا ایک نیا وظیفہ درج ہوگیا ہے۔ اس وظیفے کا عنوان ہے "اشتہارات"۔ اشتہارات سے فرصت ملتی ہے تو وقفہ کرکے کچھ اطلاعات بھی فراہم کردی جاتی ہیں۔ پہلے ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات زبان پر سند سمجھے جاتے تھے۔ آج بھی اگلے زمانوں کے کچھ استاد اپنے شاگردوں کویہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ "انگریزی زبان کی استعداد بڑھانے کے لیے، Dawn پڑھا کرو"۔ (انگریزی اخبارات کی زبان کا حال اُردو جیسا نہیں ہے)۔

اُردو زبان کی استعداد بڑھانے کے لیے کسی اُردو اخبار یا کسی اُردو نشریاتی ادارے سے استفادہ کرنے کی نصیحت اب نہیں کی جا سکتی۔ معلوم نہیں کہ اس صورتِ حال کو ملک کے اخبارات اور نشریاتی اداروں کے معزز مالکان اپنے لیے قابلِ فخر سمجھتے ہیں یا شرمناک؟

چلیے، مان لیا کہ اُردو سکھانا آپ کا فرض نہیں۔ پھر اُردو کو بگاڑنا آپ نے اپنا فرض کیوں سمجھ لیا ہے؟ یہ فریضہ آپ کو کس نے سونپا؟ ایک مشہور نشریاتی ادارے کے ایک معروف (اور قابلِ اعتماد) میزبان نے بتایا کہ جب اُنھوں نے "بریک لینے" کی جگہ بار بار "وقفہ کرنا" استعمال کیا اور یہ کہنا شروع کیا کہ "ہم واپس آتے ہیں ایک وقفے کے بعد" تو انتظامیہ کی طرف سے اُنھیں باقاعدہ تنبیہ کی گئی کہ "وقفے" کا لفظ استعمال نہ کریں، "بریک" کہا کریں۔ جب کہ پاکستانی قوم کے نشریاتی اداروں سے ہم اس کے برعکس تنبیہ کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

اُمید پہ دنیا قائم ہے۔ ہم کیوں نہ اُمید کریں کہ جس طرح قومی دفاع کے لیے یہ قوم بُنیانٌ مرصوص بن گئی تھی اُسی طرح قومی شعائر کے دفاع کے لیے بھی کوئی معرکۂ حق برپا ہوگا۔ قومی پرچم کی توہین جرم ہے تو قومی زبان کی تذلیل بھی جرم ہے۔ دونوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ ہماری مقتدرہ کو چاہیے کہ قومی ذرائع ابلاغ پر جس طرح اپنے دیگر احکام نافذ کرواتی ہے، اُسی طرح قومی زبان کے وقار کا تحفظ بھی اپنی قوتِ نافذہ کے زور سے کرے۔ یہ مقتدر قوتوں کا آئینی فرض ہے۔ آئین کو پامال کرنے کی آزادی کسی کو کب تک حاصل رہے گی؟ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔ شام توکیا رات بھی کٹ ہی جاتی ہے۔ اغیار کے ٹکڑوں پر عیاشی کا سلسلہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی عیش ایک دن اہلِ ہوس کا خون چاٹے گا۔ لہٰذا اُردو نافذ کیجیے قبل اس کے کہ آپ پر یکایک اُردو نافذ کی جائے۔

ایک اُردو نشریاتی ادارے کے ایک معروف میزبان نے ایک روز اپنے ایک نشریے میں ہنستے ہوئے، بڑے فخر سے اعلان کیاکہ "میری اُردو بہت وِیک ہے"۔

یہی حضرت اگرکسی انگریزی نشریاتی ادارے کے ملازم ہوتے تو کیا وہاں بھی ہوا کے دوش پر (On Air) یہ جملہ فخر سے کہتے کہ "کمزور My English is very"۔

مگر اُردو نشریاتی اداروں پر وہ ندامت سے نہیں، فخر سے اپنی نااہلی کا اعلان کرتے ہیں۔ صاحبو! یہی ہے قومی زبان کی تذلیل۔

پروفیسر علی اکبر کے مکتوب کے مطابق مشہور نشریاتی ادارے کے معروف میزبان نے پروفیسر صاحب کو یہ اطلاع بھی خوب دی کہ "خبروں میں تو اب بھی اچھی اُردو استعمال کی جاتی ہے"۔

پروفیسرصاحب نے اُن سے صرف تکرارِ لفظی کا شکوہ کیا۔ مذکورہ نشریاتی میزبان کے نصیب اچھے تھے کہ اُنھیں تقریب چھوڑکر بھاگنا نہیں پڑا۔ ورنہ اُنھیں یاد دلایا جا سکتا تھا کہ آپ کی اچھی اُردو میں خبرنامہ "نیوز بلیٹن" ہے، خبروں کی شہ سُرخیاں اچھی اُردو میں "ہیڈلائن نیوز" کہلاتی ہیں۔ اب تک کی خبروں کو آپ اچھی اُردو میں "نیوز آپ ڈیٹ" کہتے ہیں اور تازہ ترین خبر اچھی اُردو میں "بریکنگ نیوز" کہی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ملک کے عوام پہلے احتجاج کرتے تھے مگر خبروں میں اُردو اچھی ہوجانے کی وجہ سے اب "عوام احتجاج کرتی ہے"۔ حکومت بھی، پہلے اقدامات کرتی تھی، اب اچھی اُردو میں "اقدامات اُٹھاتی ہے"۔ معزز مہمانوں کوبُرے وقتوں میں شاید کانٹوں کا گل دستہ پیش کردیا جاتا ہوگا، مگر اب اچھی اُردو میں "پھولوں کا گُل دستہ" پیش کیا جانے لگا ہے۔ راز پہلے اِفشا ہوا کرتے تھے، اب اچھی اُردو میں "راز اَفشاں" ہونے لگے ہیں۔ الم کَش کبھی اپنا کُشتہ بنانے کو خودکُشی کیا کرتے تھے، اب اُردو اچھی ہوجانے کے باعث "خودکَشی" کرنے لگے ہیں، جیسے سگریٹ کَشی کررہے ہوں۔ مزید کیا عرض کریں، فی الحال اچھی اُردو کی اتنی ہی اچھائیوں کو بہت جانیے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari