کچھ ہوائی باتیں

ہمارے نام تو اکثر سوال آتے ہیں۔ مگر اب کی بار سوال نہیں، مشورہ آگیا۔ وہ بھی ایک سبک دوش سیاست دان کا۔ فرماتے ہیں: "ہماری دنیائے سیاست کی ہوا ہمیشہ بیانات سے بھری رہتی ہے اور بیانات ہوا سے۔ ذرا اِس ہوا کی بھی ہوا باندھیے"۔
ہوا باندھنے، کے لیے ہوا میں گرہ لگانا، ضروری ہے، جس کے معنی ہیں ناممکن، دشوار یا کارِ محال کی کوشش کرنا۔ خیر، کرتے ہیں۔
ہوا، اُس فضا کو بھی کہتے ہیں جو زمین و آسمان کے درمیان ہے، کرۂ باد کو بھی اورفضا میں بہنے والی ہر اُس چیز کو جو سونگھی جا سکے۔ اُس پھونک کو بھی ہوا کہتے ہیں جو ٹائروں اور غباروں میں بھری جاتی ہے۔ مگر اِن غباروں کو پھولتے دیکھ کر ہمارے شاعر کا منہ ہی پھول گیا:
کتنے کم ظرف ہیں یہ غبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں
شاعر صاحب کو دیکھنا چاہیے کہ یہ غبارے پھول کر کیا کرتے ہیں؟ بچوں کا دل بہلاتے ہیں۔ کیا یہ ان کی اعلیٰ ظرفی نہیں ہے؟
عربی، فارسی اور اُردو ہی میں نہیں، ترکی زبان میں بھی ہوا کو ہوا ہی کہا جاتا ہے۔ سو، ہم جس سواری کو ہوائی جہاز، کہتے ہیں، ہمارے تُرک بھائی اُسے ہوایو لاری، کہہ کہہ کر اُڑا دیتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ وہ ہوائی اڈّے، کو بھی لاری اڈّا، کہتے ہیں یا نہیں۔
ہوائی اڈّے پرایک واقعہ بلکہ ایک مکالمہ یاد آگیا۔ ایک زمانے میں ہم پی آئی اے میں ملازم اور کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈّے پرتعینات تھے۔ ایک صبح سردیوں کی وردی میں گھر سے نکلے تو گلی کے ایک بچے نے ہمیں جہازراں جان کر ہم سے اچانک پوچھ لیا:
"انکل! جہاز کیسے اُڑتا ہے؟"
اپنی کم علمی بلکہ لا علمی کے سبب بچے کو جھڑک کر آگے بڑھ جانا ہمیں اچھا نہیں معلوم ہوا۔ آخر بچے پوچھیں گے نہیں تو اُن کی معلومات کیسے بڑھیں گی؟ پس ہم بچے کو اتنا بتاکر جلدی سے پی آئی کی اُس گاڑی میں جا بیٹھے جو ہمیں لینے آئی تھی کہ "بیٹا! بہت سے لوگ زمین پر کھڑے ہوکر بڑے زور زور سے جہاز کو ہُش ہُش کرتے ہیں تو وہ گھبرا کر اُڑ جاتا ہے"۔
بعد کے مشاہدات سے تصدیق ہوئی کہ واکی ٹاکی، پر چیختا، چنگھاڑتا، سارے کا سارا زمینی عملہ عملاً یہی کام کررہا ہوتاہے۔
جہاز کو اُڑانے کے علاوہ بھی ہوا بہت سے کام کرتی ہے۔ سب سے اہم کام تو یہی ہے کہ سانس لینے کے کام آتی ہے۔ یہ کام نہ ہو پائے تو آدمی ہر کام سے جائے۔ بقول یاسؔ یگانہ چنگیزی:
ہوا کے دوش پہ جاتا ہے کاروانِ نََفَس
عدم کی راہ میں کوئی پیادہ پا نہ ملا
اب تو کاروانِ نَفَس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہوا کے دوش پر جانے لگی ہیں۔ ہوائی جہاز کے ساتھ ساتھ ریڈیو ٹی وی کی نشریات اور برخط نشستوں کی تفصیلات۔ برقنامے بھی ہوا کے دوش ہی پر آپ تک پہنچتے ہیں۔ پھر ہماری اور آپ کی صدا اورصورت بھی دنیا کے دوسرے گوشوں میں بیٹھے ہوئے عزیزوں، رشتے داروں اور احباب تک یہی ہوا پہنچاتی ہے۔ راہ میں اگرچہ دیگر وسیلے اور واسطے بھی پڑتے ہیں، مگردرمیانی کردار ہوا کا ہے۔ ہوا جگہ جگہ ہمارے کام آتی ہے۔ مختصر یہ کہ بہت تفصیل درکار ہے ہوا کی ہوا باندھنے کے لیے۔
ہوا باندھنے، کا لغوی مطلب ہے جھوٹی ساکھ بنانا، جھوٹ موٹ کی عزت قائم کرنا، رعب ڈالنا، دھوم مچانا، شان و شوکت دکھانا اور اپنا زورجماناکہ آج کل دنیا بھر میں اہلِ سیاست کا محبوب مشغلہ یہی ہے۔ اس مشغلے پر اُنھیں اُن کی ہوائے نَفُس ہی اُکسائے رکھتی ہے۔
ہوائے نفس، کے معانی ہیں شہوانی خواہش، حرص و ہوس اور نفسِ امّارہ کا میلان۔ عربی میں ہوا کے بہت سے مشتقات ہیں۔ اُردو میں بالعموم ہوا کے ساتھ ہوس لگا کر ایک مرکب بنالیا جاتا ہے اور خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ احمد نسیم سندیلوی کہتے ہیں:
اُدھر پیڑ میں چند دانے لگے
ہوا و ہوس کے نشانے لگے
پڑھائی لکھائی کا موسم گیا
کتابوں میں خط جانے آنے لگے
مگر یہ احمد نسیم سندیلوی مرحوم کے زمانۂ طالب علمی کے مشاغل تھے۔ اب کتابوں میں خط نہیں آتے جاتے۔ ہوا کے دوش پر مختصر پیغامات چلے آتے ہیں، خواہ تحریری ہوں یا صوتی۔ علاوہ ازیں رنج کی گفتگو سمیت ہر قسم کی گفتگو اب ہوا کے دوش پر اور دُوبَدُو ہوجاتی ہے۔
لغات و فرہنگ میں ہوا سے بننے والے محاوروں اور ضرب الامثال کی اتنی کثیر تعداد ہے کہ ایک کالم میں سب کو سمونا ممکن نہیں۔ مزید برآں ہر محاورہ کثیرالمعانی ہے۔ مثلاً صرف ایک محاورے "ہوا کھانا" کے معانی دیکھیے: سیرو تفریح کے لیے کھلی جگہ جانا۔ وقت گزارنا۔ کسی جگہ رہنا، بسنا اور زندگی بسر کرنا۔ دُور ہونا، دفان ہونا یا چمپت ہوجانا، جیسے "جاؤ، جاؤ ہوا کھاؤ"۔ دنیائے سیاست میں کچھ ایسی ہوا چلی ہے کہ چہیتے سیاست دانوں کو پہلے ایوانِ اقتدار کی ہوا خوری کے لیے بھیجا جاتا ہے، پھر اُنھیں جیل کی ہوا کھانے کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ہوا بگڑنے، کا مطلب ہے زمانے کا ناموافق ہوجانا، دولت و اقبال کا ہاتھ سے نکل جانا۔ حضرت احمد رضا خاں صاحب بریلویؒ کی مشہور نعت کا یہ مصرع تو آپ کو یاد ہی ہوگا: "منجدھار میں ہوں، بگڑی ہے ہوا، موری نیّا پار لگا جانا"۔ ہوا سے باتیں کرنا، تیزی، جلدی اور سُرعت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہوا سے لڑنا، ایسا لڑاکا شخص ہوجانا جو راہ چلتوں سے بے سبب لڑتا ہو۔ ہوا کے رُخ پر چلنا، زمانے کا ساتھ دینا۔ بقول حالیؔ
سدا ایک ہی رُخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی
ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونا، جلد بازی، تیز رفتاری، چستی اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا۔ داغؔ نے اس محاورے کی کیا عمدہ تصویر کشی کی:
کبھی جو دھوپ کی گرمی سے رند چیخ اُٹھے
ہوا کے گھوڑے پہ ابرِ کرم سوار آیا
ہوا ہو جانا، بھی ایک محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں جلد روانہ ہونا، دفعۃً غائب ہوجانا، رفوچکر یا چمپت ہوجانا۔ بقول آزرؔ حفیظ:
آزرؔ کچھ ہم پر ہی نہیں الزام شکستہ پائی کا
عشق کے نام پہ ہو جاتے ہیں اچھے اچھے مرد ہوا
غائب ہونے کے معنوں میں غالبؔ کا ایک سائنسی شعر بھی ملاحظہ فرما لیجے۔ پس منظر یہ ہے کہ جب سائنس نے انکشاف کیا کہ پانی دو ہواؤں (آکسیجن اور ہائیڈروجن) سے مل کر بنا ہے تو بہت سے لوگوں کو باور نہیں آیا۔ غالبؔ نے اپنی تجربہ گاہ میں اس کو جانچنے کا تجربہ کیا اور کامیاب تجربہ کیا۔ دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بزرگوار کا آنسو آہِ سرد میں تبدیل ہوکر ہوا ہوگیا ہے۔ پس انھوں نے تصدیق فرمائی:
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

