ہم بر عظیم کے باسی ہیں یا بر صغیر کے؟

راولپنڈی سے راجا محمد یوسف صاحب کا ایک مراسلہ موصول ہوا ہے۔ بعد دعا و سلام لکھتے ہیں: "اپنے شاگردوں کے لیے ایک مضمون کا انگریزی سے اُردو میں ترجمہ کررہا تھا۔ ایک جگہ آکر اُلجھ گیا۔ الجھن یہ ہے کہ اُردو میں، Subcontinent کا ترجمہ برصغیر، بھی کیا جاتا ہے اور برعظیم، بھی۔ رہنمائی فرمائیے کہ دونوں میں سے کون سا ترجمہ درست ہے؟"
صاحب! سب سے پہلے تو ہماری طرف سے ہدیۂ ستائش قبول فرمائیے۔ اگر ہمارے تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے عصری علوم کا اُردو میں ترجمہ کرنے کی سعی فرمانے لگیں تو ہمارے طالب علموں کا علمی معیار یقیناً بہتر ہوجائے گا۔ آپ کی مساعی قابلِ تحسین ہیں۔
برادرِ من! اگر آپ صحیح اور غلط یا درست و نادرست کا سوال کریں گے تو ہم کہنے پر مجبور ہوں گے کہ، Subcontinent کا ترجمہبرعظیم، ہی درست ہے، برصغیر، درست نہیں۔ ماضی میں مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے علاقوں کو ملاکر جو خطہ بنتا تھا، اُس کے لیے انگریزی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، Indo-Pak Subcontinent جس کا ترجمہ اُردو زبان کی اکثر تحاریر میں اُسی زمانے سے برصغیر پاک و ہند، کیا جاتا رہا ہے۔ بعد کو بھی برصغیر، ہی کہا جاتا اور لکھا جاتا رہا۔ مگر کیا کیجیے کہ بالکل غلط کیا جاتا رہا۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنی کتاب "صحتِ زبان" (شائع کردہ: ادارۂ فروغِ قومی زبان) میں دونوں تراجم کے مفہوم میں پائے جانے والے فرق کو تفصیل سے سمجھایا ہے۔ ڈاکٹر پاریکھ کے سمجھانے پر ہماری سمجھ میں بھی آگیا، ورنہ پہلے ہم بھی برصغیر، ہی لکھا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی گراں قدر تحریر سے استفادہ کرتے ہوئے آپ کے سوال کا تفصیلی جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اُمید تو ہے کہ ہماری یہ کوشش کامیاب رہے گی، اِن شَاء اللہ۔
دیکھیے، Continent کے لیے اُردو میں براعظم، کی اصطلاح رائج ہے۔ بَر، یہاں خشک خطۂ زمین کے معنوں میں ہے جو بحر کا متضاد ہے۔ اگر دنیا کے ہر خشک و تر کا ساتھ ذکرکرنا ہو تو ہم بحر و بر، کہہ کر سب کو لپیٹ لیتے ہیں۔ جیسا کہ بالِ جبریل میں اقبال ؔ فرماتے ہیں:
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر پورے کرۂ ارضی کے لیے "اَلُبَرِّ وَالُبَحُرِ" کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ مثلاً سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ہم نے بنی آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں عطاکیں، انھیں پاکیزہ چیزوں کارزق دیا اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر واضح فضیلت بخشی"۔
اسی طرح سورۃ الروم کی آیت نمبر 41میں فرمایا گیا: "انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا"۔
اقبالؔ کے محولہ بالا شعرکے دونوں مصرعوں میں ان دونوں آیات کے مفاہیم کی جھلک ملتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ اعظم، کے معنی ہیں بہت بڑا۔ یہ صیغۂ تفضیل ہے۔ کسی چیز کو باقی سب چیزوں پر بڑائی میں فضیلت دینا مقصود ہو اُس کے ساتھ اعظم، لگا دیتے ہیں۔ جیسے عرشِ اعظم یعنی سب سے بڑا تخت جو اللہ تعالیٰ کا تخت ہے۔ جیسے اسمِ اعظم یعنی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا نام۔ احادیث میں مختلف کلمات کی اسمِ اعظم کے طور پر نشان دہی کی گئی ہے۔ جیسے نیراعظم یعنی سب سے بڑا ستارہ، جو عموماً سورج کو کہا جاتا ہے (نیّر کے لغوی معنی ہیں نور بکھیرنے والا) اور جیسے قائداعظم یعنی سب سے بڑا لیڈر۔ بلاشبہہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اپنے دور میں برعظیم کے مسلمانوں کے سب سے بڑے قائد تھے۔ چوں کہ ہماری زمین پر بھی سمندروں کے ساتھ خشکی کے سات بڑے بڑے خطے پائے جاتے ہیں، چناں چہ ان خطوں کو بھی ہم براعظم، کہتے ہیں۔ مثلاً براعظم یورپ، براعظم افریقا اور براعظم ایشیا وغیرہ۔
پاکستان، بھارت اور موجودہ بنگلادیش کو دنیا کے نقشے پر دیکھیے تو سب کو ملا کر ایک چھوٹا موٹا براعظم ہی بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ خشکی کا یہ عظیم خطہ کوئی الگ خطہ نہیں بلکہ براعظم ایشیا کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے اِسے براعظم کہنا تو مناسب نہیں ہے، ہاں برعظیم کہہ سکتے ہیں اور ہم برعظیم کے باسی کسی بھی براعظم سے خم ٹھونک کر کہہ سکتے ہیں کہ "تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے"۔
رہا لفظ صغیر، تو عربی، فارسی، اُردو تینوں لغات میں صغیر، کا مطلب چھوٹا، نابالغ، کم تر، حقیر اور ادنیٰ ہی ملے گا۔ صغیرکی جمع صغار ہے۔ چھوٹے گناہ کو گناہِ صغیرہ، کہا جاتا ہے۔ صغیرہ کی جمع صغائر، ہے۔ کم عمری یا چھوٹی عمر کو ہم صغر سنی، کہتے ہیں۔ سب سے چھوٹے کو اصغر، کہا جاتا ہے۔ اصغر کی جمع اصاغر، ہے۔ سب سے چھوٹی بیٹی کا نام صُغریٰ، رکھا جاتا ہے۔ یہ اصغر کی مؤنث ہے۔ مگر چوں کہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کی پوتی اور سیدنا حسینؓ، کی بیٹی فاطمہ کا لقب صغریٰ تھا (فاطمۃ الصغریٰ۔ یعنی چھوٹی فاطمہؓ) چناں چہ مسلمان بڑی، چھوٹی یا منجھلی کسی بھی بیٹی کا نام صغریٰ رکھ لیتے ہیں۔ کشورِ پنجاب کے لوگ اپنی بیٹی کا نام صغریٰ، رکھتے ہیں تو شاید اُسے مزید مؤنث کرنے کی خاطر پیار سے صُغراں، کہہ کہہ کرپکارا کرتے ہیں۔
جب یہ طے ہوگیا کہ صغیر، چھوٹے اور حقیر کو کہتے ہیں تو اب آپ خود طے کرلیجے کہ ہم برعظیم، کے باسی ہیں یا برصغیر کے؟ ضمناً یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا کے نقشے پر آپ کو "موناکو" نام کا ایک ملک نظر آئے گا، جس کا کُل رقبہ دو اعشاریہ صفر دو مربع کلومیٹر ہے۔ خشکی کے اس مختصر سے اور چھوٹے سے خطے کے باشندے اگر چاہیں تو اپنے ملک کو برصغیر، کہہ لیا کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا اعظم، اسمِ تفضیل ہے۔ مطلب یہ کہ عظیم چیزوں میں سے کوئی چیزسب سے زیادہ عظیم ہوجائے تو اُسے اعظم، کہتے ہیں۔ یعنی اعظم دراصل عظیم کی تفضیل ہے، صغیر کی نہیں۔ لہٰذا براعظم سے چھوٹا خطہ برعظیم، ہی کہا جا سکتا ہے اور جیساکہ اوپر عرض کیا گیا، سب سے چھوٹے کو اصغر کہا جاتا ہے۔ صغیر اگر سب سے صغیر ہو تو اُسی کو اصغر کہتے ہیں۔ اصغر بھی اسمِ تفضیل ہے۔ پس اگر دنیا میں کوئی براصغر، پایا جاتا ہو اور یقیناً پایا جاتا ہے، تو اُس سے نسبتاً بڑے ملک کو برصغیر، کا درجہ دیا جا سکتاہے۔
صاحبو! اب تک ہم نے جس بَر، کی بات کی ہے وہ عربی کا بَر، ہے اور اس کی ر، پر تشدید ہے۔ اس کے معنی خشک خطۂ ارضی کے ہیں۔ دریا اور سمندر وغیرہ اس میں شامل نہیں۔ مگر ایک بَر فارسی کا بھی ہے اور کثیرالمعانی ہے۔ تمام معانی کا احاطہ کرنا اس کالم میں ممکن نہیں۔ چند کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ جب یہ بَر، حرفِ ربط کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو پَر، اوپر، کو، میں اور ساتھ وغیرہ کا مفہوم دیتا ہے۔ مثلاً برموقع، برمحل، بروقت، برسرِ راہ اور برسبیلِ تذکرہ وغیرہ۔ لیکن جب یہ لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اسم سے فاعل بنانے کے کام آتا ہے۔ مثلاً پیام بر، راہ بر، دل بَر اور نامہ بر وغیرہ۔ فارسی میں بَر، کا ایک اور استعمال جسم، سینہ، بغل، آغوش، کنار، پہلو اور نزدیک کے معنوں میں بھی ہوتا ہے۔ اہلِ فارس کی دیکھا دیکھی اُردو والوں نے بھیبَر، کو ان معنوں میں استعمال کرلیا۔ مثلاً "سر پر رام پوری ٹوپی اور بر میں شیروانی" اور مثلاً حضرت قبلہ شاہ خاموش قَدَّسَ اللہ سرہ، کی ایک غزل کا دلچسپ مطلع ہے:
دل بَر ہے بَر میں الحمدللہ
سب کچھ ہے گھر میں الحمدللہ

