Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Gila Hai Mujh Ko Nazm e Gulsitan Se

Gila Hai Mujh Ko Nazm e Gulsitan Se

گِلہ ہے مجھ کو نظمِ گُل سِتاں سے

اجتماعِ عام میں ایک صاحب بطورِ خاص ملنے آئے۔ نام پوچھا تھا، یاد نہیں رہا۔ اجتماع میں شرکت کے لیے برطانیہ سے آئے تھے۔ ملتے ہی فرمایا: "آپ کے کالم دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ نظام بدلنے کی خاطر قومی زبان کو فروغ دینے کا یہ تحریری سلسلہ جاری رکھیے"۔

"جی اچھا!" کہہ کر اُن کا جی خوش کردیا۔ مگر لفظ "سلسلہ" سُن کر ہماری رگِ لفاظی پھڑک اُٹھی۔ عرض کیا: "سلسلہ تو زنجیر کو کہتے ہیں۔ کڑی سے کڑی ملتی ہے تو زنجیر بنتی ہے۔ آپ بھی کڑی سے کڑی ملائیے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھائیے"۔

مُسکرا کر وعدہ کرلیا۔ اُنھوں نے اِن کالموں کے سلسلے کو نظام کی تبدیلی کے سلسلے سے جوڑ دیا تھا۔ ایک کڑی سے دوسری کڑی ملا گئے تھے۔ سو، اُن کے جاتے ہی سوچوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ خیال آیا کہ خوب ہے یہ لفظ سلسلہ، بھی۔ لفظی معنی زنجیر، بیڑی اور جولان کے ہیں۔ مجازاً اِس کا مطلب قطار، لڑی، خاندان، نسل، شجرہ، تعلق اور واسطہ لیا جاتا ہے۔ قطار کے معنوں میں کچھ ہی روز قبل ایک شاعر کا ایک دلچسپ شعر سنا تھا۔ غالباً اندھیرے میں کسی کی دُم پر پاؤں پڑ جانے سے "اُن" کی گلی کے کتے شاعر صاحب کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ پہلا مصرع یاد نہیں رہا (یاد داشت بھر گئی ہے، نئے اشعار کے لیے جگہ خالی نہیں رہی) اُن کے شعر کا مفہوم یہ تھا کہ مجھے کیا خبر تھی کوچۂ محبوب میں:

سگانِ راہ کی بیٹھک کا سلسلہ ہوگا

سلسلہ، کا ایک مطلب کسی کام کا لگاتار ہونا بھی ہے۔ اعجاز ؔرحمانی مرحوم کایہ دعائیہ شعر ہمارے موجودہ نظام کا عمدہ عکاس ہے:

اِک آگ لگا رکھی ہے خورشیدِ ستم نے
اے ابرِ کرم سلسلۂ آب نہ ٹوٹے

اہلِ ستم وہ ہیں جو زنجیر، جولان اور بیڑی سے محکومین کو باندھتے اور قید کرتے ہیں۔ قید کرنے کے سلسلے میں سلسلہ، کی جمع سَلاسِل استعمال کی جاتی ہے۔ عموماً طوق و سَلاسِل کا ذکرساتھ آتا ہے۔ طوق، گردن میں ڈالا جاتا ہے۔ مسعود میکشؔ بھی اس نظام سے شاکی ہیں:

وہی ہیں طوق و سَلاسِل وہی نظامِ چمن
وہ کون ہیں جو یہ کہتے ہیں دام ٹوٹ گیا

جو کام لگاتار، مستقل، متواتر اور پے بہ پے یا پیہم ہوتا رہے اُسے مسلسل، کہا جاتا ہے۔ بقولِ رئیس فروغؔ، عشق بھی کارِ مسلسل، ہے۔ روانی اور تواتر کو تَسلسُل، کہتے ہیں۔ تسلسل، کے لفظی معنی زنجیر بنائے رکھنا سمجھ لیجے۔ جب یہ زنجیری رشتہ ٹوٹ جاتا ہے تو "تسلسل ٹوٹ جاتا ہے"۔ فریدؔ جاوید کا واحد مشہور شعر شاید آپ نے بھی سنا ہی ہوگا:

گفتگو کسی سے ہو، ترا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا

لو جی! آگیا یہ خیال بھی سلسلۂ خیال میں، کہ سلسلے کے سلسلے میں سلیم احمد مرحوم نے کیا معنی خیز شعر کہا تھا:

سلسلے اُس کی نگاہوں کے بہت دُور گئے
کارِ دل ختم ہوا، کارِ جہاں باقی ہے

کارِ جہاں دراز ہے۔ نظام بدلنا گویا کارِ جہاں بدلنا ہے۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے نعرہ لگایا ہے کہ "بدل دو نظام"۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ سوال پیدا، ہونے کی اطلاعات تو اکثر ملتی رہتی ہیں۔ مگر کسی سوال کے وفات پا جانے کی خبر کبھی کسی سے نہیں ملی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن صاحبِ موصوف نے ہمارے کالموں کا سلسلہ نظام بدلنے کے سلسلے سے جوڑ دیا تھا اُنھوں نے آخر دو بے جوڑ چیزوں کو کیسے جوڑا؟ اس سوال کا جواب ہمیں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ کی تقریر سے مل گیا۔ سو، ہمارا سوال پیدا ہوتے ہی وفات پا گیا۔ لیاقت بھائی نے اپنے خطاب میں جوکچھ فرمایا، اُس کا مفہوم یہ ہے:

"قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کے لیے قومی زبان نافذ کرنے کی بجائے ہم پر انگریزی کو مسلط رکھا گیا ہے"۔

امیر جماعت نے اجتماعِ عام کے اختتام پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ نظام بدلنے کا مطالبہ یوں منوایا جائے گا کہ دستور پر عمل کروایا جائے گا۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ 251(الف، ب، ج) میں قرار دیاگیا ہے کہ قومی زبان ہی سرکاری زبان ہوگی۔ سرکاری زبان اُردو ہوگی تو تعلیم کی زبان بھی اُردو ہوجائے گی، عدالت کی زبان بھی اُردو ہوگی اور قانون سازی بھی اُردو میں کی جائے گی۔ نظام بدل جائے گا۔

سرکاری ملازمتوں کا امتحان اُردو میں لینے کا اعلان کر دیجے، گلی گلی اُردو سکھانے والی درس گاہیں کھل جائیں گی۔ قومی دستاویزات اُردو میں ہوں گی تو پوری قوم کی سمجھ میں آنے لگیں گی۔ ذریعۂ تعلیم اُردو زبان ہوگی تو ہمارے بچوں کا اپنی علمی میراث سے ٹوٹا ہوا ناتا جُڑجائے گا۔ اپنے خوابوں کی زبان میں تعلیم پانے سے ہمارے بچے تحقیق بھی کر سکیں گے، ایجادات بھی کر سکیں گے اور اپنی ذہانتوں سے اپنی ہی قوم کو مستفید بھی کرسکیں گے۔ بجائے اس کے کہ غیر ممالک میں جا کر غیر قوموں کے جھوٹے برتن مانجھنے میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔

برتن پر یاد آیا کہ مولانا روم نے فرمایا: "علم را برتن زنی مارے بود"۔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ اگر محض تن خواہ، وصول کرکے علم کو اپنے تن پر مارنے کی غرض سے حاصل کرو گے تو یہی علم سانپ بن کر تمھیں ڈس لے گا۔ ہمارے ہاں یہی ہورہا ہے۔ ہمارے بچے انگریزی کا رٹّا لگانے پرمجبور ہیں تو محض اچھی نوکری حاصل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ نوکری دلانے والی یہ تعلیم ہمارے ہر بچے کوسانپ بن کر ڈس رہی ہے۔ بچوں ہی کو نہیں، پوری قوم کو ڈس رہی ہے۔ بھلا کون سا شعبۂ حیات ایسا ہے جس سے قوم کو بدعنوانی اور بددیانتی کی شکایت نہیں؟

ہر زبان اپنے عقائد اور اپنی تہذیب ساتھ لاتی ہے۔ اُردو زبان ہمارے عقائد اورہماری تہذیب کی ترجمان ہے۔ ہماری قوم کے باہم رابطے کی زبان ہے۔ اُردو زنافذ ہوگی توہماری انتظامیہ کے حکام قوم سے قومی زبان میں بات کریں گے۔ نظام بدل جائے گا۔

نظام کیا ہے؟ لغات میں آیا ہے کہ نظام موتیوں کی لڑی ہے۔ دھاگے میں پروئے ہوئے جواہرات ہیں۔ سلسلہ ہے۔ ترتیب ہے۔ بندوبست ہے۔ آراستگی ہے۔ طریقہ ہے۔ روش ہے۔ تربیت ہے۔ لائحۂ عمل ہے۔ درخت کی جڑ ہے۔ عمارت کی بنیاد ہے۔ یعنی وہ چیز ہے جس سے کسی امر کا قیام ہو۔ نظام کی بنیاد نظم، ہے۔ نظم، کا مطلب ہے خاص ترتیب سے پرونا۔ اسی وجہ سے کلامِ موزوں کو بھی نظم، کہا جاتا ہے۔ نظم کے ساتھ عموماً نَسَق کا لاحقہ لگایا جاتا ہے (ن اور س، دونوں پر زبر ہے)۔ نَسَق، کا مطلب ہے قاعدہ، قانون، روش، انتظام۔ نظم و نسق سے مراد اُمورِ سلطنت، تدبیرِ مملکت اور حکمرانی کا قاعدہ لیا جاتا ہے۔ بقولِ شبلیؔ "کچھ تو نظم و نسقِ ملک میں بھی دیجے دخل"۔

نظم (یعنی کلامِ موزوں) کی ایک صنف غزل ہے۔ غالبؔ کو شکوہ تھا کہ

بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

مگر اب یہ گلہ دُور کردیا گیا ہے۔ غزل میں تنگنائی نہیں رہی۔ اتنی وسعت آچکی ہے کہ اب یہ زندگی کے تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ بالخصوص سیاسی موضوعات کا۔ یوں توغزل میں سیاسی باتیں کھلم کھلا ہو رہی ہیں، مگر اساتذہ اور منجھے ہوئے شعرا سیاسی موضوعات باندھتے ہوئے بھی لغاتِ غزل ہی استعمال کرتے رہے۔ مثلاً احسان دانشؔ "بدل دو نظام" کا مطالبہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

کوئی کہہ دے یہ جا کر باغباں سے
گلہ ہے مجھ کو نظمِ گُل سِتاں سے

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam