Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Ajeeb Manoos Ajnabi Tha

Ajeeb Manoos Ajnabi Tha

عجیب مانوس اجنبی تھی

پیر 22 ستمبر کو قادر الکلام شاعر رئیس امروہوی کی برسی تھی۔

"ہم نیوز" کی خبروں میں بالعموم اچھی اُردو اچھے تلفظ سے بولی جاتی ہے۔ مگر اُس روز خاتون خبرخواں کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ اُنھوں نے رئیس امروہوی مرحوم کا نام "رئیس-اَمَر-وَہی" پڑھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم اپنے قطعات کی وجہ سے اَمَر ہوگئے ہیں، مگر ایسی بھی کیا عقیدت کہ مرنے کے بعد اُن کے وطنِ مالوف و متروک امروہہ سے اُن کا عمر بھر کا ناتا ہی توڑ ڈالا جائے۔ خاتون نے اگر "امروہوی" کا لفظ کبھی نہیں سنا تھا تو مدیرِ خبر کو چاہیے تھا کہ اُن کے تلفظ کی اصلاح کردیتے۔ یوں نشریاتی ادارے کے بہت سے ناظرین و سامعین "اَمَر-وَہی" سننے کی کوفت سے بچ جاتے۔ "اَمَر-وَہی" کا تلفظ سن کر ہمیں تین دلچسپ چیزیں یاد آگئیں۔ ایک دلچسپ قطعہ، ایک دلچسپ اعلان اور ایک دلچسپ قصہ۔ آج کے کالم میں بس اِنھیں تین دلچسپیوں پر اکتفا کرلیجے۔

قطعہ خود رئیس امروہوی کا تھا۔ ہماری بدقسمتی اور قارئین کی خوش قسمتی کہ عین موقعے پر ایک مصرعے کے سوا پورا قطعہ ہمیں بھول گیا۔ یارِ عزیز ڈاکٹر عقیل عباس جعفری سے کمک طلب کی، جنھوں نے رئیسؔ صاحب کے قطعات پر تحقیقی کام کیا ہے، اُن سے التماس کیا کہ قطعہ تلاش کرکے عطا فرمائیں تو اُنھوں نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کردیے کہ "یہ بھوسے میں سُوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے"۔

ڈاکٹر صاحب خود شاعر ہیں۔ سُوئی کا استعارہ تو بہت پیارا ہے، مگر بھوسے والی بات پر رئیس صاحب، زندہ ہوتے تو، بُھس بھر دیتے۔

خیر اُس قطعے کا ایک ہی مصرع سُن لیجے، جو غالباً اسی طرح کا کوئی غلط تلفظ سن کر کہا گیا ہوگا:

چشمِ بِینا کو چشمِ بَنیا پڑھ

ایک بار ملتان ریڈیو سے "کلامِ شاعر بزبانِ شاعر" کے سلسلے میں ایک نعت نشر کی گئی۔ نعت مکمل ہوئی تو وہاں بھی خاتون معلن تھیں جو یوں گویا ہوئیں۔

"ابھی آپ نعتِ رسولِ مقبولﷺ سن رہے تھے۔ شاعر تھے حکیم محمود احمد، (وقفہ)، سروِس ہارَن پُوری"۔

حکیم سَروُ سہارنپوری اُس زمانے میں بقیدِ حیات تھے۔ اُن کو اعلان سنایا اور درخواست کی کہ "سہارن پوری" ملا کر نہ لکھا کیجیے۔

اب رہ گیا قصہ۔ تو یہ قصہ ہے اگست سنہ 2004ء کا۔ صبح کی نشریات میں تشریف لانے والی خواتین کی انگریزی سے بھرپور اُردو سن کر یاد آگیا۔ اُس روز یہ کالم نگار اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کولمبو (سری لنکا) کے ہوائی اڈّے پر پاکستان واپسی کے لیے ایوانِ روانگی میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہورہی تھیں۔ یکایک ایک بہت ہی نستعلیق خاتون اپنی نشست سے اُٹھ کر بڑی تیزی سے ہماری طرف آئیں اور خواتین سے بے تکلف ہوگئیں۔ سلام نہ دُعا، آتے ہی ایک طویل سانس لیا اور ہماری اہلیہ کے برابر والی نشست پر بیٹھتے ہوئے بولیں: "شکر ہے اُردو تو سننے کو ملی۔ کیا بتاؤں بہن! یہاں تو انگلش بول بول کر میرے جبڑے دُکھ گئے۔ اب قدر ہوئی اپنی زبان کی"۔

اہلیہ چوں کہ اِس مرحلے پر پوری توجہ اُن پر دینے کے بجائے بار بار ہماری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھے جارہی تھیں، چناں چہ خاتون نے بھی اُن کے مرکز توجہ، کی طرف دیکھا۔ اوراب تک کی گفتگو میں پہلی بار اُنھیں سلام یاد آیا:

"سلام! بھائی صاحب!"

سلام کرکے اُنھوں نے اپنا سلسلۂ کلام پھر وہیں سے جوڑدیا جہاں سے توڑ دیا تھا: "ہماری قومی زبان ہی نہیں، ساری پاکستانی زبانیں میٹھی ہیں۔ اُن میں بڑی اپنائیت ہے۔ اِس کا احساس ملک سے باہر آکر ہی ہوتا ہے۔ سچ ہے، انسان کو نعمت کی قدر اُسی وقت ہوتی ہے جب نعمت چھن جائے۔ جونعمت ہمیں میسر ہے اُس کی ہم قدر ہی نہیں کرتے"۔

اُن کی بے تکان گفتگو جاری تھی کہ اہلیہ نے لقمہ دیا: "ہمارے بچوں سے تو گھر بیٹھے ہی یہ نعمت چھینی جارہی ہے۔ اب ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بنا کر انگریزی بولنے کا رواج گھر گھر ہوگیا ہے۔ اُردو اگر مجبوراً بولنی پڑ جائے تو انگریزی لہجے ہی میں بولی جاتی ہے"۔

خاتون کہنے لگیں: "جو تمیز، جو تہذیب اور جو شائستگی ہمیں اپنی زبان میں ملتی ہے، بھئی کم ازکم مجھے تو انگریزی زبان میں نہیں ملی۔ انگریزی زبان کیا؟ شاید خود برصغیر کی بھی کئی دوسری زبانوں میں نہیں ملتی ہوگی۔ ایک روز یہاں گال، کے سامنے ایک شخص سڑک کے اُس پار کھڑا ہوکر اور چیخ چیخ کر تامل زبان میں مجھ سے کہے جارہا تھا: "پَڑی اَلّے، پَڑی اَلّے، پَڑی اَلّے"، تامل میں یقیناً یہ کوئی بامعنی بات ہوگی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مجھے نشانۂ مذاق بنارہا ہے، کیوں کہ ساتھ ساتھ وہ تھپڑی بھی پیٹ رہا تھا"۔

تھپڑی، کا لفظ سُن کر عمار میاں چونکے اور ماں سے پوچھ بیٹھے: "امّی! تھپڑی کیا؟"

سوال خاتون نے سُن لیا۔ کہنے لگیں: "دیکھیے! ہمارے بچے اب ہمارے جانے مانے الفاظ سے بھی نامانوس ہوگئے ہیں"۔

یہ سنا تو بچوں کے ابّا نے بھی اپنی ذاتی جہالت پر اجتماعی پردہ تانتے ہوئے خاتون کو مخاطب کیا: "بچے ہی نہیں، بہن! اب تو بڑے بھی ان الفاظ سے نامانوس ہوگئے ہیں"۔

شمامہ نے گفتگو کا رُخ مڑتے دیکھ کر بڑی اپنائیت کے ساتھ خاتون سے اصرار کیا: "انٹی بتائیں نا! تھپڑی کیا ہوتی ہے؟"

خاتون نے پہلے تو شمامہ کی اصلاح کی: "بیٹی! میں تمھاری اَنٹی نہیں ہوں، خالہ ہوں، خالہ! ، اَنٹی، تو اُردو میں سُوت یا ریشم کی لچھی کو کہتے ہیں، ہر لفظ، ہر رشتے کے کچھ تہذیبی اثرات ہوتے ہیں۔ خالہ میں جو قربت، جوپیار، جو اپنائیت ہے وہ اَنٹی، میں کہاں؟"

پھر رواں ہوگئیں۔ اب بھی رُوئے سخن شمامہ ہی کی طرف تھا: "میری بِٹیا! ، تھپڑی، تھَپ-ڑی، تالی کو کہتے ہیں، جسے آپ لوگ Clapping بولتے ہیں۔ دونوں ہاتھ ایک دوسرے کو تھپڑ بلکہ تھپڑی ماریں تو ویسی ہی آواز نکلتی ہے جیسی وہ بندہ، "پَڑی اَلّے، پَڑی اَلّے"، کی آواز کے ساتھ نکال رہا تھا۔ ویسے بچو! ہماری زبان میں چابی کو بھی تالی، کہتے ہیں۔ میں نے اپنے بچپن میں اُفق دہلوی مرحوم کا ایک شعر ماہ نامہ "غنچہ" کراچی میں پڑھا تھا:

نہیں کھلتا اُس الماری کا تالا جس میں حلوہ ہے
عجب تالا بنایا ہے، کوئی تالی نہیں جاتی

بھئی پہلے ہمارے تمام بڑے شاعر بچوں کے لیے شاعری ضرور کرتے تھے۔ غالبؔ، حالیؔ، اقبالؔ سب نے بچوں کے لیے شاعری کی۔ مگر اب تو پیسوں کے لیے شاعری کی جاتی ہے۔ بچوں کے لیے شاعری کرنے میں پیسے کہاں؟"

بچوں کو شعر سن کر مزہ آگیا۔ مسکرانے لگے۔ خاتون کی گفتگو جاری تھی۔ مزید جاری رہتی اگرہماری پرواز کی روانگی کا اعلان نہ ہوگیا ہوتا۔ اُن کی باتوں میں ہم ہی نے نہیں ہمارے بچوں نے بھی دلچسپی لینی شروع کردی تھی۔ اِن ہی چند لمحوں میں ہمارے پورے گھرانے کو اُن سے اپنائیت محسوس ہونے لگی تھی۔ رُخصت ہوتے وقت دونوں جانب سے بڑے دُکھی دل سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا گیا۔

سب سے پتے کی بات، سب سے آخر میں، سب سے چھوٹی بیٹی، یُمنیٰ نے کی۔ جہاز میں بیٹھنے کے بعد بھی جب تادیر اُن کا تذکرہ ہوتا رہا تو یُمنیٰ ہمارے ذرائع ابلاغ کی بولی بولتے ہوئے بولی: "ابّو! ابّو! وہ جو، خالہ انٹی، تھیں نا، میں نے اُن کی باتوں میں بس ایک بات نوٹ کی۔ اپنی پوری کنورسیشن، میں اُنھوں نے انگلش کا صرف ایک ورڈ یوز کیا، Clapping، ہم تو انگلش یوز کیے بغیر ایک سینٹینس بھی نہیں بول سکتے، ابو! میں تو حیران رہ گئی"۔

ہم بھی(ناصرؔ کاظمی کی ایک سوچ کو مؤنث کرکے) اُس وقت یہی سوچ رہے تھے:

"عجیب مانوس اجنبی تھی
مجھے تو حیران کر گئی وہ"

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam