پنجاب کے بارے میں خبریں/افواہیں
میڈیا کے خبر نگار پنجاب کے حوالے سے کچھ ملتی جلتی خبریں دے رہے ہیں۔ کچھ ایسی کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ قدرے واضح لکھا جائے تو بتایا جا رہا ہے، وزیر اعلیٰ بزدار کی رخصتی کا کہیں نہ کہیں فیصلہ ہو چکا ہے۔ ادھر وزیر اعظم اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ کچھ بھی ہو، بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ خبر دینے والے کہتے ہیں کہ حتمی فیصلے کا اختیار وزیر اعظم کو نہیں، فیصلہ جنہوں نے کیا ہے، وہی اس پر عملدرآمد بھی کرائیں گے۔ مارچ کی ڈیڈ لائن کا ذکر بھی آ رہا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والے کون ہیں۔ خبر میں زیادہ کھل کر نہیں بتایا جا رہا۔ شاید شاہ محمود قریشی نے جن کا ذکر کیا تھا، وہی ہوں۔ قریشی صاحب نے کہا تھا، فیصلہ ساز قوتوں کو نواز زرداری کسی صورت قبول نہیں۔ یہ بات انہوں نے اپنے مریدین اور نیاز مندوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی اور یوں بتایا دیا کہ فیصلہ ساز قوت اور شے ہے، حکومت اور وزیر اعظم اورشے۔ قریشی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ فیصلہ ساز قوتیں تحریک انصاف کے سوا کسی اور جماعت کو ایک نظر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتیں۔ یہ تو ٹھیک ہی کہا، پی ٹی آئی ٹھہری سبز پری۔ گلفام حضرات کسی اور پر نظر ہی کیوں ڈالیں گے۔ ایک پرانا، گھساپٹا زبان زدعام محاورہ ہے۔ جسے مثبت رپورٹنگ کے اصول کی پاسداری میں ذرا سے ردوبدل کے ساتھ یوں پڑھا جا سکتا ہے کہ:پری پر دل آئے تو گدھی کیا چیز ہے٭٭٭٭٭خیر، یہ جو بھی ہو رہا ہے اور ہونے والاہے، سنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کو تین بار قبول ہو گا البتہ وزیر اعظم کا ردعمل کیا ہو گا۔ جونیجو مرحوم یاد آ گئے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اتنے سارے چینل نہیں ہوتے تھے۔ بس پی ٹی وی ہوتا تھا جس کی نشریات گیارہ بارہ بجے بند ہو جاتی تھیں۔ وزیر اعظم تو آنجناب تھے لیکن حکومت ضیاء الحق کی تھی۔ لطیفہ مشہور ہوا کہ جونیجو اپنے مصاحبین کے ساتھ محفل سجائے ہوتے کہ ٹی وی سے خبر آتی، حکومت نے فلاں فیصلہ کر لیا ہے یا فلاں فیصلہ نافذ کیا ہے، خبر سنتے ہی جونیجو اپنے مصاحبین کی طرف متوجہ ہوتے اور انگلی اٹھا کر انہیں بتاتے کہ "یہ میں نے کیا ہے" مصاحبین ان کی بات پر اعتبار کر لیتے۔ ایک روز ٹی وی خبر آئی کہ اسمبلی توڑ دی گئی ہے۔ وزیر اعظم کو برطرف کر دیا ہے۔ جونیجو حسب معمول بول اٹھے"یہ میں نے کیا ہے" پھر بات سمجھ میں آئی تو یکا یک بولے، نہیں، نہیں۔ یہ میں نے نہیں کیا ہے۔ دیکھیے، وزیر اعظم تبدیلی کے فیصلے کا اعلان خود کرتے ہیں یا ٹی وی بلیٹن دیکھ کر جونیجو کی یاد تازہ کریں گے کہ "یہ میں نے کیا ہے"٭٭٭٭٭شاہ محمود قریشی نے فیصلہ ساز قوتوں کا اس طرح ذکر کے بحث چھیڑ دی ہے۔ بحث یہ نہیں کہ غلط کہا یا صحیح کہا۔ جو بھی ہے، سب کو پتہ ہے۔ بحث اس پر ہو رہی ہے کہ موصوف نے وزیر ہوتے ہوئے حکومت کی کل بساط پر سے پردہ اٹھا دیا۔ ایک ہی فقرہ (دراصل دو فقرے) کہہ کر پوری کہانی بھی بیان کر دی۔ یہ بات نواز شریف یا زرداری کہتے تو محب وطن میڈیا والوں سے بے بھائو کی سنتے۔ پھر یہ صفائیاں دیتے پھرتے کہ نہیں ہم نے تو یونہی ایک بات کی تھی، کسی کا نام تھوڑی لیا تھا۔ اب شاہ محمود قریشی پر میڈیا والے حملہ کریں تو کیسے کریں۔ صادق و امین حکومت کے صادق و امین وزیر اعظم ہیں، پھر ان طاقتوں سے الفت کا گہرا اور قدیمی رشتہ بھی رکھتے ہیں۔ جن کا ذکر ہوا۔ کچھ کہنے کی گنجائش بھی کہاں رہ جاتی ہے۔ ضمناً یاد آیا، ایک اینکر پرسن نے جنہوں نے قصور کے قاتل کے 35فارن کرنسی بنک اکائونٹس کا انکشاف کر کے شہرت دوام پائی(اور کل ہی قید قفس سے رہائی بھی پائی) ایک انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو تب خاصا مشہور ہوا تھا اور اب کچھ دنوں سے اس کی ویڈیو پھر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ اینکر صاحب اسی تناظر میں انٹرویو لے رہے تھے جس تناظر میں شاہ صاحب نے مذکورہ فقرہ ارشاد فرمایا۔ اینکر نے پوچھا"وہ" زیادہ نفرت کس سے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے یا مسلم لیگ سے؟ میجر عامر نے جواب دیا، اس سے جس کے پاس زیادہ عوامی مینڈیٹ ہو…شاہ محمود قریشی کے کہنے میں وزن تو لگتا ہے۔ پنجاب میں ایک اور قسم کی تبدیلی کی افواہ بھی ہے۔ بزدار والی تبدیلی میں تو شاہ محمود کی بھری مراد ہو جائے گی لیکن یہ دوسری تبدیلی برادران گجرات کے سہانے خواب سے متعلق ہے۔ کچھ حلقے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے رابطے میں ہیں کہ بھائیو، ذرا سی ہمت کرو۔ بزدار کا تختہ پلٹا جا سکتا ہے۔ بس وزیر اعلیٰ ہمارا ہو گا۔ کراچی ے ایک معاصر کی رپورٹ ہے کہ مسلم لیگ ڈری ہوئی ہے، وہ اس پیشکش کو بس مان رہی۔ کچھ اورکا کہنا ہے کہ ڈری ہوئی نہیں ہے بلکہ اس نے غیر فعال رہ کر تماشائے اہل کرم دیکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ویسے بھی اسے اس تبدیلی سے کیا ملے گا۔ تخت تونسہ شریف تخت گجرات شریف ہو جائے گا۔ وہ بیگانی شادی میں دیوانی کیوں پٹے۔ ٭٭٭٭٭اے این پی کے رہنما اسفند ولی نے خبردار کیا ہے کہ سانحہ ساہیوال پر مٹی ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ افسوس کہ خبرداری بعداز وقت ہے۔ سانحے پر مٹی "پائی" جا چکی۔ بیری کی ٹہنی بھی گاڑی جا چکی اور پانی بھی چھڑکا جا چکا۔ اب تو منتظر رہیے۔ لیکن ان لواحقین کے لاپتہ ہونے کی خبر آ سکتی ہے اور اس وکیل کی بھی خیر نہیں لگتی جس نے خود کو دی جانے والی دھمکیوں والی ٹیپ میڈیا میں چلا دی۔