پھر سے وزیر آباد
اُلجھن کی سلجھن ملی یا الٹا ایک اور گنجھل پڑ گئی ہے۔ معاملہ بہرحال مزید گنجلک ہوگیا ہے۔ دنیا میں یوں ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے بحران حل ہو جاتے ہیں یا ٹل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں البتہ کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔
دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ازخود نوٹس کے فیصلے میں ایک ہی بات غیر متنازعہ طور پر سمجھ میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ الیکشن کمشنر 90 روز میں الیکشن کرانے کا پابند ہے اور کچھ وجوہات کی بنا پر اسے مشکل ہو تو مختصر ترین مدّت کے لیے وہ اس ڈیڈ لائن سے انحراف کر سکتا ہے۔ اس "وقتِ انحراف" کا اعتراف عمران خان نے بھی کیا اگرچہ فی الحال اعتراض بھی نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہوگا کہ انحراف کے اختصارکی کتنے دنوں تک بات جا سکتی ہے، صرف "قریب ترین مدّت " کہا ہے۔
کچھ کی خبر ہے کہ حکومت کوئی اپیل کرے گی۔ پتہ نہیں کرتی ہے یا نہیں، اس کے بجائے یہ بات زیادہ یقین سے کی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی ضرور اپیل میں جائے گی۔ ابھی نہیں لیکن جب اسے بات سمجھ میں آئے گی، تب جائے گی۔
اور اسے بات کب سمجھ میں آئے گی؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ رجیم چینج امریکی سازش نہیں تھی، باجوے کی تھی، باجوے کی نہیں، زرداری کی تھی والا معمّہ سمجھنے میں اسے آٹھ مہینے لگے۔ ہو سکتا ہے اس بار دس مہینے لگ جائیں۔
باقی وہ جو بحث ہے کہ چار ججوں نے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیا، صرف تین نے حق میں دیا، اس میں پڑنے کا استحقاق ہر ایک کو نہیں ہے۔ جو قانون کے ماہر فن ہیں، وہی بات کریں تو بہتر ہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بتانے میں مضائقہ نہیں ہے کہ قانون دوسرے ملکوں میں"علم" ہمارے ملک میں"فن" کی حیثیت رکھتا ہے۔ جتنا بڑا فنکار، اتنا ہی کامیاب، بے شک اعتزاز احسن سے پوچھ لیں۔
***
عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان پر ایک اور وزیر آبادی حملہ ہوگا۔ انہوں نے کہا، ان کی جان پھر خطرے میں ہے۔
نیا وزیر آبادی حملہ وزیر آباد میں تو شاید نہ ہو کہ اب تو وہاں جانا ہی کہاں ہوگا؟ کسی اور نگر میں ہوگا۔ لیکن کون سے نگر میں، یہ بات عمران خان نے نہیں بتانی۔ ہاں اعجاز چودھری بتا سکتے ہیں۔ انہیں ضرور پتہ ہوگا۔ وزیر آبادی حملے سے دو روز پہلے اعجاز چودھری نے بتا دیا تھا کہ پرسوں وزیر آباد میں وزیر آبادی حملہ ہوگا۔ اس بار بھی بتا دیں گے، کوئی پوچھے تو سہی!
خیر، احتیاط کا تقاضا ہے کہ خان صاحب پیشگی نئے اور بہتر پلستر کا آرڈر ابھی دے دیں اور کوشش کریں کہ کسی اچھی فرم سے رابطہ کریں۔ پلستر ایسا نہ ہو جسے اترنے میں چار مہینے لگ جائیں۔ فرم سے کہہ دیں کہ بھائی بھائی دو اڑھائی ماہ میں اُترنے والا پلستر چاہیے۔
***
رجیم چینج سازش کی پوری کہانی اگر کسی کو سمجھ نہ آئی ہو تو وہ پی ٹی آئی کے رہنما علی زیدی کا تازہ انٹرویو سُن لیں جو نیٹ پر باافراط دستیاب ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے "سازش امریکہ نے کی لیکن دراصل امریکہ نے نہیں بلکہ باجوہ نے کی اور وہ امریکی سازش دراصل اس طرح بنی کہ باجوہ نے حسین حقانی سے کہا کہ وہ سازش کرے، حسین حقانی نے پاکستانی سفارت کار سے کہا، سفارت کار نے ڈیوڈ لو سے کہا اور ڈیوڈ لو نے صدر بائیڈن سے سازش کرنے کوکہا، جو بائیڈن نے باجوہ سے بات کی کہ سازش وہ کرے اس طرح سازش باجوہ نے کی جس کا محرک حسین حقانی تھا اور یوں یہ سازش جو باجوہ نے کی، امریکی سازش بن گئی۔
ان کے انٹرویو کا خلاصہ اتنا ہی ہے۔ وہ چاہتے تو مابعد کے ارشادات عمرانی کو شامل کر کے اسے یوں بھی مکمل کر سکتے تھے کہ صدر بائیڈن نے آصف زرداری سے کہا، آصف زرداری نے محسن نقوی سے کہا، محسن نقوی نے فضل الرحمن سے کہا اس طرح امریکی سازش جو کہ دراصل باجوہ کی سازش تھی، قومی اسمبلی میں پہنچ کر پارلیمانی سازش میں تبدیل ہوگئی۔
***
ڈالر تین سو کا ہوا نہیں ہے لیکن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مشن تھا جو عمران خان کو پورا کرنے کے لیے دیا گیا تھا لیکن جو اب شہباز حکومت کے ہاتھوں پورا ہونے جا رہا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ عمارت کی تعمیر عمران نے کی، تختی لگانے کی سعادت شہباز کے حصے میں آئی، منّی ہوئی بدنام سنوریا تیرے لئے۔
مشرف صاحب کا دور ہمیں پتھر کے زمانے میں لے گیا اور "بیک ٹو دی پاسٹ" کا سفر عمران کے دور میں تیز سے تیز تر ہوگیا۔ عمران حکومت ختم ہوئی تو توقع تھی کہ قافلہ رخ پلٹے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، جو بلٹ ٹرین عمران نے چلائی تھی، اسے کوئی بریک لگ ہی نہیں رہی ہے۔ اُمید تھی شہباز شریف اس کی "تیز رفتاری" کو نہ روک سکے تو مزید رفتار پکڑنے سے ضرور روک لیں گے، ایسا بھی نہ ہوا۔ اس میں بڑا حصہ تو "بلٹ ٹرین" کا ہے لیکن کچھ حصہ سچی بات ہے، موجودہ حکمرانوں کی بے عملی کا بھی ہے۔ بہت پہلے بعض مسلم لیگی احباب سے رابطہ رہتا تھا۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ شہباز شریف میں حکم دینے اور منوانے کی زبردست صلاحیت ہے لیکن قوت فیصلہ نہیں ہے۔ فیصلے نواز شریف کرتے ہیں، عمل وہ کرتے یا کراتے ہیں۔ اب ماجرا یہ ہے کہ حکم دے کر عمارت تو بنائی جا سکتی ہے لیکن بحران حکم سے نہیں ٹلتے، ان کے لیے قوت فیصلہ چاہیے۔
اسحاق ڈار صاحب بحران حل کر سکتے ہیں یا چلیے، کم کر سکتے ہیں جس کے لیے مشکل فیصلے درکار ہیں لیکن وہ آسان فیصلوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ آسان فیصلے یعنی غریبوں پر ٹیکس۔ مشکل فیصلے یعنی طبقہ امرا پر ٹیکس کا تو وہ نام ہی نہیں لیتے۔ غریبوں کے لیے البتہ وہ گاہے گاہے اچھے اچھے اسلامی اقوال ٹویٹ کرتے رہتے ہیں کہ یہ لو، ان سے گزارا کرو، اور ہمیں امیروں کی خدمت کرنے دو۔
***
ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کو رہائی مبارک۔ شاید ایک یا دو راتیں انہیں جیل میں رہنا پڑا۔ ان کی گرفتاری کے خلاف بیرون ملک مجاہدین بالخصوص عادل راجہ اور حیدر مہدی نے بھی ان کے لیے ردیف قافیے والی مہم چلائی۔ جنرل امجد صاحب خوش قسمت ہیں کہ تیسرے روز ہی اسیری تمام ہوگئی۔ وہ زمانہ خیر سے اب ختم ہوا جب درخواست ضمانت ایک ایک سال بلکہ بعض کے معالمے میں تو تین تین سال دراز ہی میں پڑی رہتی تھی۔ سو دو سو پیشیوں کے بعد سماعت کی باری آتی تھی، اب تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کا سماں ہے۔