مفتاح اسماعیل اور تکیہ کلام
کچھ ہی عرصہ پہلے تک کا منظر نامہ یوں تھا کہ بھارت کے اندر بی جے پی کو ناقابل شکست مانا جا چکا تھا اور اس کی طاقت مسلسل بڑھتی جا رہی تھی۔ عالمی سطح پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو "مدبّر" قائد مانا جانے لگا تھا اور بہت سے مسلمان ممالک نے جس طرح ان کا استقبال کیا اور ان کی تعریفوں کے ڈونگرے برسائے، اس کے بعد تو یہ بھی لگنے لگا تھا کہ شاید "امت مسلمہ" کو حقیقی قائد مل گیا۔
لیکن پھر حذراے چیرہ دستاں والی سچائی ظاہر ہوئی۔ نریندر مودی نے جو مسلم دشمنی کی فصل کاشت کی تھی، وہ قابو سے باہر ہونے لگی۔ مسجدوں پر پتھرائو، اکیلے دو کیلے مسلمانوں کو بھرے بازار میں "لنچ" کرنے کے واقعات، نفرت والی تقریروں کی وڈیوز نہ صرف بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں وائرل ہونے لگیں۔ مودی عظیم لیڈر کے بجائے پتھر کے دور کا وحشی قبائلی لیڈر نظر آنے لگا۔ اور پھر توہین رسالتؐ کا سنگین واقعہ رونما ہوا جس کا ردعمل بھارت کے مسلمانوں ہی میں نہیں، غیر مسلم آبادی میں بھی ہوا، جابجا ہندو لیڈر بی جے پی کی مذمت کرتے نظر آنے لگے۔ عرب دنیا کے کچھ ملکوں نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی تو بے جی پی معذرت خواہی پر اتر آئی اور مودی کے مخالف ہندو لیڈر بھی بی جے پی پر پل پڑے۔
ایک ہندو لیڈر کی وڈیو دیکھی، کہہ رہے تھے کہ بھارت کے مسلمان نیتا جب تک بزدلی دکھاتے رہیں گے، بھارت کے مسلمان محفوظ رہیں گے نہ ان کی مسجدیں۔ انہیں سڑکوں پر آنا ہو گا۔ مسلمان لیڈر تو اپنی بزدلی اور فرقہ پرستی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن نوجوان میدان میں آ گئے اور خاص طور سے مسلمان لڑکیاں۔ ان پر ہونے والے مظالم نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انچی (جھاڑ کھنڈ) میں مسلماں مظاہرین پر پولیس کی سیدھی فائرنگ نے مودی کے چہرے کی کالک اور گہری کر دی۔ کانپور میں زیر حراست مسلمانوں پر لاٹھیوں سے جو ظالمانہ تشدد کر کے ان کی ٹانگیں توڑ دی گئیں، اس کی ویڈیو بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی وڈیوز میں شامل رہی۔
مسلمان باہر نکل رہے ہیں بھارت کے ہر علاقے میں انہوں نے مظاہرے کئے ہیں اور سب سے اہم نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نریندر مودی اور اس کی پاگل جنونی بی جے پی کے مخالف ہندو سیاستدان جو مایوسی کی وجہ سے دبکے پڑے تھے، اب نکل کر حکومت کی مذمت کرنے لگے ہیں اور ان کی گویا بن آئی ہے۔
اگلے الیکشن میں کیا ہو گا؟ حالیہ واقعات نے منظر نامہ تہہ و بالا کرنے کے اسباب پیدا کر دئیے ہیں۔ اب جنونیت کے مخالف ہندو رہنمائوں پر ہے کہ وہ کتنے متحد ہو کر اس "فتنے" کا سدباب کرتے ہیں جس نے عالمی سطح پر بھارت کی (نام نہاد) عظمت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور بھارت کی سلامتی کیلئے بھی خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ بی جے پی نے جنونیت کی حد پار کر کے اپنی ہی چتا تیار کرنے کا آیوجن کر ڈالا ہے۔
***
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ اگر گیس مہنگی نہ کی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
ملک دیوالیہ ہونے کی بات انہوں نے پہلی بار نہیں کی۔ قریب قریب ہر روز وہ یہی "خوشخبری" سناتے رہتے ہیں۔ ایک دن پہلے انہوں نے فرمایا تھا کہ انکم ٹیکس کا مسئلہ حل نہ کیا (یعنی اس کی شرح نہ بڑھائی) تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا اور اس سے ایک روز پہلے یہ کہا تھا کہ بجلی مہنگی نہ کی تو اور کچھ دن پہلے کہا کہ پٹرول مزید مہنگا نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہو جائیگا۔
"ملک ڈی فالٹ کر جائے گا" دراصل ان کا تکیہ کلام ہے۔ دروغ برگردن راوی، کل ہی اہل خانہ کو دھمکی لگائی کہ آج میری مرضی کا ناشتہ نہ بنایا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔
مفتاح بھائی، آپ نے پٹرول مزید مہنگا کرنا ہے، پھر بجلی کے ریٹ بڑھانے ہیں، پھر گیس مہنگی کرنی ہے، اس کے بعد ایک بار پھر پٹرول کے نرخ بڑھانے ہیں، پھر بجلی اور اس کے بعد پھر گیس مہنگی کرنی ہے اور اس کے بعد پھر پٹرول مہنگا، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے ہیں تو یہ کام تو آپ نے کرنا ہی کرنا ہے، کون آپ کو منع کر سکتا ہے، پھر یہ دھمکیاں دینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اپنے "فرائض ہائے منصبی" ملک ڈیفالٹ کی دھمکی کے بغیر بھی کر سکتے ہیں۔ آپ ون پیج رہیں۔ کل عمران خاں ون پیج پر تھے، کوئی انہیں روک سکا نہ آپ کو روک سکے گا۔ ون پیج یعنی یک صفحہ؎
یک صفحہ والوں کو بھلا روک سکے گا کوئی
***
ایک وقت تھا، گرمی کی خالی دوپہر میں لوگ اگر فارغ ہوتے تو بستر پر پڑے گھومتے پنکھے کی گردش سے لطف اندوز ہوتے۔ ٹکٹکی جما کر دیکھتے رہنے سے اچانک لگتا کہ پنکھے کے پر الٹی سمت میں گھومنے لگے ہیں۔ یہ مشغلہ بھی کیا لطف انگیز تھا۔
اب وہ دن گئے۔ پنکھے کی گردش موت کے کنویں میں دوڑتے موٹر سائیکل کی طرح لگنے لگی ہے۔ لوگ اب اس گردش سے نظارے نہیں ڈھونڈتے اور سوچتے ہیں کہ ہر گردش پر کتنے پیسوں کا بل آئے گا۔ بہتے تو دعا کرتے ہیں کاش لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ جائے۔ اور محکمے والے اتنے ظالم ہیں کہ مہنگی بجلی ان کیلئے کافی نہیں، غلط بل بھیج دیتے ہیں جو پھر ٹھیک بھی نہیں ہوتا۔ مریدکے میں غریب محنت کش کو معمول کے دو اڑھائی ہزار روپے کے بجائے 42 ہزار کا بل آ گیا۔ ظاہر ہے، یہ بل غلطی سے جاری ہوا۔ محنت کش شکایت لے کر گیا تو محکمہ والوں نے بل درست کرنے سے صاف انکار کر دیا، اب تو بل جاری ہو چکا، یہ رقم تو دینا ہی ہو گی۔ بے چارہ مقصود احمد صدمے سے چل بسا۔
یہ موت نہیں قتل ہے جس کا ذمہ دار غلط بل بنانے والا بھی ہے اور بل کی اصلاح کرنے سے انکار کرنے والا عملہ بھی اور یہ سارا نظام بھی جس کے پاس ایسی باتوں پر سوچ بچار کرنے کا وقت ہی نہیں۔
***
جے یو آئی کے "سیلف میڈ" گروپ کے رہنما مولانا شیرانی قدآور رہنما ہیں۔ یقین کیجئے، چھ فٹ سے بھی زیادہ اونچا قد رکھتے ہیں۔ یہ ممتاز بھی ہیں اور مشہور بھی اور بذلہ سنج بھی۔ کچھ عرصہ قبل فرمایا تھا، میں اپنے دشمن مولانا فضل الرحمن کو شکست دینے کے لیے شیطان سے اتحاد کرنے کو بھی تیار ہوں۔ خیر، تفنن برطرف گزشتہ روز اس بذلہ سنج رہنما کا عمران خاں سے سیاسی اتحاد ہو گیا۔ مولانا شیرانی نے سال دو سال پہلے اسرائیل کا مقدمہ بھی لڑا تھا اور فرمایا تھا، اسرائیل سے سفارتی تعلقات بنانے میں کوئی خرابی نہیں، دیکھئے، اس اتحاد پر کہاں کہاں سے مبارک باد آتی ہے۔