کردار کشی اور کردار کشائی
اسرائیل اور حماس میں 5 دن کی جنگ بندی ہوگئی۔ جنگ بندی کیلئے بظاہر امریکہ نے دباو ڈالا اور قطر کی خدمات حاصل کیں۔ دراصل امریکہ کو اسرائیل پر ترس آیا، اس نے کہا لاشیں گرا گرا کر تم تھک چکے ہو گے، کچھ دن آرام کر لو، تازہ دم ہو کر پھر مارنا۔ لیکن اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسرائیل نے خود ہی امریکہ سے کہا کہ جنگ بندی کرا دو البتہ ہمارا نام نہ آنے پائے، یہی لگے کہ امریکہ نے دباو ڈالا ہے لیکن بیچ کی خبر کب رکتی ہے، باہر آ ہی جاتی ہے۔
اسرائیل واقعی تھک گیا ہے۔ بندے مارنا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا اور اسرائیل نے تو ریکارڈ قائم کر دیا۔ ہسپتال بھی بمباری کرکے تباہ کر دئیے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی ایک خاتون رکن نے سرعام یعنی پارلیمنٹ کے اجلاس میں مائیک پر کہا کہ ہسپتال پر بمباری کرو، پھر گھس کر اس میں کام کرنے والے سارے ڈاکٹر بھی مار دو۔
تھکاوٹ کی ایک وجہ اسرائیل کے اندر، خود یہودیوں کی طرف سے پھوٹ پڑنے والے مظاہرے ہیں جن پر قابو پانے کے لیئے غزہ بھیجے گئے ریزرو فوجی واپس بلانے پڑے۔ اسرائیل میں فلسطینیوں کے حق میں یہودیوں کے اتنے بڑے مظاہرے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے اور یہ ہر روز ہو رہے ہیں اور مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ یہودی خود کو "خدائی انتخاب" CHOSEN PEOPLE کہتے ہیں۔ ان "منتخب" لوگوں میں پھوٹ پڑ گئی، یہ کس کا انتخاب ہوا۔
مظاہروں میں امریکہ کے لوگ بہت آگے نکل گئے، اتنے شہروں میں اتنے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ پریشانی میں پڑ گئی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں فوج، میڈیا، تمام ریاستی ادارے، تمام ریاستوں کی پارلیمنٹس شامل ہیں۔
اکثر ریاستوں میں قانون نافذ ہے کہ جو بھی اسرائیل کے بائیکاٹ کی بات کرے گا، اسے مکان بنانے کیلئے قرضہ ملے گا نہ دوسری ریاستی مراعات۔
کل ہی ٹیکساس کے شہر آسٹن میں جلوس نکلا۔ لاہور میں آپ نے جماعت اسلامی کا مظاہرہ دیکھا، تاریخ کا بڑا مظاہرہ تھا لیکن لاہور ڈیڑھ کروڑ آبادی کا شہر ہے اور لگ بھگ سبھی آبادی مسلمان ہے، آسٹن دس لاکھ آبادی کا چھوٹا شہر ہے لیکن اس میں جو جلوس نکلا، وہ لگ بھگ اتنا ہی بڑا تھا جتنا لاہور میں جماعت اسلامی کا تھا۔ اور اس جلوس میں فلسطینی اور عرب کتنے ہوں گے، دوسرے مسلمان کتنے ہوں گے۔ چند سو، باقی سب غیر مسلم امریکی تھے یعنی کہ عیسائی۔
"نیوز ویک" نے لکھا ہے اسرائیل نے جو بھی کیا (غزہ میں پندرہ ہزار مار دئیے، لاکھوں گھر پیوند خاک کر دئیے وغیرہ)لیکن وہ یہ جنگ ہار چکا ہے۔ غزہ چار دن کی یلغار کی مار ہے، یہی کہا تھا۔ لیکن ڈیڑھ مہینہ ہوگیا، حماس جوں کی توں موجود ہے۔ شہری آبادی تہ تیغ کر ڈالی، سورمائی اسے نہیں کہتے!
***
شاہ رحونیات کے بارے میں سابق خاوند اوّل کے انکشافات نے جو دھول اڑائی اس سے پی ٹی آئی کی آنکھیں"بھاری" ہوگئیں، نہ ٹھیک سے دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی دیتا ہے اور اب خبر آ گئی ہے کہ ملک کے مایہ ناز پراپرٹی ٹائیکون یعنی لینڈ مافیا کنگ بھی پریس کانفرنس کرنے والے ہیں یا ان کا انٹرویو نشر ہونے والا ہے جس میں وہ اس "ساجھے" داری سے پردہ اٹھائیں گے جو گزشتہ دور میں انہوں نے کنگ آف رحونیات کے ساتھ کی تھی اور نبھائی بھی تھی۔
پی ٹی آئی والوں کے بیانات آ رہے ہیں کہ ہمارے کنگ کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
ان احباب کو کشی اور کشائی کا فرق غالباً معلوم نہیں۔ کنگ صاحب کی کردار کشی نہیں، کردار کشائی ہو رہی ہے۔ کردار کشائی بروزن نقاب کشائی۔ نقاب اٹھتا ہے تو وہی نظر آتا ہے جو ہے، جو نہیں ہے وہ نظر نہیں آتا، اس کا تو نقاب ہی نہیں ہوا جسے اٹھانے کی ضرورت ہو۔ پی ٹی آئی کے احباب اپنی معلومات درست کر لیں۔ وہی کچھ دکھایا اور بتایا جا رہا ہے جو تھا یا جو اب بھی ہے۔ پی ٹی آئی کے سب احباب البتہ اتنے ناواقف نہیں، کچھ بات کو سمجھنے والے بھی ہیں چنانچہ ان کا بیان یہ نہیں ہے کہ کردارکشی کی جا رہی ہے، ان کا فرمانا یوں ہے کہ ذاتی زندگی کو کیوں اچھالا جا رہا ہے۔
ایک بھارتی فلم میں دکھایا گیا کہ ایف بی آئی والوں نے کسی رکن اسمبلی کے گھر چھاپہ مارا تو صوفوں کے اندر سے، چھت کی "سیلنگ" سے، دیواروں میں چھپی الماریوں سے، تہہ خانے سے، درازوں، الماریوں سے کرنسی نوٹوں کے ان گنت تھدے برآمد ہوئے۔ دسیوں کروڑ رقم تھی۔ پوچھا، اتنے نوٹ کہاں سے آئے، بولے یہ میرا "ذاتی معاملہ" ہے۔
صرف ذاتی معاملہ ہی نہیں تھا، چھاپہ مار کر "چاردیواری" کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ یہ فقرہ اس رکن اسمبلی نے نہیں کہا لیکن جو ہمارے مایہ ناز ماہر قانون بلکہ ماہر انصاف چودھری اعتزاز احسن اگر بھارت میں ہوتے اور اس "مردپارس" کے وکیل بھی تو یہ فقرہ ضرور کہتے اور بار بار کہتے۔
***
شریعت کی خبر ہے کہ قیامت کے روز ہر گناہ گار کے جملہ اعضا گواہی دیں گے، گن گن کر صاحب اعصا کے کرتوت بتائیں گے۔
پی ٹی آئی والے حیران ہیں کہ جو کچھ قیامت کو ہونا تھا، وہ ہمارے کنگ آف رحونیات کے ساتھ اسی دنیا میں کیوں ہو رہا ہے۔ صرف خاور مانیکا اور پراپرٹی ٹائیکون (مایہ ناز) ہی نہیں، بہت سے دوسرے "اعضا" بھی گواہی دینے والے ہیں۔ قبل از مانیکا درجن بھر تو پہلے ہی دے چکے۔ سچ ہے، سب کا نہیں البتہ کسی کسی کا عرصہ محشر یہیں پر برپا ہو جاتا ہے۔
***
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پھر کہا ہے کہ کسی کو زبردستی کا وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔
کسی سے مراد نواز شریف ہی ہے۔ دروغ برگردن دروغ گو، ایک صاحب نے محفل میں بلاول صاحب سے پوچھا کہ سر، اگر وہ آپ کو وزیر اعظم بنا دیں، زبردستی تو۔۔
دروغ ایک بار پھر برگردن دروغ گو، یہ سوال سن کر بلاول میاں شرما گئے اور سر جھکا کر بولے، قبول ہے۔ دروغ گو کے مطابق انہوں نے قبول ہے تین بار کہا۔
***
پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری نے کہا ہے کہ خان صاحب کا جیل میں ہونا ہماری انتخابی مہم کو آسان کر رہا ہے۔
دلی دعا ہے، آپ کی انتخابی مہم مزید آساں ہو اور تادیر آسان ہی رہے۔ آمین۔
***
ایک خبر کے مطابق تمام مکاتب فکرکے علمائے کرام نے کہا ہے کہ عورت کی پیری مریدی، نامحرم مرد کے ساتھ روحانی خلوتیں وغیرہ ناجائز ہیں، شریعت میں اس کی اجازت نہیں۔ علمائے کرام نے عدت میں نکاح کو بھی حرام کہا۔
بھئی ہمیں ان تمام علمائے کرام پر ذرا بھی اعتماد نہیں۔ ہم تو اصلی اور رحونیاتی عالم دین مولانا طارق جمیل سے اس بارے میں فتویٰ لیں گے، اس دور میں وہ اکیلے ہی "علمائے" حق ہیں۔